تحریر نمرہ احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
وہ چینی کی پلیٹیں کیبنٹ سے احتیاط سے نکال کر کاونٹر پہ رکھ رہی تهی-جب آہٹ پہ چونک کر پلٹی-
کچن کے کهلے دروازے میں فضہ چچی کهڑی اس کو بغور دیکھ رہی تهین-
” جی چچی؟” وہ قدرے الجهی-پهر ایک نظر خود پہ ڈالی- سادہ سی گلابی شلوار قمیص پہ سیاہ دوپٹہ کندهوں کے گرد لپیٹے سلک بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں مقید کیےوہ ہر دن کی طرح ہی لگ رہی تهی- پهر چچی کا کیا ہوا تها؟-
” کچھ چاہئیے چچی؟” اس نے پهر پوچها – ان کی نظریں اب اس کو پریشان کرنے لگی تهیں-
“ہوں، نہیں-” فضی چچی نے سر جهٹکا اور واپس چلی گئیں- جاتے سمے اسے اسن کے چہرے پہ ہلکا سا تنفر نظر آیا تها-
” ان کو کیا ہوا ہے؟” وہ پلیٹیں کپڑے سے صاف کرتے ہوئے سوچنے لگی- پهر شانے اچکا کر کام میں مصروف ہو گئی- ڈنر کا ٹائیم ہونے والا تها اور اسے میز لگانی تهی- سب آتے ہی ہونگے-
” میں نے اور مسرت نے وسیم کا رشتہ طے کر دیا ہے-” آپ سب کو یقینا” علم ہو گا- وہ رائتے کا ڈو نگہ میز پہ رکھ رہی تهی جب آغاجان نے سب کو مخاطب کیا-
ڈائننگ ہال میم سناٹا سا چها گیا، گو سب کو معلوم تها ہی پهر بهی اب چپ تهے- وہ سر جهکائے اپنی آخری کرسی پہ آ بیٹهی اور پلیٹ اپنی جانب کهسکائی-
” یہ فیصلہ آپ نے بالا ہی بالا کر لیا یا چچی مسرت سے پوچهنے کی زحمت بهی کی ؟” حسن کے طنزیہ لہجے نے سب کوچونکایا تها- وہ بهی بےاختیار سر اٹها کر اسے دیکهنے لگی جو اکهڑے تیوروں کے ساتھ آغاجان کو دیکھ رہا تها-
” کیا مطلب؟ مسرت کی مرضی سے ہوا ہے رشتہ-” آغاجان برہم بهی ہوئے اور حیران بهی-
” کیوں چچی؟” اس نے خاموشی سے سر جهکائے بیٹهی مسرت کو مخاطب کیا- ” آپ کو اس وسیم کا رشتہ منظور ہے جسے خاندان میں کوئی اپنی بیٹی دینے کو تیار نہیں ؟”
مسرت کا جهکا سر مزید جهک گیا، فضہ نے ناگواری سے پہلو بدلا-
” بتائیے چچی- اگر آپ خاموش رہیں تو اس کا مطلب ہے، آپ کے ساتھ آغاجان نے زبردستی کی ہے-”
” کہا بکواس ہے یہ حسن؟”
” آغاجان! مجهے مسرت چچی سے بات کرنے دیں- “حسن کی آواز بلند ہونے لگی تهی- سب دم بخود اس کو دیکھ رہے تهے-
“بتائیے چچی! آپ کو رشتہ منظور ہے؟”
” نہیں!” محمل نے قطعی انداز میں کہا- اسے معلوم تها اس کی ماں کچھ نہیں بول سکے گی-
سب نے چونک کر اسے دیکها- خود حسن بهی قدرے ٹهٹهکا-
” تم بیچ میں مت بولو-” آغاجان برہم ہوئے-
“ابهی نہیں بولی تو نکاح کے وقت انکار کردونگی- یہ حق مجهے میرے دین نے دیا ہے- آپ نے میرے ساتھ زبردستی کی تو میں کورٹ تک چلی جاؤنگی-
” مگر تمہیں کیا مسئلہ ہے وسیم سے؟ غفران چچا جهنجهلائے- ایسی ہی جهنجهلاہٹ فضہ کے چہرے پہ بهی تهی-
“اگر وسیم اتنا ہی اچها ہے تو غفران چچا آپ ندا یا سامیہ باجی کا رشتہ اس کے ساتھ کیوں نہیں کر دیتے؟”
بہت دنوں بعد پورے گهر نے پرانی محمل دیکهی تهی-
” شٹ اپ”-
” میں انکار کر چکی ہوں، اگر آپ لوگوں کو مزید اپنی بےعزتی کروانے کا شوق ہے تو میں نکاح کے موقع پہ اس سے بهی زوردار انکار کرونگی-”
