شریف عورتیں

 

شریف عورتیں

اصغر بن ابراہیم

راشد اشرفکراچی سے

بہت عرصہ پہلے میں نے ایک صاحب اصغر بن ابراہیم کا ایک مضمون شرف خواتین تغزل کی غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں کے عنوان سے پڑھا اور دل کو ٹھنڈ پڑ گئی، سو اس پر میں نے ایک کالم لکھا، دراصل شاعری میں غزل کی صنف خود مجھے بری طر کھٹکرتی تھی، کیونکہ اس میں نہ صرف خواتین کے حسن و جمال کے تذکرے ہوتے تھے، بلکہ غزل کے شاعروں نے تو پردہ دار بیبیوں تک کو نہیں بخشا اور اس طرح کے شعر کہے کہ :داورِ حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ!اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

چنانچہ میں دعا کیا کرتا تھا کہ یا خداکوئی ایسا بندہ بھیج جو ان شعرا کا مکو ٹھپے۔ سو خدا نے میری سنی اور اصغر بن ابراہیم نامی ایک شخص کو یہ توفیق دی کہ وہ ساری کلاسیکی اور آج کی غزل پر جھاڑو پھیریں اور یوں شاعری کے صحن کی صفائی کریں۔ موصوف نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ بلاشبہ غزل دائرہ اسلام سے خارج ہے نیز یہ کہ یہ تغزل ہی کا نتیجہ ہے کہ عورتیں اپنی تعریف سننے کیلئے بے پردگی کی طرف مائل ہو رہی ہیں چنانچہ اصغر بن ابراہیم صاحب نے نیک سیرت عورتوں کا دینی فریضہ یہ بتایا کہ وہ تغزل کی اس غلط روش کیخلاف آواز اٹھائیں موصوف کے اس نقطہ نظر سے کسی صاحب کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ چونکہ انہیں خود شعر کہنا نہیں آتا لہذا انہوں نے تمام شاعروں کیلئے اسے حرام قرار دیدیا ہے۔کیونکہ انہوں نے مضمون کے شروع ہی میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ وہ کبھی شعر کہا کرتے تھے مگر احسان دانش (مرحوم ) اور جناب عبد الکریم ثمر(مرحوم) نے انہیں ایک خاص نصیحت فرمائی کہ فن شاعری میں اصلاح کی نسبت مجھے مطالعہ کی ضرورت ہے اور اس بات پر زور دیتے ہوئے یہ بھی نشاندہی کی کہ اگر مطالعہ خوب ہو جائے تو مجھے شعر گوئی میں کوئی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا! ان صاحبان فن کااشارہ غالبا اس طرف تھا کہ وہ کلاسیکی شاعری کا مطالعہ کریں۔ مگر اس کی بجائے انہوں نے شاعری کے عدم جواز کیلئے شرعی دلائل ڈھونڈنے کی خاطر مطالعے کا آغاز کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگرچہ قرآن وحدیث میں شاعری کی واضح ممانعت نہیں ہے۔ تاہم یہ جو غزل کی صنف ہے یہ بہرحال دائرہ اسلام سے خارج ہے کیونکہ اس میں عورتوں سے باتیں کی جاتی ہیں۔ لہذا انہوں نے شعر گوئی ترک کی اور شریف خواتین سے کہا کہ وہ ان کی ہمنوائی میں تغزل کی غلط روش کے خلاف آواز اٹھائیں۔
میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ خود مجھے بھی غزل کی یہ صنف زہر لگتی ہے کیونکہ اس میں صنف نازک کے حسن و جمال کا بیان ہوتا ہے بلکہ اس کی آڑ میں جو گل کھلائے جاتے ہیں وہ بھی میرے علم میں ہیں۔ میرے ایک شاعر دوست جو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ ایک بار کسی خاتون کے ساتھ سینما ہال میں دیکھے گئے۔ چنانچہ رپورٹ ہونے پر ان کی پیشی جمعیت کی ہائی کمان کے سامنے ہوئی اور کہا گیا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ گزشتہ روزایک بہن کے ساتھ فلم دیکھتے پائے گئے ہیں۔ ہمارے دوست نے اس کے جواب میں اپنی صفائی پیش کی اور کہا جناب ہماری ایک عزیزہ فیصل آباد سے آئی تھی، وہ فلم دیکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ گھر والوں کی ہدایت پر میں انہیں فلم دکھانے چلا گیا تھا! یہ سن کر انہوں نے کہا ٹھیک ہے مگر جماعت کا نظم بھی کوئی چیز ہے! اس پر میرے دوست نے کہا نظم اپنی جگہ، مگر آخر غزل بھی کوئی چیز ہے۔ خیر یہ تو یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی طفلانہ شوخی تھی مگر غزل کا شاعر خواہ باریش ہو اور عمر کی کسی بھی سٹیج پر ہو حسن و جمال سے منہ نہیں موڑتا۔ اب اپنے مولانا حسرت موہانی ہی کو دیکھیں، برصغیر کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنماں میں سے ہیں، شرعی حلیہ، شرعی وضع قطع، پابند صوم و صلو،متقی اور پارسا، باقاعدگی سے گیارہویں شریف دینے والے مگر جب غزل کہتے تھے تو: وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاں آنا یاد ہےاور: دکھتی رہی جو ان کی کلائی تمام شبقسم کی غزلیں کہتے تھے چنانچہ ایک بار مولانا سے پوچھا گیا کہ غزل میں تین رنگ ہوتے ہیں ایک فلسفیانہ، ایک عاشقانہ اور ایک فاسقانہ آپ کس انداز کی غزل کہتے ہیں؟ مولانا نے اپنی مخصوص باریک سی آواز میں جواب دیا فاسقانہ! اور اس رنگ سخن کی جھلک تو کہیں کہیں مولانا ماہر القادری (مرحوم) اور مولانا نعیم صدیقی (مرحوم) کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے یہ بھی یاد آیا تھا کہ ادھر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے یعنی غزل پر کیا منحصر ہے، اردو اور فارسی کی بیشتر شاعری اصغر بن ابراہیم اور ہمارے قائم کردہ اخلاقی معیار کے لحاظ سے دریا برد کرنے کے قابل ہے اور اکیلے مولانا حسرت موہانی کا کیا ذکر، ادھر تو بڑے بڑے علما، صلحا، صوفیا اور اولیا نے بھی شعروں میں ایسی ایسی باتیں کہی ہیں کہ میرے اور اصغر بن ابراہیم جیسے چھوٹی موٹی لوگوں کے کانوں کی لویں سرخ جاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت امیر خسرو، مولانا روم اور شیخ سعدیجیسے اکابرین کی کئی چیزیں ان دنوں ہمیں لحاف میں چھپا کر پڑھنا پڑتی ہیں حکیم الامت علامہ اقبال بھی: نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھیمگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
جیسی غزلیں اور  کی گود میں بلی دیکھ کر ایسی نظمیں کہتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاریہ ابھی تک جاری ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ خانقاہ گولڑہ شریف کے صاحبزادہ نصیر الدین نصیر غریب خانے پر تشریف لائے تو انہوں نے مجھے جوش کے رنگ میں کہی ہوئی اپنی ایک گلبدنی کے چند بند سنائے اور یہ بند سن کر حسب معمول میرے کان کی لویں ایک بار پھر سرخ ہوگئیں، میں اور برادرم اصغر بن ابراہیم دونوں بہت شرمیلے ہیں! تاہم اس کالم میں مقصود خود کو شرمیلا اور دوسروں کو شرمیلا ٹیگور ثابت کرنا نہیں تھا بلکہ صرف اصغر بن ابراہیم کو اپنی حمایت کا یقین دلانا تھا اور ان کی ہمت بندھانی تھی کہ وہ غزل کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں تاکہ باقی شریف خواتین بھی ان کی ہمنوائی میں تغزل کے خلاف آواز اٹھائیں۔ البتہ میں نے اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی رکاوٹ کا ذکر کیا اور وہ ماضی اور حال میں انتہا درجے کی شریف خواتین خود غزل کہتی رہی ہیں مثلا اورنگ زیب عالمگیر کی ایک پردہ نشین بیٹی زیب النسا غزل کی نہایت خوبصورت شاعرہ تھیں۔ میر کی صاحبزادی غزل کہتی تھیں اور اس کے بعد ادا جعفری تک کتنی ہی نیک اور شریف بیبیاں غزل کہتی رہی ہیں، سو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تحریک کی مخالفت سب سے پہلے شریف بیبیوں ہی کی طرف سے ہو، اگر ایسا ہوا تو بھی میں اصغر بن ابراہیم کے ساتھ ہوں گا کیونکہ میں ان شاعروں سے بہت تنگ آیا ہوا ہوں جو آج کے اس سائنسی دور میں بھی انسان اور اس کے حسن و جمال کے گیت گاتے ہیں چنانچہ میں نے اصغر بن ابراہیم کو مشورہ دیا تھا کہ اپنی تحریک کے سلسلے میں انہیں شریف بیبیوں کی حمایت حاصل نہ بھی ہو تو وہ دل چھوٹا نہ کریں کیونکہ مجھ جیسے مرد بہرحال ان کے ساتھ ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں