سفر عمرہ کی روداد
سفر نگار شازیہ عندلیب
قسط نمبر 1
ہمارے گروپ کا پہلا پڑائو شہر مدینہ میں مسجد نبوی کے پڑوس میں واقع ہوٹل زم زم پل مین میں تھا۔ میرا بیڈ روم ہوٹل کی چھٹی منزل پہ تھا۔ہمارا قافلہ رات بھرہوا کے دوش پر اندھیری سیاہ رات آسمان کی وسعتوں میں بادلوں کے اوپر چاند تاروں کی چھائوں میں محو سفر رہا۔ جب سورج طلوع ہونے والا تھا ہوائی جہاز نے کسی تھکے ہوئے پرندے کی طرح اپنی پرواز ختم کی اور دنیا کے مقدس شہر مدینہ کی زمین کو چھو لیا۔جہاز کئی منٹ تک سرزمین مدینہ کے ہوائی اڈے پہ دوڑتا رہا۔ ترکش ائیر لائن کا مستعد ور چاک و چوبند عملہ لینڈنگ کے وقت مسافروں کو نصیحتوں اور محبتوں سے بھرے پیغامات جہاز کے مائیکرو فون سے نشرکرتا رہا۔ رت جگوں کے تھکے اور اونگھتے ڈولتے مسافر اپنی سیٹ بیلٹیں کھولنے لگے ۔انائونسر نے اعلان کیا کہ ابھی اپنی سیٹوں پر ہی تشریف رکھیں کیونکہ انہیں پہلے مسافروں کا سامان نکالنا تھا/ورنہ اگر سامان اور مسافر دونوں اکٹھے نکلتے وہاں بھگدڑ مچ سکتی تھی۔لہٰذا آنکھوں میں نیند اور نگاہوں میں شوق دیدار بسائے مسافر چارو نا چار اپنی سیٹوں پہ براجمان رہے۔کچھ دیر بعد جہاز سے اترنے کا اعلان ہوا سب اپنا اپنا ہینڈ بیگج اتارنے لگے۔سرخ ٹوپیوں اور یونیفارم میں ملبوس جہاز کا عملہ مسافروں کو نہائیت اخلاق سے رخصت کرنے لگا۔ پھر مدینہ ائیر پورٹ پر چیکنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔تین مختلف مراحل سے گزر کر ہمارے قافلے کے مسافر اپنی پہلی منزل زم زم ہوٹل کی آرام دہ بسوں میں سوار ہوئے۔کچھ ہی دیر بعد بس شہر مدینہ کی سڑکوں پر فراٹے بھرنے لگی۔یہ بارہ فروری دو ہزار پچیس کا دن تھا۔ناروے میں ونٹر ہالیڈیز تھیں اور ہم لوگ یہاں کڑاکے کی سردی چھوڑ کر گئے تھے۔ باہر ہر جانب برف کی چادریں نہیں بلکہ دبیز گدے بچھے تھے ناروے میں مائینس بیس ٹمپریچر تھا جبکہ شہر مدینہ میں پلس تیس ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور موسم قدرے گرم تھا ۔ مگر موسم کی گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے قدرت نے ہمارے لیے بارش کا انتظام کر رکھا تھا۔ گرم رت میں بارش کی رم جھم کا مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ ہم لوگ جب بس سے اتر کر ہوٹل کے داخلی دروازے کی جانب بڑھے۔نرم ٹھنڈے بارش ک قطروں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہوٹل کا لائونج بہت وسیع تھا۔کائونٹر پر عربی لباس میں ملبوس عملہ مسافروں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ہمارے قافلے کے سربراہ حافظ اسلم صاحب نے قافلے کو چار گروپوں میں تقسیم کر کے انہیں انکے گروپ لیڈران کے حوالے کیا۔ اس قافلے میں ایک سال سے لے کر اسی سال تک کے زائرین شامل تھے۔ ہمارے گروپ لیڈر مولانا حافظ احمد نوری صاحب تھے۔انکا تعلق لاہور سے تھا۔ وہ وہاں گرلز کالج کے پرنسپل بھی رہ چکے تھے۔پچھلے چھ برس سے اوسلو میں ایک مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔بہت صاحب علم اور صاحب بصیرت شخصیت کے حامل ہیں۔
گروپ کے ڈیجیٹل انجینیر وسیم صاحب نے اپنا پنڈورا بکس جیسا بریف کیس کھولا۔اس میں سے تمام گروپ ممبرز کو انکے آئی ڈی کارڈز اس نصیحت کے ساتھ دیے کہ آپ نے جب بھی ہوٹل سے باہر نکلنا ہے اسے اپنے گلے میں لازمی ڈالنا ہے یعنی کہ اسے گلے کا ہار بنا کے رکھنا ہے۔چاہے کچھ ہو جائے آپ نے یہ کارڈ ساتھ رکھنا ہے ورنہ اگر آپ کے ساتھ کچھ ہو گیا اس کے بغیر آپ کو کوئی مدد نہیں ملے گی ۔یعنی کہ دوسرے لفظوں میں یہ کارڈ گم گیا تو پھر آپ کی بھی خیر نہیں یعنی کہ کارڈ گمنے کی صورت میں آپ بھی گم گئے تو پھر یہ حساب بھی ہو سکتا ہے کہ
اب کہ بچھڑیں گے تو شائید کبھی خوابوں میں ملے
خیر چند نصیحتوں کے بعد انہوں نے کارڈ ممبران کے حوالے کیے۔ پھر سب کو ان کے کمروں کی چابیاں دی گئیں۔ہم لوگوں نے لفٹ میں چھٹی منزل پہ جا کر اپنا سامان کمرے میں چھوڑا۔ ناشتہ کا وقت تھا۔ ہم لوگ ڈائننگ ہال میں پہنچےوہاں لذیذ بوفے ہمارا منتظر تھا۔ڈائننگ ہال میں انواع و اقسام کے لذیذ ناشتے چنے ہوئے تھے۔ناشتے سے فارغ ہو کر کچھ دیر آرام کیا اس کے بعد نماز ظہر کے لیے سب لوگ مسجد نبوی کی جانب چل دیے۔ہماری ایک ہم سفر صائمہ اپنی بیٹی کے ہمراہ میرے ساتھ ہو لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
Recent Comments