ارے شکر کرو کہ ہم تمہں بہو بنا رہے ہیں-” بہت دیر سے خاموش بیٹهی تائی مہتاب ضبط نہ کر پائیں- جو لڑکی ایک رات گهر سے باہر رہ چکی ہو- اسے کوئی قبول نہیں کرتا- ہم بہو نہ بنائیں تو کون قبول کرے گا تمہیں-”
” میں!” حسن جیسے بهڑک کر بولا تها- ” میں قبول کرونگا محمل کو- وہ وسیم سے شادی نییں کرنا چاہتی، میں اپنا نام مسرت چچی کے سامنے رکھ رہا ہوں اور چچی! میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا-
” ہرگز نہیں-” فضہ پهٹ پڑیں- ” میں اس لڑکی کو کبهی قبول نہین کرونگی جو کسی کے ساتھ بهاگ گئی تهی- ”
” ممی!” وہ زور سے چیخا تها-
اس سے مزید سنا نہیں گیا وہ کرسی دهکیل کر بهاگتی ہوئی ڈائننگ ہال سے نکل گئی-
بریگیڈئیر فرقان کا بنگلہ، جس کے ٹیرس پہ بوگن ویلیا کی بیلوں کا راج تها، آج بهی اسے ویسا ہی اداس اور ویران لگا تها، بلکہ وہ شاید ہمیشہ ہی سے ایسا ہوتا تها- مکین کے خود قرآن پڑهنے اور مکان کو محض سنوارنے میں بہرحال فرق تو ہوتا ہے-
آج پهر وہ چند پمفلٹس ہاتھ میں پکڑے ان کے گیٹ پہ کهڑی تهی-
بیل پہ ملازم نے دوڑ کر چهوٹا دروازہ کهولا-
” جی بی بی ؟” اس نے سر باہر نکالا-
” مجهے بریگیڑئیر فرقان سے ملنا ہے، وہ اندر ہیں،”
” جی وہ کام کر رہے ہیں-”
” ان سے کہو محمل آئی ہے!” قدرے تحکم سے کہہ کر وہ سینے پہ بازو باندهے وہیں کهڑی ہو گئی- فورا ملازم اندر کو دوڑا – چند ہی لمحے بعد اس کی واپسی ہو گئی-
” صاحب کہہ رہے ہیں آپ اپنے یہ کاغذ لے لیں-” اس نے پرانے پمفلٹس اس کی طرف بڑهائے-
” انہوں نے پڑھ لیے ہیں؟”
” نہیں جی، وہ مصروف تهے-”
” اپنے صاحب کو کہو یہ ان پہ میری امانت تهی، جب انہوں نے لیے تهے تو میری سونپی گئی ذمےداری بهی انہیں نبهانی تهی، ورنہ لینے سے ہی انکار کر دیتے- انہوں نے خیانت کر کے یہ لوٹائے ہیں اور اگر میں نے انہیں معاف نہین کیا تو انہیں معافی نہیں ملے گی-” ملازم ہونقوں کی طرح اسے دیکهنے لگا، پهر اندر لپکا-
” صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں؛” وہ پیغام دے کر جلد ہی واپس آیا تها-
” شکریہ-” وہ پورے اعتماد سے اندر چلی آئی-
اسٹڈی کا دروازہ کهلا تها- محمل نے چوکهٹ میں کهڑے کهڑے دروازہ انگلی کی پشت سے بجایا-
اسٹڈی ٹیبل کے پیچهے ریوالونگ چئیر پہ بیٹهے بریگیڈئیر فرقان نے کتاب پہ جهکا سر اٹهایا اور عینک کے پیچهے سے اسے دیکها جو دروازے کے بیچ کهڑی تهی-
یونیفارم کی سفید شلوار قمیص اور چہرے کے گردنفاست سے لپٹا ترو تازہ گلابی اسکارف جو پیچهے سے اونچی پونی کے باعث ذرا سا اٹھ گیا تها- ہاتھ میں چند پمفلٹس پکڑے وہ دراز قد سنہری آنکهوں والی لڑکی منتظر سی کهڑی تهی-
” کم ان-” بریگئڈئیر فرقان نے چشمہ اتار کر میز پہ رکها، کتاب بند کی، اور کرسی پہ قدرے پیچهے کو ٹیک لگائی-
” میں کچھ پمفلٹس دے کر گئی تهی-”
” اور میں نے واپس کر دیے تهے، اور کچھ؟” ان کے بارعب چہرے پہ قدرے ناگواری تهی-
” جی، یہ کچھ اور ہیں-” وہ آگے بڑهی اور کچھ اور پمفلٹس ان کی میز پہ رکهے- ” یہ آپ پڑھ کر مجهے واپس کر دیجئے گا-”
” مگر مجهے یہ نہیں چاہئییں-” وہ بےزار سے بولے-
” میں نے آپ کو چوائس تو نہیں دی سر! آپ کو یہ لینے پڑیں گے، میں کچھ عرصے بعد آ کر واپس لے لونگی-
