کتابیں… میری پہلی محبت
کتابوں کے عالمی دن پر ایک دل سے نکلی تحریر
( ڈاکٹر شہلا گوندل)
مجھے کتاب سے محبت کب ہوئی، علم نہیں۔
بس اتنا یاد ہے کہ پہلی کتاب قرآن تھی۔
دو بار پڑھی — ایک بار ہجوں کے ساتھ، دوسری بار روانی سے — اور یہ سب کچھ ساڑھے پانچ سال کی عمر میں۔
پھر سکول کی دہلیز پر قدم رکھا۔
پہلی جماعت کی استانی نے قاعدہ سنانےکو کہا تو میں نے پورا الف سے ی تک پڑھ کے سنا دیا، اور کچی کی بجائے پکی جماعت میں داخلہ ہوا۔
پھر وہ دن، اور آج کا دن —
کتاب میری زندگی کا حصہ بن گئی،
ایک خاموش ساتھی، جو ہر موڑ پر میرے ساتھ رہا۔
اپنی جماعت کی کتابیں ختم ہوتیں تو بڑی جماعتوں کی اردو کتابیں لے آتی۔
خالہ کی بیٹی، باجی کی پنجابی اور اردو کی کتابیں بھی دوسری جماعت میں ہی پڑھ ڈالیں۔
پڑھنے سے عشق تھا، لکھنے سے وحشت۔
اماں سے کبھی چوانی مانگتی، وہ کہتیں “چل تختی لکھ” — اور میں پتلی گلی سے کھسک جاتی۔
تایا جی بچوں کی کہانیوں کا سیٹ لائے،
ابا جی نے علمِ نجوم، علم جفر، قیافہ شناسی، شعبدہ بازی، نفسیات کی کتابوں سے متعارف کروایا۔
پھر عمران سیریز، عمرو عیار، انسپکٹر جمشید، ڈائجسٹ، میگزین، پھول، کلیاں، سنڈے میگزین، اخبار جہاں، دکانوں کے بورڈ، دیواروں کے اشتہار — ہر لکھی چیز میری آنکھوں سے گزرنے لگی۔
ساتویں میں شاعری سے ناتا جڑا۔
ماموں سے پامسٹری کا شوق چرایا۔
آٹھویں تک اسلامی تفاسیر اور دیگر کتب چاٹ چکی تھی۔
نویں جماعت میں نسیم حجازی کی تاریخ نگاری کا نشہ چڑھا۔
ہزار صفحے کے ناول کو ایک نشست میں ختم کرنا معمول بن گیا۔
پھر زندگی نے رنگ بدلے —
شہاب نامہ، راجہ گدھ، علی پور کا ایلی، الکھ نگری، منٹو، بشریٰ رحمن، صدیق سالک —
لفظوں کی دنیا وسیع تر ہوتی گئی۔
یو ای ٹی میں انگریزی ناولوں کا ذائقہ چکھا۔
جاب کے دوران انسٹیٹوٹ کی لائبریری کی ساری اردو کتابیں پڑھ لیں۔
ناروے آ کر قرآن کے مختلف تراجم میں ڈوب گئی۔
چھوٹی بیٹی کے ساتھ ہسپتال کی تنہائیوں میں بابا یحییٰ کی ساری کتابیں ٹیبلٹ پر پڑھ ڈالیں۔
پی ایچ ڈی کے بعد کا فارغ وقت اوسلو کی لائبریری کی نذر ہوا،
وہیں نمرہ احمد کا “حالم” پڑھا اور دل نے کہا — ٹائم ٹریول حقیقت ہے۔
پھر موبائل، ٹیب، ای بکس — پڑھنے کا نیا انداز، لیکن محبت وہی۔
خلیل جبران بھی پڑھا — روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والے الفاظ۔
اردو فلک پر “سفر ہے شرط “ سے لکھنے کا آغاز کیااور اس ایسٹر پر “وقت کے پار” جیسی سائنس فکشن لکھ ڈالی۔
جو خوابوں سے آگے دیکھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔
لکھنے کا آغاز نویں کلاس میں “میں کیا ہوں” سے ہوا،
پھر نظموں، ولاگز، اور یوٹیوب کے ذریعے یہ سفر جاری رہا۔
“سفر ہے شرط” ہو یا شیلز ڈائری کی کہانیاں — ہر لفظ میرے اندر کی گواہی ہے۔
اور آج،
23 اپریل 2025 کو، کتابوں کے عالمی دن کے موقع پر،
میں نے اپنی کتابیں — وہ ساری جمع کی ہوئی انگریزی اور نارویجین کتابیں —
اپنے سکول کو تحفے میں دے دی ہیں۔
پرنسپل صاحب نے ممنونیت سے کتابیں وصول کیں،
اور “وقت کے پار” کی کہانی سن کر مجھے “Orbital” پڑھنے کا مشورہ دیا —
جیسے ایک قاری سے دوسرے قاری کا خاموش معاہدہ،
کہ یہ شوق رکے گا نہیں، بس نئے مدار میں داخل ہو جائے گا۔
کیونکہ کتاب صرف کاغذ پر لفظوں کی قطار نہیں،
یہ وہ رشتہ ہے جو وقت سے آزاد،
احساس سے بندھا،
روح کی غذا بن جاتا ہے۔
کتابوں کا عالمی دن صرف ایک دن نہیں —
یہ ہر اس لمحے کا جشن ہے،
جب ہم نے کسی صفحے پر اپنا آپ ڈھونڈ لیا ہو،
جب کسی لفظ نے ہمارے اندر کے خلا کو بھر دیا ہو،
جب ایک کہانی نے ہمیں وہ ہمدردی، وہ قوت دی ہو،
جو ہم خود کو نہیں دے پاتے۔
میری پہلی محبت، میری کتابوں کی کولیکشن،
اب میرے سکول کی شیلفوں کی زینت بنے گی ۔
کسی اور ننھی سی آنکھ کو وہ چمک دینے کے لیے جو کبھی میری آنکھ میں تھی۔
اور مجھے یقین ہے،
لفظوں کا یہ سفر ختم نہیں ہوتا…
یہ تو بس ایک نئی کتاب کے پہلے صفحے جیسا ہے۔
تیئیس اپریل دو ہزار پچیس
ڈاکٹر شہلا گوندل
Recent Comments