نارویجن اسمبلی اور متحرک پاکستانی
andleebany@gmail.com
تحریرشازیہ عندلیب
سال دوہزار بارہ کے آغاز سے نارویجن اسمبلی میں پاکستانی ساستدانوں کے حوالے سے کچھ ہلچل دیکھنے میں آئی۔ اس ہلچل اور ہل جل کو قومی اور میڈیا کی سطح پر خاصی توجہ ملی۔کئی روز تک نارویجن اخبارات ایک معتبر پاکستانی ممبر پارلیمنٹ چوھدری اختر کے حوالے سے خبریں شائع کرتے رہے۔جبکہ پاکستانی پولیس پاکستان میں مقیم نارویجنوں کی پکڑ دھکڑ کرتی رہی۔بات صرف اتنی سی تھی کہ چوھدری اختر صاحب نے ایک نارویجن محکمہء انٹیلیجنس کی سربراہ خاتون سے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ ان کے جاسوس کون کون سے ممالک میں کام کرتے ہیں ان خاتون نے بے دھیانی میں اس حوالے سے پاکستان کا نام بھی لے لیا۔بس پھرکیا تھا میڈیا کی دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئئی۔کیونکہ بقول شاعر بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کیسو نارویجن خاتون کو تو استعفیٰ دینا پڑا۔ ادھر نارویجن اخباروں میں اس حوالے سے ایک بحث چل نکلی، کہ آیاچوھدری صاحب کو یہ بات پوچھنی چاہیے تھی کہ نہیں؟؟ کچھ لوگوں کی رائے اس سوال کے خلاف تھی تو کچھ کی اس کے حق میں۔اس وجہ سے پاکستانی پولیس بھی متحرک ہو گئی انہوں نے جاسوسی کے الزام میں کئی گرفتاریاں کیں۔جاسوسی کا معاملہ حساس ضرور ہے مگر آجکل پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس حوالے سے دنیا بھر کے جاسوسوں کے لیے اس ے اچھی تفریح گاہ اور کوئی نہیں۔ویسے بھی پاکستان ایشیا کا دروازہ ہے۔ اس کے درواوازے ہر جاسوس کے لیے کھلے ہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ان کے لیے دعوت عام ہے۔کون ہے جو انہیں وہاں جانے سے روک سکتا ہے۔فوج؟حکمران؟میڈیا یا پھر چوھدری صاحب؟پاکستان کی رونقیں ان جاسوسوں کی وجہ سے ہی تو ہیں۔ویسے بھی جاسوسی ہر پاکستانی کا محبوب مشغلہ ہے۔انفرادی سطح پر ہر پاکستانی دوسرے پاکستانی کی ٹوہ اور جاسوسی میں مصروف رہتا ہے۔اڑوس پڑوس کی خبر رکھی جاتی ہے۔ جن کے پاس خود ٹائم نہیں ہوتا وہ یہ کام اپنے ملازموں اور بچوں سے کرواتے ہیں۔اس تمام جاسوسی کامقصد بھی وہی ہوتا ہے جو کہ ملکی سطح پر ہوتا ہے۔تمام جاسوسی کا محور و مرکز مالی،اور سماجی معالات ہی ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ رشتے ناطے جوڑنے توڑنے اوردوستی دشمنی نبھانے کے لیے بھی جاسوسی بہت کام آتی ہے۔پھر کاروباری مراکز اور سروسز میں بھی جاسوسیسیاں سیاست کی طرح چلتی ہیں۔چنگاریوں سے شعلے اور شعلوں سے آگ جلتی ہے،یوں زندگی کی گاڑی چھکاچھک اور ڈگمگ ڈگمگ چلتی ہے۔بالکل پاکستانی ریلوے کی طرح۔بقول شاعر کے وطن میں اب تو ہر اپنا پرایا لگتا ہےجاسوس مجھے ہر عزیز و ہمسایہ لگتا ہے بیشتر تجزیہ نگاروں کے مطابق نارویجن انٹیلیجنس سربراہ خاتون نے ایک راز فاش کر دیا۔مگر راز تو وہ ہوتا ہے جو چھپا ہوتا ہے ۔جو بات چھپی ہی نہ ہو وہ راز کیسے ہو گئی؟؟مقام حیرت ہے کہ آخر پاکستان کی کون سی بات چھپی رہ گئی جس کی جاسوسی کے لیے نارویجن جاسوس اس قدر تگ و دو میں مصروف ہیں۔