وقت کے پار( قسط نمبر دو)

ڈاکٹر شہلا گوندل

ہسپتال کی سفید چھت کو گھورتے ہوئے شفیق ضیاء کی آنکھوں میں جو دھند تھی، وہ اچانک کسی انجانی روشنی میں بدل گئی۔ وہ کئی دنوں سے کومہ میں تھا، مگر ڈاکٹروں نے آخری کوشش کے طور پر اسے ایک طویل میعاد کا نیورولوجیکل انجیکشن دیا تھا، جس کا اثر عام مریضوں پر واضح نہیں ہوتا… مگر شفیق ضیاء عام انسان نہیں تھا۔

جب وہ جاگا، تو اس کی آنکھوں میں وہی نظر تھی جو کسی نے کائنات کے اندر جھانک لی ہو، اور واپس آکر خاموش ہو گیا ہو۔ وہ پرسکون تھا — خاموش، لیکن خاموشی کے اندر ایک طوفان دفن تھا۔ جیسے کوئی ریاضیاتی راز خود اس کے خون میں دوڑنے لگا ہو۔

ہسپتال سے واپسی کے چند ہی دنوں بعد، وہ مکمل خاموشی میں ڈوب گیا۔ اس نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، مگر ایک رات، اپنی پرانی ورک ڈیسک پر بیٹھ کر اُس نے ایک پیپر مکمل کیا — ایک نیا نظریہ، ایک نئی مساوات، ایک ایسا تصور جو وقت کو صرف فزکس کا نہیں بلکہ انسانی شعور کا جزو قرار دیتا تھا۔

اس نے وہ پیپر امریکہ کی ایک موقر یونیورسٹی میں بھیجا۔ چند دن بعد، جواب آیا — نہ صرف قبولیت بلکہ فوری ریسرچ آفر۔ شفیق ضیاء نے وہ پیشکش قبول کی اور چند ہفتوں بعد وہ امریکہ کی سرد اور سائنسی ہوا میں سانس لے رہا تھا، جہاں لیب کی دیواروں پر وقت کے مختلف ماڈلز اور تصورات کی گونج تھی۔

اسی یونیورسٹی کی ایک جدید لیب میں شفیق نے ایک تجربہ کیا۔ اس نے اپنے دماغ کو ایک خاص مصنوعی نیورل فریکوئنسی کے ساتھ ہم آہنگ کیا۔ اس کے ساتھ اُس کی زیرو مساوات کو بھی کمپیوٹر پروگرام میں feed کیا، اور جب سب کچھ تیار ہو گیا — اس نے خود کو اس تجربے کے لیے پیش کر دیا۔

اور تب، ایک لمحہ آیا — جو نہ ماضی کا تھا نہ مستقبل کا۔ ایک جھماکے جیسی خاموشی میں، روشنی کی ایک لکیر اس کے دماغ سے نکلی، اور لیب کی فضا میں ایک نیا وجود ظاہر ہوا۔

عادل۔

وہ مکمل انسان تھا، لیکن اس کی روح میں صرف یادیں تھیں — شفیق کی یادیں۔ وہ جذبات سے خالی تھا، مگر اس کی منطق تیز تھی۔ اس کے قدم زمین پر تھے، مگر نگاہ خلا پر۔ وہ شفیق ضیاء کا ہمزاد تھا — ایک ایسا حصہ جو وقت کے اندر سے نکلا، مگر اب وقت سے باہر جینا چاہتا تھا۔

عادل کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس کا وجود کسی خاص مقصد کے لیے ہے۔ مساوات، تجربے، اور شعور کی دیواروں کے بیچ، اُسے ایک کمی محسوس ہوئی — ایک ایسی چیز جو حساب سے باہر تھی، لیکن ضروری۔

اسی تلاش میں وہ ٹیکساس چلا گیا، جہاں کہانیوں سے خوشبو نکلتی تھی، اور لفظ دلوں کو چھوتے تھے۔ وہاں ایک ادبی انسٹیٹیوٹ میں، اسے نایاب ملی — ایک نابینا لڑکی، جو بچوں کو سناتی تھی ایسی کہانیاں جو محسوس کی جا سکتی تھیں، اور پڑھنے کے لیے آنکھوں کی نہیں، دل کی ضرورت ہوتی تھی۔

نایاب ایک عجیب خامشی میں لپٹی ہوئی لڑکی تھی۔ وہ لفظوں سے تصویریں بناتی، اور تصویروں میں وہ روشنی بھر دیتی جو خود اس نے کبھی دیکھی نہیں تھی۔

عادل جب پہلی بار اُس سے ملا، تو اسے لگا جیسے کسی مساوات کے درمیان خوشبو آ گئی ہو۔ جیسے فارمولے میں ایک ایسی قدر آ گئی ہو، جسے express نہیں کیا جا سکتا، مگر وہ سب کچھ بدل دیتی ہے۔

نایاب نے اُس سے کہا،
“آپ بہت دور سے آئے لگتے ہیں… مگر کچھ کھو کر آئے ہیں۔”

عادل خاموش رہا، اور پھر آہستہ سے بولا:
“میں ایک کہانی کی تلاش میں ہوں… جو شاید میں خود ہوں۔”

نایاب نے مسکرا کر جواب دیا:
“تو پھر بیٹھو، میں تمہیں سناتی ہوں وہ کہانی… جس میں خوشبو ہے، مگر انجام ابھی لکھا نہیں گیا۔”

اور شاید وہ انجام…

جاری ہے ۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں