تاسوقت پوری دنیا ا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔گلوبلائیزیشن کے طوفان نے مشرقی اقدار کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔اس عالمی طوفان میں مشرقی اقدار کو زندہ رکھنا ایک مشکل کام ہے۔یہ قدریں تو اب مشرقی ممالک میں بھی معدوم ہو رہی ہیں۔کجا یہ کہ انہیں مغربی ممالک میں زندہ رکھا جائے۔اس کے باوجود آفرین ہے ان ماؤں پر جو کہ اپنے بچوں کو اسلامی اقدار سے روشناس کرواتی ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں بسنے والی فیملیز کو بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بہت سے دوسرے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ان مشکلات سے کیسے نبٹا جائے؟ انکی کیا وجوہات ہیںیہی آج کا موضوع ہے؟
ایک مسلمان عورت کو گھر میں اور گھر سے باہرکئی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گھریلو ذمہ داریاں،بچوں کی تعلیم و تربیت، شوھر کی نازبرداریاں اور اور جاب کی ذمہ داریاں سب مل کر اسکی زندگی کو کٹھن بنا دیتی ہیں۔ان تمام ذمہ داریوں کے بوجھ تلے عورت کا وجود پس رہا ہے۔ ان تمام عوامل کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں۔اگر وہ بیٹی ہے تو بہن بھی ہے ماں ہے تو بیوی بھی ہے بہو ہے تو ساس بھی ہے۔وہ جب مشرقی تہذیب پر چلنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے مغرب کی رنگینیاں اپنی جانب متوجہ کرنے لگتی ہیں۔آخر وہ کون سی چیز اور طریقہ کار ہ جو اسے ان تمام عوامل میں توازن رکھے اور وہ ایک متوازن شخصیت بن کر ابھرے۔وہ نہ تو اتنی دقیانوسی ہو کہ انتہا پسندی میں گھٹ کر رہ جائے، نہ اتنی آزاد ہو کہ اسکی مشرقیت ختم ہو جائے۔اسکا حل مناسب تعلیم و تربیت ، ماحول اور مشاہدہ میں مضمر ہے۔ مغربی معاشرہ میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے اگر انٹیگریشن کی ضرورت ہے تو اپنی پہچان کے لیے اپنے کلچر سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ ایک عورت مغربی معاشرہ میں رہ کر بھی بچوں کو اچھا مسلمان بنا سکتی ہے۔اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ بچے صبح مسجد میں دوپہر کو اسکول میں اور شام کو ڈسکو کلب میں وقت گزاریں۔ لڑکیاں گھر سے حجاب پہن کر نکلیں گھر سے باہر حجاب بیگ میں ڈالیں اسکول اور کالج میں بے حجابانہ گھومیں۔یہ ایک عدم توازن کی مثال ہے۔ یہ صرف مغربی معاشرہ میں ہی نہیں بلکہ ہمارے مشرقی معاشرہ میں بھی نظر آتا ہے۔اسلامی طور طریقے لڑکوں کے لیے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ لڑکیوں کے لیے۔کیا ایسے گھر میں متوازن شخصیت کے حامل بچے پروان چڑھ سکتے یں جہاں ماں تو صوم و صلوات کی پابندی کرتی ہو لیکن باپ پابندی سے رقص گاہوں میں جاتا ہو، یا چوری چھپے گرل فرینڈز کے ساتھ وقت گزارتا ہو۔وہ والدین جو خود مغربی ماحول میں رنگے ہیں یا مغربیت کے سیلاب میں بہہ رہے ہیں وہ اپنی اولاد سے کیونکر مسلمان ، مودب اور فرمانبردارہونے کی توقع کرتے ہیں۔مغربی تہذیب تو نام ہی آزادی کا ہے ہر قسم کی آزادی تہذیب و تمدن سے ، والدین سے اور پرانی رسوم و اقدار سے آزادی۔ بے شک انکے بعض اصول بہت اچھے ہیں جیسے ایمانداری صاف گوئی اور سچائی، لیکن ہم لوگ صرف منفی اقدار کو ہی اپناتے ہیں۔ دوسری جانب حقیقی اسلام نام ہے متوازن طرز حیا ت کا۔ اسلام ہمیں ان تمام کاموں سے روکتا ہے جو ہمیں بے حیائی کی جانب لے جائیں۔ بے حیائی کی اجازت تو کوئی مذہب نہیں دیتا لیکن کوئی اپنے مذہب پر تو چلے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ بے حیائی کی جانب کون سے کام لے جاتے ہیں اور کون سے روکتے ہیں ۔ تبھی ہم لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو بے حیائی کے طوفان سے روک سکتے ہیں۔مغربی اقوام نے اپنے مذہب سے بھی آزادی حاصل کر لی ہے۔انہوں نے دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے چند اچھی عادات اپنا لی ہیں۔ اس میں سچائی اور ایمانداری صف اول پہ ہیں انہی کی وجہ سے آج انکا شمار ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا ہے ہمیں ان اوصاف کو چھوڑنے کی یہ سزا ملی کہ ہماری قوم صدیوں پیچھے چلی گئی۔ہمارے بچے احساس کمتری کا شکار ہو گئے ۔
بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اسلامی شعور پیدا کیا جائے۔ اسلامی شعور پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ پتہ ہو کہ کہاں سے اسلام کی حدیں شروع ہوتی ہیں اور کہاں پر ختم ہوتی ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد کا علم بھی ہو اور عمل بھی۔ اسلام کوئی ا تنا مشکل مذہب نہیں جتنا کہ اسے بنا دیا گیا ہے۔ اسلام میں ماڈرن لباس پہ پابندی نہیں عریاں لباس پہ پابندی ہے، اسلام میں مرضی کی شادی پہ پابندی نہیں بے جا آزادی پہ پابندی ہے، اسلام میں ترقی کرنے پہ پابندی نہیں بے جا دکھاوہ اور عیش و عشرت پہ پابندی ہے، اور اسلام میں تقریبات پہ پابندی نہیں بے حیائی پھیلانے والی محفلوں پہ پابندی ہے۔ہمیں اسلام کو جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ ہمیں اس جدیدیت کے سیلاب سے اپنے مذہب اور اقدار کے ہم آہنگ موتی چننا ہوں گے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ارشاد رسول ﷺ ہے کہ جب بچے کو بولنا سکھاؤ تو س سے پہلے پہلا کلمہ سکھاؤ تاکہ جب دنیا سے رخصت ہوں تب بھی کلمہ پڑھے۔ بچوں کو اسلام کے ارکان ازبر ہونے چاہیءں۔ انہیں ارکان اسلام نماز اور روزہ کی پابندی کروائیں انہیں اسلام پہ فخر کرنا سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ اسلام دنیا کا ماڈرن اور لیٹسٹ مذہب ہے۔اس لیے کہ ماڈرن کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز سب سے آخر میں آتی ہے اسے ماڈرن کہا جاتا ہے اس حساب سے اسلام سب سے آخر میں آنے والا مذہب ہے جس کی آسمانی کتاب نازل ہوئی ہے۔ میں نے جب یہ سوال اپنی نارویجن کولیگز سے پوچھا تو وہ سر کھجانے لگیں۔ پھر جب میں نے اسلام کا نام لیا تو انہیں ماننا ہی پرا کہ اسلام ہی ماڈرن مذہب ہے کیونکہ یہ سب سے اآخر میں نازل ہوا۔ اسلام پہ چلنے والے آج کتنے ماڈرن اور ترقی یافتہ ہیں یہ تو آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوسکتے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کو اسلام پر پابندی کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم سے بھی آراستہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری قوم پر سے دقیانوسیت کا ٹھپہ ہٹ جائے۔