Syed Nadeenm Siddiqi
گھر میں ایک مدت بعد بچے کی کلکاریاں گونجیںتو دادا دادی کی بانچھیں کھل گئیں، جشن منایا گیا بچے کی ہر ادا پر جان چھڑکی گئی اور بچہ جیسے جیسے بڑھتا گیا اس کی ہر خواہش پوری کی گئی اگر وہ کبھی نازیبا حرکت بھی کرتا تو دادا دادی اور پھوپھیاں مسکراتیں کہ دیکھو کتنا تیز ہے اب اس کی عمر کے ساتھ خواہشات اور فرمائشیں بھی بڑھنے لگیں، ان فرمائشوں میں جب شد ت پیداہونے لگی تو ماں باپ نے سرزنش کرنے کی کوشش کی تو اب بھی دادا دادی اور پھوپھی کی آنکھوں پر محبت کا پردہ پڑا رہا، ہر بار سرزنش پر ان کی محبت رُکاوٹ کھڑی رہتی رہی۔ جب ماں یا باپ نے سختی کرنی چاہی تو پھوپھی بول رہی تھی: ارے بھابی! تم پر اس طر ح سختی کرو گی تو یہ جب بڑا ہوگا تو تم سے انتقام لے گا،ذرا نرمی سے کام لو ۔
چونکہ گھر کے تمام لوگ مشترکہ خاندان کی طرح رہ رہے تھے لہٰذا کوئی ایک شخص بھی اپنی مرضی چلا تا تو کنبے کا شیرازہ بکھرنےکی نوبت آسکتی تھی لہٰذا احتیاط کی گئی اور اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچہ شیر ہوتا چلا گیا۔ اب وہ اپنی خواہش پوری کروانے میں ہر طرح کا حربہ استعمال کرتا تھا جب دادا دادِی اور گھر کے دیگر افراد کو اس کا احساس ہوا تو پانی سر سے اوپر جا چکا تھا ۔ اب سب نے ( مجرمانہ)خموشی اختیار کی۔ بوڑھی دادی نے پسر زادے سے کہا کہ بیٹا! اپنے باپ سے موبائیل پر بات کروادے۔ پوتے کو ناگوار گزرا کہ دادی ہر وقت مجھ ہی سے یہ کہتی رہتی ہیں،غصے میں اس نے موبائیل ہی زمین پر دے مارا۔ اب دادی کی آنکھیں کھلیں۔ مگر پھر وہی خاموشی کہ اگر وہ کچھ کہتی ہیں تو بہو یہ کہے گی کہ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔ پہلے اگر اس کی لگام کھینچی گئی ہوتی اور آپ لوگوں کابیجا لاڈو پیار رُکاوٹ نہ بنتا تو شاید یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے۔
یہ صورتِ حال اکثر گھروں کی ہے۔ ہم اپنے بچپن اور اپنے خاندان کی کچھ باتیں بھی بیان کرتے ہیں۔ ہمارے ماموں زاد بھائی کو ایک روپیہ دِیا گیا اور اس سے بازار سے کوئی شے منگوائی گئی وہ بازار سے لوٹا تو جو کچھ منگوایا گیا تھا اس میں چار آنے بچ گئے۔ وہ چار آنے ایک سِکّے کی صورت میں تھے جسے اُس زمانے میں ہمارے ہاں چونّی کہا جاتا تھا۔ بھائی کی کسی خواہش نے بہکایا اور اس نے گھر میں بہانہ کیا کہ وہ چونی راستے میں مجھ سے کہیں گِر گئی۔ ماموں سخت مزاج تھے۔ وہ بھانپ گئے کہ بیٹا جھوٹ بول رہا ہے۔ انہوں نے بیٹے کو قریب بلایا اور ہاتھ پکڑ کر کہا:’’ تم سچ کہہ رہے کہ چو نی کہیں گِر گئی ہے ؟‘‘ بیٹے نے اپنے جھوٹ کو دُہرایا۔ ماموں نے الماری سے موم بتی نکالی اور اسے جلایا، بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر موم بتی کی لَو پر رکھ دِیا اور کہا کہ اب بول’’ چونّی گر گئی ہے‘‘ ۔؟ظاہر ہے موم بتی کی لَو پر ہتھیلی رکھی ہو اور نودَس برس کا بچہ کب تک اپنے جھوٹ پر برقرار رہتا، آخر اس نےسچ اُگل دِیا۔ موم بتی ہی پر بس نہیں کیاگیا بلکہ اب جھوٹ بولنے پر اُس بچے نے باپ کے ہتھڑ بھی کھائے۔ دراصل باپ اس قاعدے پر عمل پیرا تھے کہ’’ بچے کو سونے کا نوالہ کھلاؤ مگر دیکھو اسے شیر کی نگاہ سے۔‘‘
