(حاجی ہوشیار احمد جنجوعہ کی یاد میں چند سطور)
راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات ،قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, attiqueafsar@yahoo.com
دسمبر اپنے عروج پہ ہے ہر جانب سردی کی لہر ہے، پت جھڑ نے نباتات سے سبزہ سلب کر لیا ہے ،سدابہار پودے بھی مرجھائے سے لگتے ہیں ۔باغ میں خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں کیاریوں میں گلِ داؤدی کھلا نظر آتا ہے ۔ رعنائیاں بکھیرتا ہے اور بہار کے نہ ہوتے ہوئے بھی بہار کا سماں باندھ دیتا ہے ۔ اسی طرح کچھ لوگ بھی گل ِ داؤدی ہوتے ہیں وہ چمن کی راعنائی کے لیے بہار کے منتظر نہیں ہوتے بلکہ خزاں میں بھی کھل کر اپنے جوبن پہ آ جاتے ہیں، نامساعد حالات کا رونا نہیں روتے بلکہ انہیں بدلنے کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں ۔اندھیری شب میں شکوۂ ظلمت کرتے ہوئے سحر ہونے کے منتظر نہیں رہتے بلکہ اپنے حصے کے دیپ روشن کر کے کارواں کو راستہ دکھاتے چلے جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ اگرچہ گل ِ داؤدی کی مانند کم ہوا کرتے ہیں اور نالہ ٔ بلبل میں گلاب کی طرح ان کا ذکر نہیں ہوتا لیکن دل ِ فطرت شناس رکھنے والوں کو وہ بھی عزیر تر ہوتے ہیں ۔ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ نامساعد حالات میں بھی قوم کی رہنمائی کر کے اسے منزل کی جانب رواں رکھتے ہیں، نوجوانوں کا لہو گرماتے ہیں اور مایوسی سے نکال کر کامیابی کی جانب گامزن کرتے ہیں ۔انہی لوگوں میں ایک نام حاجی ہوشیار احمد جنجوعہ کا بھی ہے جو 13 دسمبر 2021 کو باغ کی فضاؤں کو سوگوار چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔خطہ ٔ باغ ایک ہمدرد،مخلص، نڈر ، بے باک اور دلیر قائد سے محروم ہو گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
بھول جانے کی قسم لے گیا وہ رشک ِگلاب
یاد رکھنے کو مہک، رنگ ، چبھن چھوڑ گیا
بعض اوقات کسی شخصیت کے بارے میں یہ دعوٰ ی کرنا بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ کس پائے کی قائدانہ صلاحیت کا مالک تھا کیونکہ اس کی شخصیت کو شہرت حاصل ہوتی ہے اور ہر عام و خاص اس کی اس صلاحیت کے گن گاتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات ایسا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ گلاب کے خزاں رسیدہ گلشن میں گل ِ داؤدی بن کر کھلا ہوتا ہے ۔حاجی ہوشیار احمد جنجوعہ نے باغ میں وہ کارہاہے نمایاں سرانجام دیے جن کا فائدہ باغ کی سوادِ اعظم کو نہیں بلکہ وہاں بسنے والے کم اکثریت اور کمزور طبقات کو ہوا ہے ۔ تحریک آزادی کشمیر میں باغ کا بہت ہی نمایاں کردار تھا ۔ لیکن ڈوگرہ سامراج سے آزادی کے بعد مقتدر طبقات نے انہی لکیروں پہ فقیری شروع کر دی جو انگریز کے پروردہ ڈوگرہ استبداد نے اپنے نوآبادیاتی نظام کو طول دینے کے لیے کھینچی تھیں ۔انہی لکیروں نے محمد عربی ﷺ کی امت مسلمہ کو بھی سرکاری طور پرتقسیم کر رکھا تھا جو خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں ہر رنگ و نسل سے بالاتر ایک کلمے کی بنیاد پر انسانی مساوات کے اصولوں پہ قائم ہوئی تھی ۔