اپنے بچوں کو اسلامی محفلوں میں شرکت کے مواقع بھی فراہم کریں اور انہی ترغیب دلائیں کہ مقامی تقریبات کے ساتھ سات اپنی مذہبی اور ثقافتی تقریبات میں بھی حصہ لیں۔غیر اسلامی بچوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں ضرور لیکن انکے طور طریقے اپنانے تو ضروری نہیں۔ انہیں اپنی اچھی کارکردگی اور عادات سے متاثر کریں نہ کہ انکی نقالی سے۔ ایسی نقالی کا کیا فائدہ کہ انسان اپنی پہچان ہی کھو دے۔اپنے بچوں کو اسلامی تہواروں سے محبت کرنا سکھائیں۔بچوں کو حرام حلال کی تمیز ہونا چاہیے۔ اسکا کوئی متبادل حل ڈھونڈ لیں۔ مثلاً ناروے میں پکنک یا اسکو ل ٹورز پر بچوں سے ہاٹ ڈاگز لانے کے لیے کہا جاتا ہے جو کہ بچے کوئلوں پر گرل کر کے کھاتے ہیں۔ پاکستانی بچے حلال ہاٹ ڈاگز بھی لے جا سکتے ہیں جو کہ حلال کھانے کی دوکانوں سے آسانی سے مل جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مائیں گھر میں سیخ کباب بنا کر بچوں کو دے سکتی ہیں۔ کئی لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ حرام کا نوالہ کھانے والا مسلمان کبھی دین و دنیا میں فلاح نہیں پا سکتا۔ چاہے وہ حرام کمائی کا ہو یا حرام خوراک کا۔یہ اسلامی شعور کے لیے زہر قاتل ہے۔کیونکہ یہیں سے برائی پھیلتی ہے۔ حرام کھانے سے گناہوں سے رغبت بڑھتی ہے اور ضمیر سو جاتا ہے۔ کوئی کام صرف اس لیے صحیح نہیں ہو سکتا کہ سب کرتے ہیں۔ کسی کام پر اس لیے معافی نہیں مل سکتی کہ ساری دنیا وہی کچھ کرتی ہے۔ ہر غلط کام اور بات کا احتساب ایک نہ ایک دن تو ضرور ہو گا۔
اسلام دوسری اقوام کے لباس استعمال کرنے پر پابندی نہیں لگاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں نہ پھیل سکتا۔ اسلام تو صرف عریاں لباس پر پابندی لگاتا ہے۔مجھے ایک خاتو ن جو کہ برطانیہ سے تبلیغ میں آئی ہوئی تھیں ملیں۔ کہنے لگیں جب ہم لوگ انگلینڈ آئے اس وقت ہم لوگ اپنے اسلامی لباس شلوار قمیض نہیں استعمال کر سکتے تھے میرے میاں کو بڑی دقت ہوتی تھی۔ میں نے کہا کہ شلوار قمیض اسلامی لباس تو نہیں یہ تو ہندی لباس ہے اسلامی لباس تو وہ ہے جو عربی استعمال کرتے ہیں۔ وہ وہاں کے موسم سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کوئی بھی لباس جو اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو استعمال کر سکتے ہیں۔پھر ہر علاقہ کا لباس وہاں کے موسم اور آب و ہوا کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ گرم علاقوں کے لباس ٹھنڈے ممالک میں اور ٹھنڈے ممالک کے لباس گرم ممالک میں نہیں استعمال کیے جاسکتے۔ہمیں اپنے بچوں کو ایسے لباس استعمال کرنے کی ترغیب دینی چاہیے جس سے جسم صحیح طرح سے ڈھانپا جا سکے عریاں نہ ہو۔لڑکے لڑکیوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی قطعی اجازت نہ دیں نہ انہیں مخلوط محفلوں میں اکیلے جانے دیں۔البتہ بچوں کو فیملی گیدرنگز میں خود لے کر جائیں، تاکہ انہیں آداب محفل آئیں۔اپنے گھر پر بیٹے بیٹی کے دوستوں اور سیہلیوں کی پارٹیز منعقد کریں مگر الگ الگ۔ بے حیائی کے لیے مغربی معاشرہ کو الزام نہ دیں۔ آجکل اپنے وطن میں بھی ماڈرن ازم نے معاشرتی اقدار کو تہس نہس کر دیا ہے۔زرائع ابلاغ نے نئی نسل سے حیا ء چھین لی ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے بے حجابانہ ڈرامے، کمپیوٹر پر چیٹنگ کی فضول ویب سائٹس اور موبائل کے ایس ایم ایس نے نے بے راہ روی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ آپ انہیں صحیح تربیت سے بند کر دیں۔اسکی جگہ انہیں متبادل تفریحات اور سرگرمیاں مہیاء کریں۔ یہ سرگرمیاں ہمارے کلچر سے مطابقت رکھتی ہوں ان میں ذہنی اور تفریحی مشاغل ہو سکتے ہیں۔یہ باتیں پتہ تو سب کو ہیں لیکن عمل کوئی کوئی کرتا ہے۔میں امید کرتی ہوں کہ،