ہمارا وہ بھائی ! گزشتہ دسمبر میں کوئی ساٹھ برس سے زائد عمر گزار کر دُنیا سے رخصت ہو گیا مگر موم بتی کی وہ لَو عمر کے آخری دن تک نہیں بھولا، اِس نے پھر کبھی جھوٹ نہیں بولا اور چونی گرنے کا بہانہ بھی اس نےپھر نہیں کیا۔
دانا کہہ گئے ہیں کہ بچّے کا دِل و دماغ کچّی گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے اس عمر میں وہ جو کچھ دیکھے گا، سنے گا وہ عمر بھر اس کے ساتھ رہے گا۔ یہ قول کس نے نہیں سناہوگا کہ ’نقشِ اوّل ہی نقش آخر بن جاتا ہے‘، البتہ اس کی شکلیں ضروربدل سکتی ہیں اور اس کے اثرات کسی نہ کسی طور ذہن و قلب پر باقی رہیں گے۔ ہم جو عمر کے چھ دہے پورے کر چکے ہیں۔ اس مقولے پر جب غور کر کے اپنے بچپن اور اُس دور کے مشاہدات و تجربات یاد کرتے ہیں تو اس عمر میں جبکہ حافظہ بسا اوقات خطا بھی ہوتا ہے مگر کم عمری کی وہ ساری باتیں کسی فلم کی طرح ذہن میں چلتی محسوس ہوتی ہیں۔
سچ ہے کہ بچے کے ساتھ والدین کا رویہ بے حد محتاط ہونا چاہیے ۔
مگر یہ بات عمر کے آخری حصے میں سمجھ میں آئی جب کہ چڑیا ہاتھ سے نکل کر آسمان کی طرف اُڑ گئیں اور اب ہم کبھی آسمان تو کبھی زمین دیکھ دیکھ کر کُڑھ رہے ہیں۔ کل جب کوئی سمجھاتا تھا تو اسے بے وقوف سمجھتے تھے کوئی یقین کرے ،نہ کرے ہم میں سے بیشتر افراد کی یہی روداد ہے۔ اب ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ عزیزو! ہم ٹھوکر کھا چکے ہیں اب تم تو بچو۔‘‘ تو جواب ملتا ہے چچا! آپ نے خوب مٹھائی کھائی ہے اور ہم سے کہہ رہے ہو کہ مٹھائی کھانے سے دانت خرا ب ہو جاتے ہیں، جاؤکہتے رہو، ہم تو مٹھائی کھا کے رہیں گے۔
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اوپر بیان کردہ صورتِ حال اکثر اُن گھروں میں دیکھی جارہی ہے جو یا تو خوب آسودہ ہیں یا قدرے آسودہ ہیں۔ اسکے بر عکس اُن گھروں میں جو پریشاں حال ہیں وہاں صورتِ حال اکثر ایسی نہیں ہے،دراصل ہمارا ایک مسئلہ اب آسودگی بھی ہے بلکہ اس پر غور کریں تو ممکن ہے اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہی اصل جڑ بنیاد ہے،واضح رہے کہ استثنیٰ سے کوئی شعبہ خالی نہیں۔
بزرگوں ہی کا قول ہے کہ’’ میاں! آسودگی بھی زہر ہے البتہ یہ دِھیما زہر ہے اس کے نتائج اکثر اوقات فورا ً نہیں بلکہ کبھی بہت دیر سے یا پھر کچھ دیر سے سامنے آتے ہیں مگر اس وقت تک ہاتھ سے طوطے اڑچکے ہوتے ہیں۔‘‘
اور پھرہم جیسوں کے ہاں ایسے شعر بھی ہوجاتےہیں:
آسودگی کے زہر کا تریا ق بھی نہیں
ہم لوگ اپنے پاؤں کی زنجیر ہوگئے
جسے دیکھو یہ کہتا ملتا ہے کہ زمانہ بہت خراب ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہم’ خراب زمانے‘ کی تکرار بچپن سے سُن رہے ہیں۔ ہمارے نانا، دادا اور پھر اس کے بعد کے بزرگ بھی یہی رونا روتے رہے کہ’’ میاں ! بہت بُرا دَور ہے۔ ‘‘ آج اپنی عمر کے اکثر افراد سے ہم یہی سن رہے ہیں۔دراصل ہم سنی سنائی بس’ دُہراتے‘ ہیں نہ اس پر غور کرتے ہیں اور نہ ہی کہنے سے قبل کچھ سوچتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں نتیجہ کیا ہاتھ آئے گا۔!!
پرانوں کا یہ قول بھی ذہن میںتا زہ ہے:’’میاں! جو بوؤگے وہی کاٹو گے۔‘‘
سچ ہےہم سب وہی کاٹ رہے ہیں جو بویا تھا، اے کاش! اب ہمار نئی نسل وہ نہ بوئے جو ہم کاٹ رہے ہیں۔