میری دو دنیائیں: ایک عشق، ایک تحفظ

ڈاکٹر شہلا گوندل

پاکستان…
اک عشق، اک جنون۔

میری جنم بھومی، میری پہچان، میرے آبا کی سرزمین۔
وہ مٹی، جہاں میری نال گڑی ہے۔
جہاں اذان کی آواز میں میری روح کو قرار ملتا ہے،
جہاں میرے پرکھے، میری ماں، اور میرا چھوٹا بھائی مٹی کی آغوش میں آرام کرتے ہیں۔

یہ وہ وطن ہے جس کے لیے میرا دل ہر روز دھڑکتا ہے—
چاہے جسم ناروے میں ہو،
سوچ اور خواب اب بھی اسی مٹی سے بندھے ہیں۔

ناروے میں پی ایچ ڈی مکمل کی، موضوع تھا:
ماحولیاتی تبدیلی اور کاربن کیپچر
عالمی لیبارٹریز، جدید ترین تحقیق، اور علمی مجالس کا حصہ بنی۔
لیکن دل میں ایک ہی خواب تھا—
یہ سب کچھ اپنے وطن کو لوٹاؤں۔

میں چاہتی تھی کہ واپس پاکستان جا کر تھر کول جیسے قیمتی قدرتی وسائل کو فرٹیلائزرز، پیٹروکیمیکل اور دیگر اہم مصنوعات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت پیدا کروں۔
پاکستان کے
renewable energy resources
کو استعمال میں لا کر
اپنے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کا حصہ بنوں۔

میں چاہتی تھی کہ اپنی تحقیق کے ذریعے
پاکستان کو ایک ماحولیاتی طور پر محفوظ، سرسبز اور مستقبل دوست ملک بنانے کی کوششوں میں شریک ہو سکوں۔

کیونکہ میں تعلیم سے وابستہ رہی ہوں،
اس لیے یہ خواب بھی تھا کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں کردار ادا کروں—
جہاں بچے صرف رٹے نہ لگائیں،
بلکہ تخلیق، سوال، اور تحقیق کی روشنی میں جئیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی… کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔


ناروے یا پاکستان؟ دل اور دماغ کی جنگ

ناروے میں شہریت لینا ممکن تھا، دروازے کھلے تھے۔
مگر میں درخواست دینے سے گریزاں تھی۔
میرے خواب، میرا دل، میرا ماضی—سب پاکستان کی جانب تھا۔

پھر وہ لمحہ آیا، جو میری سوچ بدل گیا۔

میری دوسری بیٹی، صرف ایک ہفتے کی،
جب اسے شدید وائرل انفیکشن ہوا۔
اس کے ننھے جسم میں آکسیجن کم ہو گئی، ہونٹ نیلے پڑنے لگے۔
میں خود آپریشن کے بعد وہیل چیئر پر تھی،
اور میری بیٹی میری گود میں تڑپ رہی تھی۔

ایمرجنسی میں نرسیں دوڑ رہی تھیں۔
ایک نرس میری وہیل چیئر دھکیل رہی تھی، دوسری آکسیجن لگا رہی تھی۔
پورا ہسپتال، ایک ماں کی بچی کو بچانے کے لیے ایک جسم بن چکا تھا۔

اس لمحے…
جب میں خود بےبس تھی،
اور ایک سسٹم میری بیٹی کے تحفظ کے لیے لڑ رہا تھا—
میرا ووٹ پاکستان سے نکل کر ناروے کے حق میں چلا گیا۔

پاکستان: خوابوں کی سرزمین، مگر تلخ حقیقتوں کے ساتھ

میرا وطن، میرا عشق ہے۔
مگر وہاں کی سچائیوں سے آنکھ نہیں چرائی جا سکتی۔

عورت، اقلیت، بزرگ، معذور، بچہ—
سب کسی نہ کسی سطح پر کمزور اور غیر محفوظ۔
تعلیم، انصاف، صحت، اور تحفظ—
سب کچھ طاقتور کے لیے، کمزور کے لیے جدوجہد۔

Human Rights Watch اور دیگر عالمی ادارے تصدیق کرتے ہیں کہ
پاکستان کی لاکھوں خواتین ہراسانی، تشدد، اور عدم تحفظ کا سامنا کرتی ہیں۔
اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک عام ہے۔
تعلیمی نظام طبقاتی ہے،
اور ماحولیات کو سنبھالنے کی کوئی ٹھوس حکمتِ عملی موجود نہیں۔

ناروے: وقار، تحفظ، مساوات

ناروے میں میں نے وہ دیکھا جو پاکستان میں ایک خواب لگتا ہے—
انسانیت کی عزت، ماں کی سلامتی، بچی کا محفوظ مستقبل۔

یہاں میری بیٹیاں آزاد ہیں—
اپنی مرضی سے جینے، سیکھنے، اور خواب دیکھنے کے حق کے ساتھ۔
یہاں ہر انسان کو بنیادی سہولیات اور عزتِ نفس میسر ہے۔

لیکن وطن کا قرض ابھی باقی ہے
میں جانتی ہوں، میں پورا پاکستان نہیں بدل سکتی۔
لیکن اگر میں اپنے گاؤں، اپنی جنم بھومی کے لیے کچھ کر سکوں،
تو شاید اپنی مٹی کا قرض تھوڑا سا اتار سکوں۔

اسی لیے میرا خواب ہے کہ ناروے میں رہتے ہوئے بھی
اپنے گاؤں میں ایک “سینٹر آف ایکسیلنس”قائم کروں—
جہاں بچے، خاص طور پر بچیاں،
STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) کی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔
جہاں وہ نہ صرف خواب دیکھیں،
بلکہ انہیں پورا کرنے کے لیے علم، اعتماد اور تحفظ بھی ملے۔

یہ سینٹر صرف ایک عمارت نہیں ہو گا،
یہ ایک امید، ایک انقلاب، ایک روشن مستقبل کا آغاز ہو گا۔

ایک ماں کی آخری دُعا

یا اللہ…
صرف‌میرے نہیں، سب کے بچوں کو اپنی امان میں رکھ۔
ہر بیٹی کو وہ عزت، وہ علم، وہ تحفظ عطا فرما
جو صرف تیری رحمت سے ممکن ہے۔

انہیں ہر ظالم ہاتھ، ہر تنگ دل، ہر گندی نظر سے محفوظ رکھ۔
انہیں شعور دے، روشنی دے،
ایسا علم دے جو ان کے لیے بھی ہو اور ان کی نسلوں کے لیے بھی۔

اور یا رب،
ان سب بچیوں، معصوموں، مظلوموں، خواب دیکھنے والوں کے صدقے
میرے بچوں کو بھی اپنی پناہ، اپنی ہدایت اور اپنے نور میں رکھ۔

آمین، ثم آمین۔

اپنا تبصرہ لکھیں