مقتدر حلقوں نے اس تفریق رنگ و نسل کو مٹا کر یہاں اخوت کا نظام قائم کرنے کے بجائے خود کو برہمن جان کر دوسروں کی حق تلفی برقرار رکھی ۔ اس ماحول میں حاجی ہوشیار احمد نے آنکھ کھولی اور اس نظام جبروت کو اس کی دہلیز پہ للکارا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حاجی صاحب نے تمام عمر اُن لکیروں کو مٹا دینے کے لیے صرف کی جو امت مسلمہ میں بھائی اور دوسرے بھائی کے درمیان خلیج بننے کا سبب تھیں ۔
تم انقلاب کی لہروں کو روکتے ہی رہو
اسی طرح تو یہاں انقلاب ابھریں گے
حاجی ہوشیار احمد جنجوعہ 1957ء کو باغ کے نواحی گاؤں پنیالی کے ایک عام زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ 9 بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پہ تھے ۔ آپ دیگر بہن بھائیوں کی نسبت ذہین و فطین تھے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی جبکہ مڈل آپ نے پائلٹ ہائی سکول باغ سے کیا ۔ پڑھنے کی خواہش اور ذہانت کے باوجود مالی وسائل آپ کی مزید تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنے تو آپ روزگار کے لیے کراچی تشریف لے گئے ۔ وہاں ایک سال سے زائد ہوٹل میں کام کرتے رہے ۔ اسکے بعد نوشہرہ میں ایک بیکری میں کام کرتے رہے بعد ازاں لنڈی کوتل میں ایک بیکری میں ملازمت اختیار کر لی ۔ اسی دوران 1978 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے ۔ آپ محنتی تھے اور دل لگا کر محنت کرتے تھے ۔ٹھیک ایک برس بعد 1979 میں وہی بیکری آپ نے خرید لی اور اسے پاک کشمیر بیکرز کے نام سے چلانے لگے ۔اس دوران بھی آپ کے اندر مزید پڑھنے کی خواہش اٹھکیلیاں کرتی رہی اور آپ نے نے میٹرک پشاور بورڈ سے پاس کر لیا۔آپ کی محنت و لگن کی بدولت آپ کے کاروبار نے بھی ترقی کی اور لنڈی کوتل جیسے چھوٹے سے شہر میں آپ کے سات شوروم تھے ۔آپ کو اللہ تعالی ٰ نے رزق حلال کی فراوانی کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی نوازا۔
آپ کی شخصیت کا ایک پہلوانسانی ہمدردی اور فلاح انسانیت تھا ۔ جب رب تعالیٰ نے آپ پر عنایت کی اور مال و متاع سے نوازا تو آپ نے اکیلے ہی اسے سمیٹنے کے بجائے اپنے قرابت داروں کو بھی اس میں شریک کرنے کا ارادہ کیا ۔ آپ نے اپنے بھائیوں اور قریبی عزیزوں کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کیا اور اپنے گاؤں کے کئی خاندانوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ قرب و جوار کے غریب افراد کو روزگار دے کر ان کے گھروں کے چولھے بھی روشن کیے۔ بالواسطہ امداد کے علاوہ انہوں نے براہ راست بھی غریب افراد کی مدد کی اور جو کچھ ہو سکا ان کے لیے کیا۔معاشرے کے درد مند افراد کو جہاں مالی سہارے کی ضرورت ہوتی وہاں مالی سہارا فراہم کرتے اور جہاں اخلاقی سہارے کی ضرورت ہوتی وہاں اخلاقی مدد فراہم کرتے ۔ عدالت و کچہری کے معاملات ہوں یا ہسپتال و سرکاری دفاتر کے وہ مظلوم اور پسے ہوئے شخص کے ساتھ کھڑے نظر آتے ۔ آپ نے اپنے قبیلے کی بہتری اور فلاح کے لئے جنجوعہ راجپوت ایجوکیشن سوسائٹی کے نام سے تنظیم بنائی اور اسے رجسٹر کرایا۔ اس تنظیم کے توسط سے آپ نے غریب اور ہونہار طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی اور ان کی حوصلہ افزائی کی ۔ آپ نے پسے ہوئے قبائل کے طلبہ و طالبات کو یہ شعور دلایا کہ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جس کے ذریعے وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتے ہیں ۔
آپ ایک سیاسی شخصیت رکھتے تھے اور باغ کی سیاست کے حوالے سے ایک وژدان(وژن) رکھتے تھے ۔ آپ نے کم اکثریت کے حامل قبائل کی ترجمانی کی اور یہ باور کرایا کہ کم عددی تعداد قبائل کے افراد کو معاشرے سے منھا نہیں کیا جا سکتا ۔ اکثریتی قبائل کا فرد کم اکثریتی قبائل کے تعاون کے بغیر سیاسی فتح حاصل نہیں کر سکتا۔ کم عددی قبائل جو اپنا وجود اور پہچان تک کھوئے چلے جا رہے تھے انہیں معاشرے کے اکثریتی قبائل کے برابر لانے اور ان کی پہچان برقرار رکھنے کے لیے حاجی ہوشیار جنجوعہ نے اہم کردار ادا کیا۔ آپ باغ میں آٹھ قبائل پہ مشتمل اتحاد کے صدر بھی تھے ۔ آپ نے سب سے پہلے 1991 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کھڑے ہو کر بڑے قبائل کو باور کرایا کہ جیت کے لیے ہمارا تعاون نا گزیر ہے ۔ سردار عبدالقیوم خان بطور سربراہ مسلم کانفرنس خود تشریف لائے اور اپنے امیدوار راجہ یٰسین خان کے حق میں دست بردار ہونے کی استدعا کی ۔ آپ نے یہ استدعا قبول کی اور راجہ یٰسین صاحب یہ الیکشن جیت گئے ۔اسی طر ح 1996 کے الیکشن میں آپ نے جموں 6 سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ۔ اس وقت آپ نے جماعت اسلامی کے امیدوار عبدالرشید ترابی کے ساتھ اتحاد کیا اور طے یہ پایا کہ باغ میں ترابی صاحب کی حمایت کی جائے گی اور جموں 6 میں جماعت اسلامی حاجی ہوشیار کی حمایت کرے گی ۔ جماعت اسلامی نے جموں 6 سے اپنا امیدوار آپ کے حق میں دست بردار کرایا ۔ عبدالشید ترابی اس الیکشن میں کامیاب ہوئے ۔ یو ں باغ کے سیاستدانوں پہ یہ بات واضح ہو گئی کہ کامیابی اسی صورت میں ممکن ہے جب کم عددی قبائل کی حمایت آپ کے ساتھ ہو ۔ اس کے بعد بھی آپ نے سردار قمر الزماں ، راجہ مشتاق منہاس اور سردار تنویر الیاس کی حمایت کی اور یہ امیدوار کامیاب ہوئے ۔آپ نے یہ ثابت کیا کہ بادشاہی اگر ہمیں عطا نہیں ہوئی تو کیا بادشاہ گَر (کنگ میکر)ہم ہی تو ہیں ۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خصوصیت یہ بھی دی تھی کہ آپ بات چیت سے دل موہ لیتے تھے ۔ قائد کی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سخن دلنواز رکھتا ہے ۔ آپ ہر کسی سے نرم لہجے میں گفتگو فرماتے تھے ۔ مال و زر کی فراوانی کے باوجود کسی نے آپ کی گردن میں سریا یا لہجے میں درشتگی نہیں دیکھی ۔تکبر کے بجائے عاجزی و ملنساری آپ کی طبیعت کا خاصا رہی ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ہر اپنے اور غیر کے درمیان عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے ۔ مقام و مرتبہ پیدائشی طور پر ودیعت نہیں ہوتا بلکہ یہ کمایا جاتا ہے ۔ آپ نے اپنی محنت اور لگن سے لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنائی اور آخر وقت تک اسے برقرار رکھا ۔ لوگوں میں خاص کر اپنے قبیلے میں ہر دل عزیز ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے آپ سے رجوع کرتے۔ عوامی توقعات کے مطابق آپ کو اللہ نے ناخنِ گرہ کشا سے نوازا تھا ۔ آپ ان مسائل کا حل نکالتے تھے ۔آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ برادری کے لوگ تنازعات میں الجھنے کے بجائے تمام تر توانائیاں اپنی اور دوسروں کی بہتری کے لیے صرف کریں ۔
آپ کی طبیعت میں مہمان نوازی اور فیاضی کا عنصر بھی بہت نمایاں تھا ۔ آپ نے برادری کے فلاح و بہبود کے لیے اپنے پیسے کو پانی کی طرح بہایا۔ قبیلے پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ایک اکثریتی قبیلے نے اپنے بھرپور وسائل کے ساتھ عدالتی جنگ مسلط کر دی تھی ۔ یہ مثال شاید ہی دنیا میں کہیں ملے کہ کم اکثریت رکھنے والے قبیلے کے حسب نسب پہ عدالت کے سہارے ڈاکا مارا جائے ۔ برادری کے تمام بزرگ اس وقت سینہ سپر ہو کر مقدمہ لڑتے رہے۔ عدالتی جنگ میں سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کا تھا ۔ حاجی ہوشیار صاحب نے اس مقدمے کو جیتنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔ آپ نے اپنی جیب سے سرمایہ لگا کر اچھے وکیل کی فیس ادا کی اور اس مقدمے میں قوم کو سرخ روئی نصیب ہوئی اور جو قبیلے کے بزرگوں کا نام چھین کر لے جانا چاہتے تھے انہیں طاقت اور قوت کے باوجود منہ کی کھانا پڑی ۔ یہی وہ مقدمہ تھا جس کی جیت نے تمام کم اکثریت قبائل کو حوصلہ فراہم کیا اور انہیں یہ باور کرایا کہ وہ اپنی شناخت کے ساتھ دیگر قبائل کے ہم پلہ رہ سکتے ہیں ۔یہ صرف ایک موقع نہ تھا ہر موقعے پر حاجی ہوشیار احمد جنجوعہ نےمالی ایثار کا مظاہرہ کیا۔آپ کی طبیعت کی فیاضی تھی کہ جب کوئی آپ کے ہاں آتا تو اس کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتےتھے اور اگر کوئی راستے میں مل جاتا تو بھی اسکی حتی الوسع مہمان نوازی کرتے ۔ دوران سفر اپنے ہمسفر رفقاء اور ملنے ملانے والوں کے سفری اخراجات بھی خود ادا کر دیتے۔ ان کی عادت تھی کہ اپنے رفقاء میں سے کسی کو جیب کی طرف ہاتھ بڑھانے ہی نہ دیتے تھے ۔زلزلہ 2005 کے دوران آپ بری طرح متاثر ہوئے آپ کے دو بیٹے اس سانحے میں شہید ہو گئے ۔ گھر بھی زلزلے کی نظر ہو گیا ۔ زخمی بیٹے اور گھر کے دیگر افراد کے ہمراہ باغ اور دیگر شہروں میں جانا پڑا اس صورتحال میں بھی آپ دیگر افراد کی بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیوں میں مگن رہے ۔ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان کا کاروبار عدم توجہ کی وجہ سے بالکل ختم ہو گیا ۔ جب یہ وسیلہ روزگار نہ رہا تب بھی آپ کی عادات میں فرق نہ پڑا ۔ آپ تب بھی سماجی خدمات میں صف اول میں ہی نظر آئے ۔ آپ نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ فیاضی اور دریا دلی دولت کی محتاج نہیں انسان میں اگر جذبہ صادق ہو تو وہ ہر حال میں خدمت خلق کر سکتا ہے ۔
