دہی انسان کی قدیم ترین غذا ہے۔انسان اسے اس وقت سے استعمال کر رہا ہے جب الفاظ اور تحریر کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔پرانے زمانے سے ہی لمبی مسافتوں کے مسافر اسے اپنے ساتھ ضرور رکھتے تھے۔کہتے ہیں کہ سکندر اعظم بھی مہمات کے دوران دہی اپنے ساتھ ضرور رکھتا تھا۔آج بھی اس دور جدید کے مسافر تمام تر تیز ذراع کے باوجود دہی کو ہی اپنے لیے مفید سمجھتے ہیں۔اس کسے استعمال سے ان کے پیٹ کے امراض ٹھیک اور آنتیں امراض کی یلغار سے محفوظ رہتی ہیں۔اس صحت بخش غذا کی خصوصیت وہ ننھے منے بکٹیریا اور جراثیم ہیں جو اسے گاڑھا پناور ہلکی ترشی عظاء کرتے ہیں۔۔ہمارے یہاں دہی کے ذریعے مصالحوں کو معتدل بنایا جاتا ہے۔اس کے استعمال سے مرچوغیرہ جیسے مصالحوں کی تلخی دور ہو جاتی ہے۔رویات خواہ کچھ ہوں اس میں کچھ شک نہیں کہ دہی میں موجود زندہ جراثیم دودھ کو زود ہضم بنا دیتے ہیں۔جس کے استعمال سے نظام ہضم کو بڑی مدد ملتی ہے۔غذا میں اس کی موجودگی سے جسم غذائی اجزاء کی بہتر طور پر اصلاح کر سکتا ہے۔امریکیوں میں اس کے استعمال کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔یہاں یہ کئی طرح کے ذائقوں میں فروخت ہوتا ہے
دہی ہاضمے کی اصلاح میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔برصغیر کے لوگ دہی کی اس خصوصیت سے صدیوں سے آگاہ ہیں۔معدے اور آنتوں کے کئی امرا کے لیے دہی مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔پیچش ایک جراثیمی مرض ہے اس کے علاج کے لیے دہی لازمی سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف دوائیں بھی دہی میں ملا کر یا اس کے ساتھ استعمال کی جاتی ہیں۔سخت پیچش میں دہی میں اسپغول کا چھلکا ملا کر استعمال کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ہندو آج بھی ہر کھانے کے ساتھ دہی ضرور کھاتے ہیں۔مسلمان بھی اپنی متنوع غذائوں کے لیے دہی استعمال کرتے ہیں۔یا پھر دیر ہضم غذائوں بالخصوص بریانی کے ساتھ دہی رائتہ کا استعمالکرتے ہیں۔
جاری ہے