شائید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
ایک مسلمان عورت کو گھر میں اور گھر سے باہرکئی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔گھریلو ذمہ داریاں،بچوں کی تعلیم و تربیت، شوھر کی نازبرداریاں اور اور جاب کی ذمہ داریاں سب مل کر اسکی زندگی کو کٹھن بنا دیتی ہیں۔ان تمام ذمہ داریوں کے بوجھ تلے عورت کا وجود پس رہا ہے۔ ان تمام عوامل کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں۔اگر وہ بیٹی ہے تو بہن بھی ہے ماں ہے تو بیوی بھی ہے بہو ہے تو ساس بھی ہے۔وہ جب مشرقی تہذیب پر چلنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے مغرب کی رنگینیاں اپنی جانب متوجہ کرنے لگتی ہیں۔آخر وہ کون سی چیز اور طریقہ کار ہ جو اسے ان تمام عوامل میں توازن رکھے اور وہ ایک متوازن شخصیت بن کر ابھرے۔وہ نہ تو اتنی دقیانوسی ہو کہ انتہا پسندی میں گھٹ کر رہ جائے، نہ اتنی آزاد ہو کہ اسکی مشرقیت ختم ہو جائے۔اسکا حل مناسب تعلیم و تربیت ، ماحول اور مشاہدہ میں مضمر ہے۔ مغربی معاشرہ میں ایڈجسٹ ہونے کے لیے اگر انٹیگریشن کی ضرورت ہے تو اپنی پہچان کے لیے اپنے کلچر سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ ایک عورت مغربی معاشرہ میں رہ کر بھی بچوں کو اچھا مسلمان بنا سکتی ہے۔اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ بچے صبح مسجد میں دوپہر کو اسکول میں اور شام کو ڈسکو کلب میں وقت گزاریں۔ لڑکیاں گھر سے حجاب پہن کر نکلیں گھر سے باہر حجاب بیگ میں ڈالیں اسکول اور کالج میں بے حجابانہ گھومیں۔یہ ایک عدم توازن کی مثال ہے۔ یہ صرف مغربی معاشرہ میں ہی نہیں بلکہ ہمارے مشرقی معاشرہ میں بھی نظر آتا ہے۔اسلامی طور طریقے لڑکوں کے لیے بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنے کہ لڑکیوں کے لیے۔کیا ایسے گھر میں متوازن شخصیت کے حامل بچے پروان چڑھ سکتے یں جہاں ماں تو صوم و صلوات کی پابندی کرتی ہو لیکن باپ پابندی سے رقص گاہوں میں جاتا ہو، یا چوری چھپے گرل فرینڈز کے ساتھ وقت گزارتا ہو۔وہ والدین جو خود مغربی ماحول میں رنگے ہیں یا مغربیت کے سیلاب میں بہہ رہے ہیں وہ اپنی اولاد سے کیونکر مسلمان ، مودب اور فرمانبردارہونے کی توقع کرتے ہیں۔مغربی تہذیب تو نام ہی آزادی کا ہے ہر قسم کی آزادی تہذیب و تمدن سے ، والدین سے اور پرانی رسوم و اقدار سے آزادی۔ بے شک انکے بعض اصول بہت اچھے ہیں جیسے ایمانداری صاف گوئی اور سچائی، لیکن ہم لوگ صرف منفی اقدار کو ہی اپناتے ہیں۔ دوسری جانب حقیقی اسلام نام ہے متوازن طرز حیا ت کا۔ اسلام ہمیں ان تمام کاموں سے روکتا ہے جو ہمیں بے حیائی کی جانب لے جائیں۔ بے حیائی کی اجازت تو کوئی مذہب نہیں دیتا لیکن کوئی اپنے مذہب پر تو چلے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ بے حیائی کی جانب کون سے کام لے جاتے ہیں اور کون سے روکتے ہیں ۔ تبھی ہم لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو بے حیائی کے طوفان سے روک سکتے ہیں۔مغربی اقوام نے اپنے مذہب سے بھی آزادی حاصل کر لی ہے۔انہوں نے دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے چند اچھی عادات اپنا لی ہیں۔ اس میں سچائی اور ایمانداری صف اول پہ ہیں انہی کی وجہ سے آج انکا شمار ترقی یافتہ قوموں میں ہوتا ہے ہمیں ان اوصاف کو چھوڑنے کی یہ سزا ملی کہ ہماری قوم صدیوں پیچھے چلی گئی۔ہمارے بچے احساس کمتری کا شکار ہو گئے ۔
بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اسلامی شعور پیدا کیا جائے۔ اسلامی شعور پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ پتہ ہو کہ کہاں سے اسلام کی حدیں شروع ہوتی ہیں اور کہاں پر ختم ہوتی ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد کا علم بھی ہو اور عمل بھی۔ اسلام کوئی ا تنا مشکل مذہب نہیں جتنا کہ اسے بنا دیا گیا ہے۔ اسلام میں ماڈرن لباس پہ پابندی نہیں عریاں لباس پہ پابندی ہے، اسلام میں مرضی کی شادی پہ پابندی نہیں بے جا آزادی پہ پابندی ہے، اسلام میں ترقی کرنے پہ پابندی نہیں بے جا دکھاوہ اور عیش و عشرت پہ پابندی ہے، اور اسلام میں تقریبات پہ پابندی نہیں بے حیائی پھیلانے والی محفلوں پہ پابندی ہے۔ہمیں اسلام کو جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ ہمیں اس جدیدیت کے سیلاب سے اپنے مذہب اور اقدار کے ہم آہنگ موتی چننا ہوں گے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ارشاد رسول ﷺ ہے کہ جب بچے کو بولنا سکھاؤ تو س سے پہلے پہلا کلمہ سکھاؤ تاکہ جب دنیا سے رخصت ہوں تب بھی کلمہ پڑھے۔ بچوں کو اسلام کے ارکان ازبر ہونے چاہیءں۔ انہیں ارکان اسلام نماز اور روزہ کی پابندی کروائیں انہیں اسلام پہ فخر کرنا سکھائیں۔ انہیں بتائیں کہ اسلام دنیا کا ماڈرن اور لیٹسٹ مذہب ہے۔اس لیے کہ ماڈرن کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز سب سے آخر میں آتی ہے اسے ماڈرن کہا جاتا ہے اس حساب سے اسلام سب سے آخر میں آنے والا مذہب ہے جس کی آسمانی کتاب نازل ہوئی ہے۔ میں نے جب یہ سوال اپنی نارویجن کولیگز سے پوچھا تو وہ سر کھجانے لگیں۔ پھر جب میں نے اسلام کا نام لیا تو انہیں ماننا ہی پرا کہ اسلام ہی ماڈرن مذہب ہے کیونکہ یہ سب سے اآخر میں نازل ہوا۔ اسلام پہ چلنے والے آج کتنے ماڈرن اور ترقی یافتہ ہیں یہ تو آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوسکتے ہیں اگر ہم اپنے بچوں کو اسلام پر پابندی کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم سے بھی آراستہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری قوم پر سے دقیانوسیت کا ٹھپہ ہٹ جائے۔اپنے بچوں کو اسلامی محفلوں میں شرکت کے مواقع بھی فراہم کریں اور انہی ترغیب دلائیں کہ مقامی تقریبات کے ساتھ سات اپنی مذہبی اور ثقافتی تقریبات میں بھی حصہ لیں۔غیر اسلامی بچوں کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں ضرور لیکن انکے طور طریقے اپنانے تو ضروری نہیں۔ انہیں اپنی اچھی کارکردگی اور عادات سے متاثر کریں نہ کہ انکی نقالی سے۔ ایسی نقالی کا کیا فائدہ کہ انسان اپنی پہچان ہی کھو دے۔