دلیری اور مردانگی بھی ایک اچھے قائد کا وصف ہوتا ہے ۔ آپ کے اندر یہ وصف بدرجہ اتم موجود تھا ۔ آپ نے جب قبیلے کے حقوق کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا تو حالات سازگار نہ تھے ۔ کسی بھی قسم کے جانی و مالی نقصان کا اندیشہ تھا لیکن آپ نے اس کی چنداں پروا نہیں کی ۔ آپ نے اپنے قصد کے حصول کے لیے آخری حد تک جانا بھی گوارا کیا ۔سخت مالی حالات کا سامنا بھی پامردی سے کیا اور اپنی خودی پہ آنچ نہیں آنے دی ۔ آخری عمر میں ذیابیطس جیسی بیماری نے آ لیا ۔ ذیابیطس خود ایک مرض ہے ہی لیکن ساتھ ہی گردے اور دل کی بیماریوں کا بھی سبب ہے ۔ آپ نے ان امراض کے باوجود اپنے حوصلے پست نہیں کیے ۔آخری ایام میں بیماری کے سبب شدید تکلیف میں رہے لیکن جب بھی آپ سے طبیعت کا پوچھا گیا آپ کا جواب ہمیشہ “اللہ کا شکر ” ہی ہوتا تھا ۔ مصائب خواہ جیسے بھی آئے حاجی ہوشیار احمد صاحب نے ان مصائب کو بتا دیا کہ ان کا خدا بڑا ہے ۔
جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے انہیں منزلوں نے بھی پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قد م قدم پر بہک گئے
حاجی ہوشیار احمد جنجوعہ نے اپنی زندگی کے بہترین ایام خدمت خلق اور پسے ہوئے طبقات کو معاشرے میں مقام دلوانے کے لیے صرف کر دیے ۔ آپ نے نہ صرف اپنے قبیلے بلکہ دیگر قبائل کے لوگوں کو بھی ہمت اور حوصلہ عطا کیا ۔آپ نے نوجوانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا اور ان پہ واضح کیا کہ قوموں کو بام عروج پہ پہنچانے کا ذریعہ تعلیم ہی ہے لہذا تعلیم کے دروازے خود پہ کبھی بند نہیں کرنا چاہیئں ۔ آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ قبیلے کے نوجوان آج تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں ۔ آپ نے نوجوانوں کو خدمت خلق کے لیے متحرک کیا جو آج مختلف صورتوں میں معاشرے کی تعیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس وقت باغ میں جنجوعہ ویلفئیر یوتھ آرگنائزیشن بھرپور اور فعال کردار ادا کر رہی ہے ۔ اسی طرح تمام آزاد کشمیر کی سطح پہ تنظیم نو پہ کام ہو رہا ہے ۔ آپ نے معاشرے کے محکو م اور پسے ہوئے طبقات کو درس دیا کہ اپنی محرویوں پہ نوحہ کناں ہونے کے بجائے محنت اور مشقت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور ترقی کے لیے نئے راستے اور نئی منزلیں تلاش کرنا چایئیں۔مرحوم نے وفات سے پہلے یہ فقرہ کہا تھا کہ آج میں موت کے قریب ہوں لیکن مجھے اطمئنان ہے کہ میرے بعد ایسے نوجوان موجود ہیں جو قبیلے کی رہنمائی کر سکتے ہیں ۔آپ خزاں کے دور میں بہار کا پیامبر بن کرکھڑے رہے ، گل داؤدی بن کر چمن کورشک ِ بہار کیا ۔اب اس خزاں گزیدہ چمن کا یہ گل داؤدی بھی چل بسا لیکن جاتے جاتے یہ پیغام دے گیا کہ چمن میں بہار آنے کو ہے ،ہر گل کی کلی کھلنے کو ہے ، ہر عندلیب نغمہ سرا ہونے کو ہے ۔
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے