کہانی:ڈاکٹر شہلا گوندل
کمرہ جماعت میں مباحثہ اپنے عروج پر تھا۔ طلبہ بے صبری سے دونوں ٹیموں کے دلائل کو سن رہے تھے۔ موضوع تھا: “کیا IVF (مصنوعی تولیدی عمل) سماجی ضرورت ہے یا فطرت کے قوانین کے خلاف؟” دونوں ٹیمیں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھیں۔
مباحثے کا آغاز مخالف ٹیم کی جانب سے ہوا، جس کی قیادت سمیعہ کر رہی تھی۔ سمیعہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ بات شروع کی: “فطرت کے قوانین میں مداخلت ہمیشہ خطرناک نتائج کا باعث بنتی ہے۔ قدرت نے تولید کا ایک قدرتی نظام بنایا ہے، جس میں ہر چیز کا ایک مقصد ہے۔ IVF اس قدرتی حکمت کو توڑتا ہے۔” سمیعہ کی ٹیم نے سائنسی، اخلاقی، اور سماجی پہلوؤں پر اپنے دلائل پیش کیے۔
ویگنر نے دلیل دی کہ IVF کے دوران کئی ایمبریوز ضائع ہوتے ہیں، جو زندگی کے تقدس کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا: “کیا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ زندگی کا آغاز صرف تجربہ گاہ میں ہونا چاہیے؟ یہ انسانی زندگی کی قدر کو کمزور کرتا ہے۔”
ایلینا نے جذباتی انداز میں سوال اٹھایا: “کیا اولاد نہ ہونا ایک امتحان نہیں ہو سکتا؟ شاید یہ اللہ کی حکمت ہو، اور ہمیں اپنی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے۔” ان کی بات نے ماحول کو سنجیدہ بنا دیا۔
ایڈورڈ نے ماحولیاتی پہلو اجاگر کیا: “ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ دنیا پہلے ہی آبادی کے دباؤ اور وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ IVF پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کے بجائے، ہمیں ان بچوں کی پرورش پر توجہ دینی چاہیے جو پہلے سے موجود ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم ہیں، جنہیں والدین کی محبت اور سہارا چاہیے۔ کیا ایسے بچوں کو گود لینا زیادہ انسان دوست عمل نہیں ہوگا؟”
نکولس نے بھی طبقاتی فرق کی طرف اشارہ کیا: “IVF ایک مہنگا عمل ہے، جس سے صرف امیر لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں عدم مساوات پیدا ہوگی۔ غریب لوگ جو وسائل کی کمی کا شکار ہیں، وہ اس سہولت سے محروم رہیں گے۔ والدین بننا دولت کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔”
سارہ نے بحث کو مزید مضبوط کرتے ہوئے کہا: “IVF کا عمل خواتین کی صحت پر شدید اثر ڈالتا ہے۔ ہارمونی انجیکشن، وزن میں اضافہ، اور جذباتی دباؤ خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ IVF کی ناکامی کے بعد عورتیں ڈپریشن اور اضطراب کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ محض جسمانی نہیں بلکہ ایک جذباتی جنگ ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا یہ قیمت بہت زیادہ نہیں ہے؟”
دوسری جانب آشاکی ٹیم نے IVF کے حق میں اپنے دلائل پیش کیے۔آشا نے کہا: “IVF ان جوڑوں کے لیے امید ہے جو قدرتی طور پر اولاد نہیں پیدا کر سکتے۔ سائنس اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے، اور اس کا استعمال انسانیت کی خدمت کے لیے ہونا چاہیے۔” ان کی باتوں میں جذباتی اور سائنسی پہلو شامل تھے۔
ہیلن نے کہا: “وہ والدین جو سالوں سے اولاد کے لیے ترس رہے ہیں، IVF ان کی زندگی میں خوشیاں واپس لاتا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک نئی امید ہے۔”
اولیور نے سائنسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: “IVF ان مسائل کا حل ہے جنہیں قدرتی طور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر سائنس انسانیت کی خدمت کے لیے ہے تو IVF اسی خدمت کا حصہ ہے۔”
نے مزید کہاآشا: “IVF کے ذریعے والدین بننے والے جوڑے مکمل شعور کے ساتھ یہ فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچے کو خوشحال اور محفوظ زندگی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہ بچے والدین کی محبت اور قربانی کی علامت ہوتے ہیں۔”
کیتھرین نے کہا: “اگر ہمیں سائنس کا علم ملا ہے تو یہ قدرت کی دین ہے۔ ہمیں اس کا استعمال ان لوگوں کی مدد کے لیے کرنا چاہیے جنہیں اولاد کی نعمت حاصل نہیں ہو رہی۔”
سمیعہ کی ٹیم نے دوبارہ زور دیتے ہوئے کہا: “ہم یہ سمجھتے ہیں کہ والدین بننے کی خواہش قدرتی ہے، لیکن اس خواہش کے لیے خواتین کی صحت اور قدرتی نظام کو نقصان پہنچانا درست نہیں۔ IVF کے ذریعے پیدا ہونے والے بچوں کے جینیاتی معیار پر سوالیہ نشان موجود ہے، کیونکہ یہ قدرتی انتخاب کے عمل کو کمزور کرتا ہے۔ آنے والی نسلوں پر اس کا منفی اثر ہو سکتا ہے۔”
ایڈورڈ نے اختتامیہ میں کہا: “ہمارے فیصلے انسانیت کے لیے فائدہ مند ہونے چاہئیں۔ IVF پر خرچ ہونے والی رقم کو ان بچوں کی صحت، تعلیم، اور خوراک پر لگایا جا سکتا ہے جو پہلے سے یتیم ہیں۔ یہ انسانیت کی اصل خدمت ہوگی۔”
بحث اپنے اختتام کو پہنچی، اور حاضرین دونوں ٹیموں کے دلائل سے متاثر ہوئے۔ تاہم،سمیعہ کی ٹیم کے دلائل زیادہ وزنی ثابت ہوئے۔ ان کی ٹیم نے فطرت، ماحولیاتی مسائل، انسانی صحت، اور سماجی انصاف جیسے اہم نکات کو بڑی مہارت سے پیش کیا۔
ججز نے دونوں ٹیموں کے دلائل کو غور سے سنا اور جانچا۔ آشاکی ٹیم نے IVF کے حق میں جذباتی اور سائنسی دلائل پیش کیے، جن میں والدین بننے کی خواہش، سائنسی ترقی، اور امید کے پہلو نمایاں تھے۔ ان کی باتوں نے والدین کی مشکلات اور IVF سے جڑی کامیابی کی خوشی کو مؤثر انداز میں بیان کیا۔
دوسری جانب سمیعہ کی ٹیم نے فطرت کے اصولوں، انسانی صحت، سماجی انصاف، اور ماحولیاتی مسائل پر توجہ دی۔ ان کے دلائل نے IVF کے دوران خواتین کی صحت پر پڑنے والے جسمانی اور ذہنی اثرات، جینیاتی ارتقاء میں مداخلت، اور غیر متوازن سماجی نظام جیسے پہلوؤں کو نمایاں کیا۔ انہوں نے یہ بھی مؤثر انداز میں پیش کیا کہ IVF پر خرچ ہونے والے وسائل کو یتیم بچوں کی کفالت، تعلیم، اور معاشرتی بھلائی کے دیگر اقدامات پر خرچ کرنا زیادہ انسانی اور عملی حل ہے۔
ججز کے مطابق، سمیعہ کی ٹیم کے دلائل منطقی، متوازن اور سماجی پہلوؤں پر گہری فکر پر مبنی تھے۔ ان کی گفتگو نے حاضرین کو گہرے غور و فکر پر مجبور کیا۔ فطرت، صحت، اور معاشرتی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مباحثے میں برتری حاصل کی۔ اس لیے ججز نے سمیعہ کی ٹیم کو مباحثے کا فاتح قرار دیا۔
تمام اساتذہ اور ریکٹر نے دونوں ٹیموں کی محنت کو سراہا کیونکہ انہوں نے ایک اہم اور حساس موضوع پر مدلل گفتگو کی اور حاضرین کو مختلف زاویوں سے سوچنے کا موقع دیا۔
واقعئی بہت اہم اور حساس موضوع کو اتنی خوبصورتی سے کور کر لیا ۔۔۔۔
با کمال طریقہ ہے ڈائیلاگ اور مباحثہ اتنے اچھے طریقے سے قلمبند کئے ہیں