غزل
شاعر: افتخار راغبؔ
دوحہ قطر
نگاہِ مِہر مسلسل خفا خفا مجھ سے
کبھی کہو تو سہی، کیا ہے مسئلہ مجھ سے
میں اک دیا، مری فطرت ہے روشنی کرنا
کوئی بتائے الجھتی ہے کیوں ہوا مجھ سے
مٹا رہا ہوں اندھیرا ہی میں بھی اے سورج
اگرچہ تجھ کو زیادہ ہے تجربہ مجھ سے
عیاں کوئی تو علامت ہو ربطِ باہم کی
مرے خدا کبھی اُن کو بھی ہو گِلہ مجھ سے
تپا رہی تھی مرے دل کو تیری ضد کی تپش
سو بارہا ہوئی سرزد کوئی خطا مجھ سے
میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے سلام کرو
تمھیں ہر ایک بھلائی ملے سوا مجھ سے
چلو ہٹو میں تمھیں یاد کیا دلاؤں اب
میں کیا بتاؤں کہ تم نے کہا تھا کیا مجھ سے
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملیں ہیں کہیں
عبث ہی آپ بڑھاتے ہیں فاصلہ مجھ سے
گریز پائی تری تجھ سے بھی سوا ظالم
نہ چھین لے کہیں جینے کا حوصلہ مجھ سے
حلیف ہو کے بھی کیوں منحرف سا رہتے ہو
مرے عدو بھی اٹھاتے ہیں فائدہ مجھ سے
یہ آس بھی ہے کہ راغبؔ بھلا ہی ہوگا مرا
یہ اعتراف کہ کوئی نہیں بُرا مجھ سے