پڑھ کر سنبهال لیجئے گا، ان پہ اللہ کا نام لکها ہے، امید ہے آپ پهینکیں گے نہین- ” وہ کهڑی کهڑی کہہ کر تیزی سے واپس پلٹ گئی-
بریگیڈئیر فرقان نے تلملا کر ایک نظر ان پمفلٹس کو دیکها، پهر دراز میں ڈال کر اپنی عینک اٹهائی اور کچھ بڑ بڑاتے ہوئے کتاب کهولی-
وہ اپنی دهن میں راہداری میں چلتی جارہئ تهی کہ اچانک دوسری طرف سے آتی فرشتے پہ نگاہ پڑی، اس کے لب بهنچ گئے، بےاختیار ہی وہ پیچهے ہوئی تهی-
فرشتے نے اسے نہیں دیکها تها- وہ اپنے ساتھ چلتی ٹیچر سے فکر مندی سے کچھ کہتی چلی آرہی تهی- محمل الٹے قدموں واپس ہوئی اور برآمدے میں رخ موڑ کر کهڑی ہو گئی- اس کی توقع کے عین مطابق فرشتے نے اس کی موجودگی نوٹ نہیں کی – ساتهی اور ٹیچر کے ہمراہ نیچے پرئیر ہال کی سیڑهیاں اترتی گئی-
پرئیر ہال میں ملک کے نامور مزہبی اسکالر ڈاکٹرسرور مرزا کے لیکچر کا انعقاد تها- وہ بهی سست روی سے چلتی ہوئی ایک درمیانی صف کی نشست پہ جا بیٹهی- ابهی لیکچر شروع نہیں ہوا تها- محمل نے ہاتھ میں پکڑا پاکٹ سائز قرآن کهولا اور یوں ہی پڑهنے کے لیے صفحے پلٹنے لگی-
فرشتے نے ایسا کیوں کیا؟ یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کر رہا تها-
اس نے آغا جان سے محمل کی جائیداد مں سے حصہ کیوں مانگا؟ فرشتے جیسی لڑکی اتنی مادہ پرست بهی ہو سکتی ہے-وہ تو سوچ بهی نہیں سکتی تهی-
اس نے مطلوبہ صفحہ نکالا اور وہ آیات نکالیں جو آج پڑهائی جانے والی تهیں مگر ڈاکٹر سرور کے لیکچر کے باعث آج تفسیر کی کلاس نہیں ہونی تهی-
” اور ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں-
” اوہ!” گہری سانس لے کر محمل نے قرآن بند کیا-
” میرا کچھ بهی پرائیویٹ نہیں ہے-“اس نے آہستہ سے گردن اوپر اٹهائی اور پهر اوپر کی طرف دیکهتے ہوئے مسکرا کر سر جهٹکا- جب بهی ایسا کچھ ہوتا تها، اسے قرآن پہ بےحد پیار آتا تها- اسے لگتا تها دنیا میں اس سے تیز کوئی کمیونیکیشن موڈ ایجاد نہین ہوا تها-
” مگر ایسا کیا ہے جو مجهے اس سوال کا جواب برا لگے گا-؟”
وہ نہ چاہتے ہوئے بهی پهر سے سوچنے لگی-
ڈاکٹر سرور لیکچر شروع کر چکے تهے- پورا ہال کهچا کهچ بهرا تها- دور دور تک پنک اسکارف میں ڈهکے سر دکهائی دے رہے تهے- اسٹیج کے قریب چئیرز پہ اسٹاف موجود تها-فرشتے بهی وہیں ایک کرسی پہ بیٹهی، ڈائری پہ تیز تیز لیکچر نوٹ کر رہی تهی- اسے نوٹس لیتے دیکھ کر وہ خود بهی چونک کر ڈاکٹر سرور کی طرف متوجہ ہوئی جو روسٹرم پہ کهڑے تهے-سر پہ جناح کیپ، سفید داڑهی، شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس وہ کافی منجهے ہوئے اسکالر تهے وہ اکثر ان کو ٹی وی پہ دیکهتی رہتی تهی-
اپنی سوچوں کو جهٹک کر وہ بغور لیکچر سننے لگی-