اپنے بچوں کو اسلامی تہواروں سے محبت کرنا سکھائیں۔بچوں کو حرام حلال کی تمیز ہونا چاہیے۔ اسکا کوئی متبادل حل ڈھونڈ لیں۔ مثلاً ناروے میں پکنک یا اسکو ل ٹورز پر بچوں سے ہاٹ ڈاگز لانے کے لیے کہا جاتا ہے جو کہ بچے کوئلوں پر گرل کر کے کھاتے ہیں۔ پاکستانی بچے حلال ہاٹ ڈاگز بھی لے جا سکتے ہیں جو کہ حلال کھانے کی دوکانوں سے آسانی سے مل جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مائیں گھر میں سیخ کباب بنا کر بچوں کو دے سکتی ہیں۔ کئی لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ حرام کا نوالہ کھانے والا مسلمان کبھی دین و دنیا میں فلاح نہیں پا سکتا۔ چاہے وہ حرام کمائی کا ہو یا حرام خوراک کا۔یہ اسلامی شعور کے لیے زہر قاتل ہے۔کیونکہ یہیں سے برائی پھیلتی ہے۔ حرام کھانے سے گناہوں سے رغبت بڑھتی ہے اور ضمیر سو جاتا ہے۔ کوئی کام صرف اس لیے صحیح نہیں ہو سکتا کہ سب کرتے ہیں۔ کسی کام پر اس لیے معافی نہیں مل سکتی کہ ساری دنیا وہی کچھ کرتی ہے۔ ہر غلط کام اور بات کا احتساب ایک نہ ایک دن تو ضرور ہو گا۔
اسلام دوسری اقوام کے لباس استعمال کرنے پر پابندی نہیں لگاتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں نہ پھیل سکتا۔ اسلام تو صرف عریاں لباس پر پابندی لگاتا ہے۔مجھے ایک خاتو ن جو کہ برطانیہ سے تبلیغ میں آئی ہوئی تھیں ملیں۔ کہنے لگیں جب ہم لوگ انگلینڈ آئے اس وقت ہم لوگ اپنے اسلامی لباس شلوار قمیض نہیں استعمال کر سکتے تھے میرے میاں کو بڑی دقت ہوتی تھی۔ میں نے کہا کہ شلوار قمیض اسلامی لباس تو نہیں یہ تو ہندی لباس ہے اسلامی لباس تو وہ ہے جو عربی استعمال کرتے ہیں۔ وہ وہاں کے موسم سے مطابقت رکھتا ہے۔ آپ کوئی بھی لباس جو اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو استعمال کر سکتے ہیں۔پھر ہر علاقہ کا لباس وہاں کے موسم اور آب و ہوا کی مناسبت سے ہوتا ہے۔ گرم علاقوں کے لباس ٹھنڈے ممالک میں اور ٹھنڈے ممالک کے لباس گرم ممالک میں نہیں استعمال کیے جاسکتے۔ہمیں اپنے بچوں کو ایسے لباس استعمال کرنے کی ترغیب دینی چاہیے جس سے جسم صحیح طرح سے ڈھانپا جا سکے عریاں نہ ہو۔لڑکے لڑکیوں کو آزادانہ گھومنے پھرنے کی قطعی اجازت نہ دیں نہ انہیں مخلوط محفلوں میں اکیلے جانے دیں۔البتہ بچوں کو فیملی گیدرنگز میں خود لے کر جائیں، تاکہ انہیں آداب محفل آئیں۔اپنے گھر پر بیٹے بیٹی کے دوستوں اور سیہلیوں کی پارٹیز منعقد کریں مگر الگ الگ۔ بے حیائی کے لیے مغربی معاشرہ کو الزام نہ دیں۔ آجکل اپنے وطن میں بھی ماڈرن ازم نے معاشرتی اقدار کو تہس نہس کر دیا ہے۔زرائع ابلاغ نے نئی نسل سے حیا ء چھین لی ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے بے حجابانہ ڈرامے، کمپیوٹر پر چیٹنگ کی فضول ویب سائٹس اور موبائل کے ایس ایم ایس نے نے بے راہ روی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ آپ انہیں صحیح تربیت سے بند کر دیں۔اسکی جگہ انہیں متبادل تفریحات اور سرگرمیاں مہیاء کریں۔ یہ سرگرمیاں ہمارے کلچر سے مطابقت رکھتی ہوں ان میں ذہنی اور تفریحی مشاغل ہو سکتے ہیں۔یہ باتیں پتہ تو سب کو ہیں لیکن عمل کوئی کوئی کرتا ہے۔میں امید کرتی ہوں کہ،
شائید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
zabardast article lika ha…..or hasba hal bhi