(۳۰)پانچ دشمنانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کفار قریش کے پانچ سردار (۱)عاص بن وائل سہمی(۲)اسود بن مطلب(۳)اسود بن عبدیغوث (۴)حارث بن قیس (۵)ولید بن مغیرہ۔
یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ ایذائیں دیتے اور آپ کا بے حد تمسخر اور مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں تشریف لائے تو یہ پانچوں خُبَثَاء بھی پیچھے پیچھے آئے اور حسب عادت تمسخر اور طعن و تشنیع کے الفاظ بکنے لگے اسی حالت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص بن وائل سہمی کے پاؤں کے تلوے کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ کہا کہ میں ان لوگوں کے شر کو دفع کروں گا۔
چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ پانچوں دشمنانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم طرح طرح کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گئے۔ ولید بن مغیرہ ایک تیر بیچنے والے کی دکان کے پاس سے گزرا۔ ناگہاں ایک تیر کا پیکان اس کے تہمد میں چبھ گیا۔ مگر اس کو نکالنے کے لئے اس نے تکبر سے سر نیچا نہ کیا اور کھڑے کھڑے تہبند ہلا ہلا کر پیکان کو نکالنے لگا جس سے اس کی پنڈلی زخمی ہو گئی اور وہ زخم اچھا نہیں ہوا بلکہ اسی زخم کی تکلیف اٹھا اٹھا کر وہ مر گیا۔
عاص بن وائل سہمی کے پاؤں میں ایک کانٹا چبھ گیا جس سے اس کے پاؤں میں زہر باد ہو گیا اور اس کا پاؤں پھول کر اونٹ کی گردن کی طرح موٹا ہو گیا اسی تکلیف میں وہ تڑپ تڑپ کر اور کراہتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔
اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد اٹھا کہ وہ اندھا ہو گیا اور درد کی شدت سے وہ بے قراری میں اپنا سر دیوار سے بار بار ٹکراتا تھا اور اسی درد و کرب کی بے چینی میں وہ مر گیا اور یہ کہتا ہوا مرا کہ مجھ کو محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قتل کیا ہے۔
اسود بن عبد یغوث کو استسقاء ہو گیا جس سے اس کا پیٹ بہت زیادہ پھول گیا اور وہ اسی مرض میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہو گیا۔
حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ بہنے لگا اور وہ اسی میں مر کر ہلاک ہو گیا۔ اس طرح یہ پانچوں گستاخانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بہت جلد بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر ہلاک ہو گئے۔
(تفسیر صاوی،ج۳، ص ۱۰۵۳۔۱۰۵۲،پ۱۴، الرعد:۹۵)
ان ہی پانچوں گستاخوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی یہ آیت نازل فرمائی:۔ اِنَّا کَفَیۡنٰکَ الْمُسْتَہۡزِءِیۡنَ ﴿ۙ95﴾الَّذِیۡنَ یَجْعَلُوۡنَ مَعَ اللہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ۚ فَسَوْفَ یَعْلَمُوۡنَ ﴿96﴾
ترجمہ :۔ بیشک ان ہنسنے والوں پر ہم تمہیں کفایت کرتے ہیں جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے۔ (پ14،الحجر:95۔96)
درسِ ہدایت:۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کے ساتھ طعن و تمسخر، ان کی ایذاء رسانی اور توہین و بے ادبی وہ جرم عظیم ہے کہ خداوند قہار و جبار کا قہر و غضب ان مجرموں کو کبھی معاف نہیں فرماتا۔ ایسے لوگوں کو کبھی غرق کر کے ہلاک کردیا، کبھی ان کی آبادیوں پر پتھر برسا کر ان کو برباد کردیا، کبھی زلزلوں کے جھٹکوں سے ان کی بستیوں کو الٹ پلٹ کر کے تہس نہس کردیا۔ کچھ ذلت کے ساتھ قتل ہو گئے۔ کچھ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہو کر ایڑیاں رگڑتے رگڑتے اور تڑپتے تڑپتے مر گئے۔
اس زمانے میں بھی جولوگ بارگاہِ نبوت میں گستاخیاں اور بے ادبیاں کرتے رہتے ہیں وہ کان کھول کر سن لیں کہ ان کے ایمان کی دولت تو غارت ہوہی چکی ہے، اب ان شاء اللہ تعالیٰ وہ کسی نہ کسی عذاب ِ الٰہی میں گرفتار ہو کر ذلت کی موت مرجائیں گے اور دنیا ان کے منحوس وجود سے پاک ہوجائے گی۔ سن لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی ہرگز ہرگز غلط نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا تم لوگ انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں اور اگر عذابِ الٰہی کی مار سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی فقط ایک ہی صورت ہے کہ صدقِ دل سے توبہ کر کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت سے اپنے دلوں کو معمور و آباد کرلو اور اپنے قول و فعل اور اعتقاد سے تعظیم و توقیر نبوی کو اپنا دینی شعار بنالو۔ پھر تم دیکھنا کہ ہر قدم پر تمہارے اوپر خداوند قدوس کی رحمتیں نازل ہوں گی اور خاتمہ بالخیر کی کرامتوں سے تم سرفراز ہو کر دونوں جہاں کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤ گے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)