وقت کے پار( قسط نمبر چار)

ڈاکٹر شہلا گوندل

ساعت

جب شفیق ضیاء اور نایاب نے

Echo Chamber of Time

میں قدم رکھا، تو لمحہ تھم سا گیا۔ مشین کی نیلی روشنی دھیرے دھیرے ان کے گرد گھومنے لگی، جیسے وقت خود ان کے سفر کا خیرمقدم کر رہا ہو۔ اس سفر میں وہ نہ صرف وقت کو دیکھنے جا رہے تھے، بلکہ اسے محسوس کرنے، سونگھنے، اور چھونے جا رہے تھے۔

یہ صرف ایک سائنسی تجربہ نہیں تھا — یہ ایک روحانی گزرگاہ تھی، جہاں یادیں سانس لیتی تھیں، اور جذبات روشنی بن کر بہتے تھے۔

ماضی کا سفر

دھند آہستہ آہستہ چھٹنے لگی۔
پہلا منظر نایاب کے گاؤں کا تھا — وہی پرانی کچی گلیاں، وہی مٹی کی خوشبو، اور اس خوشبو میں لپٹی ہوئی ایک کہانی۔
نایاب لکڑی کی چھڑی اور کتاب ہاتھ میں لیے بچپن کی گلیوں میں چل رہی تھی۔ اُس وقت وہ دیکھ سکتی تھی۔
پھر وہ لمحہ آیا — ایک عجیب خوشبو نے اُسے کھینچا، جیسے وقت نے اُسے پکارا ہو۔ وہ گھر سے نکلی… اور پھر وہ حادثہ ہوا جس نے اُس سے بینائی چھین لی۔

اب، برسوں بعد، وہ اُسی لمحے کو دیکھ رہی تھی، مگر اس بار شعور کے ساتھ۔
شفیق نے اُس کا ہاتھ تھاما، اور دھیرے سے کہا:
“تمہاری بینائی تم سے کچھ چھیننے نہیں، کچھ دینے آئی تھی۔ یہ حادثہ تمہیں تمہاری اصل طرف لے آیا۔”

منظر بدلا — اب شفیق کے گاؤں کا صحن۔
ایک ماں اپنے بیٹے کو وضو کروا رہی ہے، اور ساتھ ساتھ کہہ رہی ہے:
“بیٹا، عدل کرنا، سچ بولنا۔ وقت کو صرف وہی سمجھتا ہے جو خود سے جھوٹ نہیں بولتا۔”

نایاب نے پہلی بار شفیق کے ماضی کو یوں چھوا — وہ بچہ جو وقت کے سوالوں میں الجھا تھا، لیکن ماں کی دعاؤں نے اسے کسی دن وقت کی گتھی سلجھانے کے قابل بنایا۔

فاؤنٹین ہاؤس، لاہور

سفر کے درمیان اچانک منظر ٹوٹتا ہے۔
شفیق ضیاء، اب تنہا لاہور کے فاؤنٹین ہاؤس میں موجود ہے — ذہن منتشر، آنکھوں میں ایک انجانی دنیا کا عکس، اور ہاتھوں میں ادھوری مساواتوں سے بھرا رجسٹر۔

تب دروازہ کھلتا ہے۔

نایاب اور عادل اندر داخل ہوتے ہیں — نایاب کی آنکھوں میں روشنی، اور عادل کی آنکھوں میں شناسائی۔

عادل آگے بڑھتا ہے، اور شفیق کے سامنے آ کر رک جاتا ہے۔
“میں تمہارا وہ حصہ ہوں، جو تم نے تجربے میں چھوڑ دیا تھا۔ میں تمہاری وہ آواز ہوں جو وقت کے پار سنائی دی۔”

شفیق کی آنکھوں میں نمی اُتر آتی ہے۔
“تم… میرا عادل۔”

نایاب آہستہ سے رجسٹر کھولتی ہے، جہاں زیرو آور کی مساوات لکھی ہے — وہی مساوات جس نے وقت کو نئے انداز سے بیان کیا تھا، مگر جو نامکمل تھی۔

شفیق، عادل اور نایاب — تینوں مل کر مساوات کو مکمل کرتے ہیں۔
اور اُس لمحے، مشین خود بخود چمکنے لگتی ہے۔

مستقبل کا سفر

اب وہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جو ممکنہ مستقبل ہے۔
ایک چمچماتا شہر، جہاں ہر شخص وقت کی گرفت میں قید ہے۔
کہانیاں ختم، جذبات ڈیجیٹل، اور لمحے بےمقصد۔

نایاب نے کہا،
“یہ وہ دنیا ہے جہاں آنکھیں تو ہیں، مگر نظر نہیں۔ دل تو ہیں، مگر دھڑکنوں کا مطلب کھو چکا ہے۔”

شفیق نے ایک بچے کو دیکھا، جو تھکن سے دیوار کے ساتھ لگا تھا۔
“ہمیں اس بچے کو وقت کی خوشبو لوٹانی ہے… تاکہ وہ پھر سے جینا سیکھے۔”

پھر وہ منظر آیا —
“وقت کا باغ” — ایک ایسی جگہ جہاں نابینا، بیمار، عمر رسیدہ، اور ادھورے خوابوں والے لوگ اکٹھے ہو کر اپنی کہانیاں سناتے، خوشبو میں بُنتے، اور وقت کو محسوس کرتے۔

شفیق ان کو سائنس سکھاتا، اور نایاب احساس۔

واپسی

جب مشین خاموش ہوئی، تو ان تینوں کی آنکھوں میں نئی روشنی تھی۔
اب وہ ایک ایسی دنیا کی شروعات کرنے جا رہے تھے جہاں ماضی کو سمجھ کر، مستقبل کو محسوس کر کے، حال کو زندہ کیا جاتا تھا۔

اسی لمحے، پروفیسر ناتھن نے شفیق سے پوچھا،
“اس لیب کا نام کیا رکھا جائے؟”

شفیق نے نایاب کی طرف دیکھا، مسکرایا، اور کہا:
“ساعت… کیونکہ یہاں وقت صرف گزرتا نہیں، نکھرتا ہے۔”

اور وہ دروازہ —
جہاں روشنی، خوشبو، آواز اور لہروں کے سنگم پر وقت کو بامعنی بنایا جا رہا تھا —
اس پر صرف ایک سطر لکھی گئی:

“اگر تم خود کو پا لو، تو وقت تمہیں کبھی نہیں کھوئے گا۔”

اسی لیب میں، اسی لمحے،
عادل نے پہلی بار مکمل توازن محسوس کیا۔
کیونکہ اب وہ ادھورا نہیں تھا۔
وہ خود شفیق تھا —
اور شفیق، خود عادل۔

جاری ہے ۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں