تنزیل صدیقی، کشن گنج، بہار
بہار میں اس وقت جو سیاسی منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے، وہ کسی عام انتخابی مہم سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور بامعنی ہے۔’’تبدیلی اقتدار‘‘کا نعرہ محض مخالف حکومت کے خلاف احتجاج کا اظہار نہیں بلکہ ایک اجتماعی بے چینی، عوامی امید، اور حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ مگر کیا یہ تبدیلی صرف حکمران چہروں کی تبدیلی ہوگی، یا نظام، نیت، اور نظریے کی اصلاح کا پیش خیمہ بنے گی؟ یہی سوال آج ہر باشعور ووٹر کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بہار میں اقتدار کی باگ ڈور کبھی ایک اتحاد تو کبھی دوسرے اتحاد کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ مگر بنیادی عوامی مسائل جیسے روزگار، تعلیم، صحت، بدعنوانی اور قانون و انتظام آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ نئی نسل، خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان، حکومتوں سے صرف وعدے نہیں بلکہ نتائج چاہتی ہے۔
صوبے کی سیاست ذات پات کے گہرے اثر میں جکڑی رہی ہے۔ ہر انتخاب میں امیدواروں اور پارٹیوں کی ترجیحات کا محور معاشی ترقی یا تعلیمی اصلاح نہیں، بلکہ مخصوص برادریوں کی حمایت حاصل کرنا بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تبدیلی کے باوجود بھی نظامِ حکمرانی میں کوئی بڑی اصلاح دیکھنے کو نہیں ملی۔
تاہم، اس بار ماحول کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوان طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہے۔ وہ لیڈروں کے صرف چہرے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، وعدوں، اور نظریاتی پوزیشن کو جانچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ طبقہ اگر جذبات سے ہٹ کر بصیرت اور شعور کے ساتھ اپنا ووٹ استعمال کرے، تو سیاسی ماضی کے تسلسل کو توڑنا ممکن ہو سکتا ہے۔
سیاسی جماعتیں بھی اب جان چکی ہیں کہ صرف نعرے اور مخالفین پر تنقید کافی نہیں۔ عوام منشور مانگتی ہے، پالیسی کا خاکہ دیکھنا چاہتی ہے، اور یہ جاننا چاہتی ہے کہ اگلے پانچ سال میں ان کے لیے کیا بدلے گا۔ ایسے میں پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف کرسی کی سیاست نہ کریں بلکہ صوبے کے عوامی مستقبل کا سنجیدہ تصور لے کر آئیں۔
میڈیا، بطور جمہوریت کا ستون، اس وقت ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے اگر وہ غیر جانبدار اور حقیقت پسندانہ رپورٹنگ کرے۔ عوام کو صرف تقریروں کی گونج سنانے کے بجائے، وعدوں کی سچائی، منصوبوں کی حقیقت، اور پالیسیوں کے نتائج سے آگاہ کرے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر تبدیلی صرف چہروں کی ہو اور نظام ویسا کا ویسا رہے، تو ایسی تبدیلی محض ایک خوش فہمی یا وقتی تسلی ہو سکتی ہے۔ اصل تبدیلی وہ ہے جو عوام کی زندگی میں بہتری لائے، انصاف کو مضبوط کرے، تعلیم اور صحت کی رسائی عام بنائے، اور اقلیتوں و محروم طبقات کو تحفظ دے۔
لہٰذا، بہار کی عوام کو یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ یہ وقت صرف لیڈروں کو بدلنے کا نہیں، بلکہ سیاسی شعور کے ساتھ اپنی تقدیر خود لکھنے کا وقت ہے۔
جمہوریت میں ووٹ صرف حق نہیں، ذمہ داری بھی ہے۔ اسے سوچ سمجھ کر استعمال کیجیے!
تنزیل صدیقی
رابطہ نمبر:9833885833
Recent Comments