” بعض لوگ قرآن پڑھ کر بهٹکتے ہیں- واقعی، ایسا ہوتا ہے-” وہ اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہے تهے- اس لیے بہتر ہے کہ قرآن کسی اچهے غیر متعصب عالم سے زندگی میں ایک دفعہ ضرور پڑھ لینا چاہئے- مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کا “دامن” پکڑنا ضروری ہے- بلکہ کسی غیر متعصب تفسیر کو پڑھ کر بهی کسی حد تک قرآن کی سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکتی ہے- قرآن کو پڑھ کر ہم ہر آیت کے اپنے حالات کے مطابق کئی مطالب نکالیں، وہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے، مگر ظاہر کو باطن سے تشبیہہ دینا قطعا غلط ہے- مثلا بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا جو حکم اللہ سبحانہ وتعالی موسی ع کے ذریعے دیا تها، وہ ہم سب جانتے ہیں- اس واقعے سے ہم یہ سبق تو نکال سکتے ہیں کثرت سوال سے حکم مشتبہ ہو جاتے ہیں- مگر اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا کہ وہاں ” گائے” سے مراد ایک صحابیہ ہیں، نعوذ بااللہ بعض لوگوں نے واقعتا” یہاں ” گائے” سے مراد ایک صحابیہ کو لیا ہے- ایک اور مثال ، سورہ حجر کی آخری آیات میں ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین آجائے-
اب یہاں ” یقین” سے مراد ” موت” ہے- یعنی موت آنے تک عبادت کرتے رہو- مگر بعض لوگ یہاں یقین سے مراد belief لے کر، اپنی عبادت کو کافی سمجھ کر بس کر دیتے ہیں- کہ جی، ہمیں اپنی عبادت پہ یقین آگیا ہے تو سب عبادتیں بس ختم!”
” سورت حجر کہاں تهی بهلا؟” اس نے آہستہ سے اپنا چهوٹا قرآن کهولا اور صفحے پلٹنے لگی- سورت حجر ملی تو اس نے آخری آیات کهولیں- آیت وہی تهی جو وہ کہہ رہے تهے- مگر آخر تین الفاظ عربی میں ” حتی یاتی الیقین” تهے ( حتی کہ یقین آجائے)
” یقین” اس نے الیقین پہ الجھ کر انگلی پهیری، پهر الجھ کر ڈاکٹر سرور کو دیکها- وہ کہہ رہے تهے-
یہاں پہ یقین سے مراد یقین نہیں بلکہ موت ہے- سو اس طرح کے الفاظ کا من چاہا مطلب نکالنا انسان کو بهٹکا سکتا ہے- اینی کویسچن؟” انہوں نے رک کر ایک گہری نظر اس پہ ڈالی-
محمل نے ہاتھ فضا میں بلند لیا-
” یس؟” انہوں نے سر کے اشارے سے اجازت دی-، وہ ہاتھ میں قرآن پکڑے اپنی نشست سے اٹهی-
” سر! مجهے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی- میرے پاس بغیر ترجمے والا مصحف ہے- اس میں مذکورہ آیت میں واقعتا” “یقین” کا لفظ استعمال ہوا ہے- سو اس کا مطلب ،موت” کیسے ہوا؟ دونوں الفاظ میں خاصا فرق ہے-”
” اس کا مطلب موت ایسے ہے کہ-” وہ ذرا دیر کو رکے، اور بغور اسے دیکها- ” میں نے اس کا مطلب موت نکالا ہے-”
” جی سر، میرا یہی سوال ہے کہ کیسے؟ دلیل کیا ہے اسکی؟”
” دلیل یہ ہے کہ میں نے، یعنی ڈاکٹر سرور مرزا نے اس کا مطلب موت لیا ہے- میں اس ملک کا سب سے بڑا اسلامک اسکالر ہوں- آپ میرے کریڈینشلز اٹها کر دیکهیں، میری ڈگریز اٹها کر دیکهیں- کیا میری بات بطور ایک ٹهوس دلیل کے کافی نہیں؟”
اگلی صفحوں میں بیٹهی لڑکیاں گردنیں موڑ کر اسے دیکهنے لگی تهیں جو ہاتھ میں چهوٹا قرآن پکڑے کهڑی تهی-
” سر! آپ کی بات یقینا” اہم ہے، مگر قرآن کا بعض اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے، حدیث بهی یہ کرتی ہے- کیا قرآن یا حدیث مین کہیں یہ ذکر ہے کہ یہاں “یقین” سے مراد موت ہے؟ وہ بہت شائستگی و لحاظ سے مؤدب سی پوچھ رہی تهی- ڈاکٹر سرور کے چہرے پہ واضح ناگواری ابهری-
جاری ہے…..