جاسوسی تو رازوں کی کی جاتی ہے۔آج پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی مہربانی سے کوئی راز، راز نہیںرہا۔کوئی قانون قانون نہیں رہا،کوئی ادارہ، ادارہ نہیں رہا کوئی لیڈر وفادار نہیں کوئی ادارہ قابل اعتبار نہیںغرض یہ کہ پاکستانی میدان سیاست میں کوئی محب وطن شہسوار نہیں۔ٹی وی پروگراموں کے ٹاک شوز میں ہر روز کئی راز اور بھیدطشت از بام ہوتے رہتے ہیں۔پردے
اٹھتے ہیں چوراہوں میں ہانڈیاں پھوٹتی ہیں۔ خواتین و حضرات اپنے درون خانہ رازوں سے لے کر بیرون خانہ رازوں تک کا انکشاف کرتے رہتے ہیں۔گھر کے بھیدی بیرون ملک سے لنکا ڈھاتے ہیں۔ پاکستان ایک ایسی کھلی کتاب ہے جسے جو جہاں چاہے پڑھ سکتا ہے۔یہ ایس سرزمین ہے ،جو چاہے وہاں جا سکتا ہے، جو چاہے وہاں داخل ہو سکتا ہے، خارج ہو سکتا ہے۔دنیا کی سپر پاورز جہاز بھر بھر کر وہاں مسافر بھیج رہی ہیں کسی نے کچھ نہیں کیا۔حکمران دبک کر بیٹھے رہے۔ عوام اچک اچک کر دیکھتے رہے،میڈیا والے لپک لپک کر خبریں دیتے رہے۔بلا اجازت آنے والوں کا کیا گیا۔ وہ جو کرنے آئے تھے۔دندناتے ہوئے آئے اور کر گئے۔سو راز کھولنے کی معمولی سی بات پر کوئی استعفیٰ نہیں دیتا۔نارویجن اسمبلی میں پاکستانی سیاستدانوں کے حوالے سے جو واقعات پچھلے چند ماہ میں دیکھنے کو ملے ان میں نارویجن جا سوسوں کے علاوہ مسئلہء کشمیر کی جانب اقوام عالم کی توجہ دلانا اور پاکستانی عبدلستار ایدھی کے نام کی امن نوبل پرائز کے لیے نامزدگی کی رائے اہم ہے۔ ان تمام واقعات میں محترم چوھدری اختر اور کسی حد تک شاہنوازصاحب نمایاں نظر آتے ہیں۔ ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کے لیے یہ ایک خوش آئند بات ہے جو آگے چل کر اس کمیونٹی کا مورال بلند کر سکتی ہے۔ ورنہ عام طور پر پاکستانی نارویجن پارلیمنٹ کی سیٹ تک پہنچ تو جاتے ہیں مگر اس سے آگے وہ کچھ نہیں کرتے۔ اپنے اختیارات اور حقوق استعمال کرتے ہوئے اپنی کمیونٹی کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتے،ان کے کسی مسئلے کا حل پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس لحاظ سے چوھدری اختر کا رویہ قابل تحسین ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے پاکستانی سیاستدان کب پاکستانیوں کے لیے کچھ سوچتے ہیں اور کچھ کرتے ہیں۔ آجکل ایک نارویجن خاتون سیاستدان رعناء اسلم کافی متحرک نظر آ رہی ہیں۔ وہ ناروے میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کافی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک کتاب بھی مرتب کر رہی ہیں۔ اس موضوع پر آج تک ناروے میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ انکا کہنا ہے کہ ا س سے ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کو روزگار حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی۔امید ہے کہ وہ بھی جلد ہی نارویجن سیاست میں پاکستانیوں اور دوسرے غیرملکیوں کے لیے ایک خوشی اور فخر کا باعث بنیں گی۔ویسے عمومی مشاہدہ تو یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی منزل صرف مرکزی اور صوبائی سیٹوں تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔اس کے بعد وہ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔بولتے صرف اس وقت ہیں ب انکے مفادات یا کرسی کو خطرہ ہو۔چوھدری اختر کا سیاسی کردار اس لحاظ سے اہم ہے کہ انہوں نے اپنی ذات سے ہٹ کر بھی اپنی قوم و ملک کے لیے کچھ سوچا۔اپنی سیاسی پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے نارویجن لیڈروں کی کشمیر کے معاملے میں حمائیت لینے کی کوشش تو کی۔اس کے علاوہ انہوں نے مسلہء کشمیر کے بارے میں بھی بقلم خود لکھا۔ یہ ایک اور مثبت پیش رفت تھی۔انہوں نے ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ بھی عبالستار ایدھی کے نوبل پرائز کے لیے نامزد ہونے پر اپنی رائے دیں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنا فون نمبر بھی دیا۔انہیں اپنا مشورہ اور رائے دینے کے لیے ان سے انکے فون نمبر اور ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔اب اگر بات رائے کی ہے تو اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ بے شک مسلہء کشمیر پاکستان کا اہم مسلہء ہے۔ کشمیر پاکستان کاا ٹوٹ انگ ہے،وطن عزیز کی دکھتی رگ اور ذخمی بازو ہے۔مگر کیا یہ مسلہء اسی طرح آاوازیں اٹھانے سے حل ہونے والا ہے بھی کہ نہیں۔ اس پر آوازاٹھانا تو مدعی سست گواہ چست والا حساب ہے کہ پاکستان کے حکمران تو اس سلسلے میں فعال نہیں ۔ویسے بھی اس مسلے کی وجہ سے کئی عالمی طاقتوں کی روزی لگی ہوئی ہے۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک کشمیر پر جو مظالم ڈھائے جاتے رہے انکا کس حد تک سد باب ہوا؟؟کتنے معاہدوں پر عمل ہو؟؟عالمی اور قومی سطح پر ا س مسلہ کو کبھی سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔اس مسلے پر ہونے والے تمام مذاکرات مذاق ثابت ہوئے۔بات چیت گپ شپ بن گئی۔پاک بھارت دوستی بھی کشمیر تنازعہ کی دشمنی کو ختم نہ کر سکی۔پھر اگر پاکستانی اسے اٹوٹ انگ قرار دیتے ہیں تو کشمیری اسے آزادی کے بعد آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں۔دوسری جانب مسلہء کشمیر عالمی طاقتوں کو مالی طاقت فراہم کرتا ہے۔یہ مسلئہ رہے گا جبھی تو جنگ کے بادل منڈلائیں گے،فریقین ایک دوسرے کو دھمکائیں گے۔اصلحہ جمع کریں گے۔اسکی نمائش کریں گے۔عالمی طاقتیں اصلحہ بیچ کر پیسے بٹوریں گی اور پاکستان کو اپنا مقروض و محکوم بنائیں گی۔اس مسلئہ پر
جب بھی آواز اٹھتی ہے کوئی نہ کوئی لیڈر اس آواز کو چپ کرا دیتا ہے۔یہ مسئلہ کسی بیرونی طاقت سے نہیں بلکہ ایمان و یقین کی طاقت سے حل ہونے والا ہے۔جب تک پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی متحد و متحرک نہ ہوں یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔نارویجن لیڈر تو اس سلسلے میں پہلے بھی پیش کش کر چکے ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو یہ مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔جہاں تک چوھدری اختر کا پاکستانیوں سے انکی رائے معلوم کرنے کا سوال ہے تواس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل کے لیے بھی آواز اٹھائی جائے۔ ان میں سب سے ذیادہ بے روزگاری،نسل پرستی اور مستحق بچوں کی دیکھ بھال اور اسکولوں میں اردو تعلیم سکھانے کے مسائل توجہ طلب ہیں۔جس طرح چوھدری اختر نے عبدلستار ایدھی کا نام منتخب کیا ہے امن نوبل پرائز کی نامزدگی کے لیے اسی طرح یورپ اور بالخصوص ناروے میں بسنے والے پاکستانیوں کی کاردگی کو بھی سراہیں۔ مختلف شعبوں میں جو پاکستانی پاکستان سے باہر رہ کر نمایاں کارکردگی کھا رہے ہیںانہیں آگے لائیں تاکہ اس کمیونٹی کے بھی حوصلے بلند ہوں۔ ہماری آنے والی نسلیں اپنے بزرگوں پر فخر کریں۔ اس لیے کہ میڈیا نے پاکستانی کمیونٹی کا میج خراب کر دیا ہے۔ تاہم جو لوگ غلط ہیں انکی اصلاح کی جانب ضرور توجہ دینی چاہیے۔ یہاں پر کئی پاکستانی گروپ کی سطح پر اور انفرادی سطح پر بہت کارہائے نمایاں سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کام کے لیے تعلیم،سماجی شعبے،پاکستانی ادب،بزنس سیاحت، تخلیق اور اسی طرح کے دوسرے شعبوں میں پاکستانیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ان شعبوں میں کافی لوگوں کو تو میں خود بھی جانتی ہوں جو سراہے جانے کے قابل ہیں ان میں ڈنمارک سے اردو ہم عصر کے ایڈیٹر نصر ملک،اٹلی سے جذبہ ڈاٹ کام کے ایڈیٹر اعجاز حسین،ناروے کے صحافی احسان شیخ،شامل ہیں جبکہ خواتین میں ناروے سے اوسلو سے سوشل ورکر غزالہ نسیم ، ،ایڈیٹر نارویجن میگزین اور ایوارڈ یافتہ رائٹرمحمونہ خان، ر اورلاہور فیملی فرنٹ کے آرگنائز قیصر شیخ،اور کئی دیگر آرگنائیزیشن کے آگنائزر وں کے نام قابل ذکر ہیں۔آجکل خواتین رائٹرز میں فرانس سے شاہ بانو میر کی تحریریں کافی نمایاں ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو اپنی ذات سے ہٹ کر بھی سوچتے ہیں۔ آواز اٹھاتے ہیں لکھتے ہیں۔ یہ لوگ قابل ستائش ہیںانہیں حوصلہ دیں انہیں اہمیت دیں یہ ہماری پاکستانی کمیونٹی کا سرمایہ ہیں عزت ہیں وقار ہیںیہ لوگ ہماری پہچان ہیں۔ ورنہ ہمارا تعلق جس کمیونیٹی سے ہے وہاں لوگ ایک دوسرے کو ہنستا بستا نہیں دیکھ سکتے۔ایک دوسرے کے خلاف حسد بخیلی بغض کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔اگر اس موضوع کو طول دیا جائے تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔ ان میں سے بیشتر لوگ اپنی فطری جبلت کے باعث بدل تو نہیں سکتے لیکن آپ ان لوگوں سے بچ تو سکتے ہیں ۔ایسے لوگوں کی خااص پہچان یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ صرف اس وقت نظر آتے ہیں جب انہیں کوئی کام ہو۔بالکل اپنے سیاستدانوں کی طرح۔مگر اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہماری کمیونٹی میں۔ بس انکا ہاتھ تھامیں انکا حوصلہ بڑھائیں۔ انہیں پیچھے نہ ہٹنے دیں کہ کل یہی لوگ ہماری قو کی ڈوبتی نائو کو کنارا دیں گے۔ دریائوں سمندروں کی تیز موجوں اور بھنور سے قوم کو بچائیں گے۔ انہی میں سے ہمارے کل کے رہنماء اٹھیں گے۔ان چراغوں کو بجھنے نہ دیں کہ یونہی دیے سے دیے جلتے رہیں گے۔