تحریر شازیہ عندلیب
سنا ہے تہذ یب و تمدن کے شہر لکھنئو میںکسی زمانے میںبندر بہت پائے جاتے تھے۔ مگر ہمارے معاشرے اور لغت میں تو آج بھی بندرکے بہت محاورے پائے جاتے ہیں۔روزمرہ کی زبان میں یہ لفظ شوق سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بندروں جیسیی حرکات و سکنات تو ہر طبقے میں پائی جاتی ہیں۔۔ شعبہ کوئی بھی ہو سیاست ، تعلیم یا پھر شوبزنس لے لیں
ہر جگہ پر بندروں کی طرح نقل کرنا ایک آرٹ ہے۔ نقل کے رجحان نے ہمارے معاشرے میں ایک فن کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ہمارے معاشرے میں وہی کامیاب ہے جو اس فن میں طاق ہے۔ کبھی کبھی نقل میں ناکام ہونے والے افراد زیر عتاب بھی آجاتے ہیں۔ اسلیے کہ اس فن کو نہائیت رازداری سے سر انجام دینا ہی اسکی کامیابی کی زمانت ہے۔ ورنہ پھر یوں بھی ہوتا ہے جیسا کہ جیو ٹی وی والوں نے کراچی میں ایک غیر قانونی امتحانی مرکز پہ چھاپہ مار کے کیا۔ بیچارے طلباء اساتذہ اور انکے والدین کو بڑی کوفت اٹھانی پڑی۔وہاں پر سب سلوک اتفاق سے مل جل کر ٹیم ورک ک ے ذریعے معصوم طلباء کے پرچے کتابوں کی مدد سے حل کر رہے تھے۔ ایسے میں جیو ٹی وی والے اپنی ٹیم کے ساتھ کسی ناگہانی آفت کی طرح نازل ہو گئے۔ اس طرح کئی طلباء کا مستقبل خاک میںمل گیا۔اگر ڈوگر صاحب اپنی عدالت میں انصاف کی ڈگڈگی بجا کر اپنی بیٹی کے نمبر بڑھوا سکتے ہیں تو یہ طلباء اپنے والدین اور اساتذہ کی مدد سے امتحانی پرچے کیوں نہیں حل کر سکتے۔اب ہر طالبعلم کو ڈوگر جیسا فاضل قابل جج باپ تو نہیں مل سکتا جو اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی خاطر نمبر بڑھوا لے۔اس کھلی بے انسافی پر تو الدین اور اساتذہ کو احتجاجی جلوس نکالنا چاہیے یا پھر لانگ مارچ ہی کر ڈالیں۔آخر یہ بندر بانٹ صرف امراء کے طبقے تک ہی کیوں محدود ہو۔ یعنی کہ ایسی سہولیات سے عام آدمی کو بھی مستفید ہونا چاہیے۔ یعنی کہ کسی کے نمبر داخلہ کے لیے کم پڑ جائیں تو نمبر بڑھوانے کی سہولت ہو، اگر پرچہ مشکل ہو تو نقل کی سہولت ملے۔ اسی لیے تو اب ایک طالبہ نے بھی ڈوگر صاحب کی بیٹی کی طرح اپنے نمبر بڑھوانے کی بھی درخواست بھی دی ہے۔ویسے بھی ہمارے ہر محکمے میں بندر اور بندر بانٹ موجود ہے۔ ہمارے معاشرے میں بندروں کے عمل دخل کا انداہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز کے کئی ساحلی علاقوں میں سمندر کے کنارے کو بندر گاہ کہا جاتا ہے۔مثا ل کے طور پر گوادر کی بندر گاہ، کلفٹن اور کیماڑی کی بندرگاہیں وغیرہ۔
بندرگاہیں ساحل کا وہ حصہ ہوتی ہیں جہاں سامان اتارا اور رکھا جاتا ہے۔ یہاں کرین ، مزدور اور گدھوں سے بار بردار ی کا کام لیا جاتا ہے۔ مزدور بھی بار برداری کے لیے گدھوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ البتہ ان مزدوروں میں بندروں والی تو کوئی حرکت دیکھنے میں نہیں آئی ۔یعنی کہ نہ تو وہ ناچتے ہیں اور نہ ہی بندروں کی طرح نقلیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔یہاں مزدوروں سے گدھوں کی طرح کام لیا جاتا ہے اسلیے اس جگہ کا نام بندر گاہ کے بجائے گدھا گاہ ہونا چاہیے۔اور تو اور کراچی کی تو ایک سڑک کا نام بھی بندر روڈ ہے۔ نہ جانے یہ نام کسی بندر کی یاد میں رکھا گیا ہے یا یہاں سے کسی زمانے میں بندروں کے کسی سردار کا گزر ہوا ہو گا ۔ بس اسی کی یاد میں حکام نے اس سڑک کا نام بندر روڈ رکھ دیا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں انسانوں کی آمد سے پہلے بندر بسا کرتے تھے۔یا پھر انسان بندروں جیسی حرکتیں کیا کرتے تھے۔ پھر ایک دن مشہور سائنسدان ڈارون کا گزر ان ساحلوں سے ہوا ہو گا اور اس نے اپنی مشہور تھیوری تشکیل دی۔اس تھیوری کی رو سے انسان پہلے بندرتھا بعد میں انسان بنا۔ اکثر ایشیائی لوگ تو اس پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ تھیوری یورپین اقوام میں بہت مقبول ہے۔ شائید اسکی وجہ ان اقوام کی جلد اور بالوں کا رنگ ہو گا جو اس مخلوق سے بہت ملتا جلتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اس بات پر یقین تو نہیں رکھتا لیکن اپنی حرکات سے اس تھیو ری کو تقویت ضرور دیتا ہے۔بندروں کی ایک اور خاص صفت ناچنا ہے یہ کام ہمارے عوام اورسیاستدان شوق سے کرتے بھی ہیں اور کرواتے بھی ہیں۔اسی لیے تو کسی سیانے نے کہا ہے کہ
ڈگڈگی بجاتے ہیں حکمران
عوام کو نچاتے ہیں حکمران
غرض یہ کہ وطن عزیز کا کوئی بھی شعبہ لے لیں چاہے وہ شعبہء تعلیم ہو ، کھیل کا میدان ہو یا وزارت کاقلمدان ہو،بندر بانٹ اور بندر ہر جگہ دستیاب ہیں۔شعبہ تعلیم میں نمبر بٹ رہے ہیں تو شعبہء صحت میں دوائی مٹھائی کی طرح بٹ رہی ہے۔ڈوگر کی عدالت میں بیٹی کے نمبر بڑھوانے کا واقعہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ ایسے کئی واقعات پہلے بھی پس پردہ ہوتے رہے ہونگے، لیکن میڈیا کی پھرتیوں کی وجہ سے یہ واقعہ منظر عام پر آ گیا۔ ورنہ ایسے واقعات پر تو پردہ ہی پڑا تا ہے جسے کوئی نہیں اٹھاتا۔
بندر اگر لکھنئو کا تہذیبی ورثہ ہیںتو ہمارا سیاسی اور ثقافتی حصہ ہیں۔ بندروں کا ہماری ثقافت اور سیاست بڑا اہم رول ہے۔ہماری روزمرہ زندگی اور لغت میں اس نادر مخلوق کو نہ صرف یاد کیا جاتا ہے بلکہ اس جیسی حرکتیں کی بھی جاتی ہیںاور کروائیں بھی جاتی ہیں۔بندر اپنی جن صفات میں شہرت رکھتا ہے وہ ناچنا اور نقلیں اتارنا ہے۔یہ دونوں خوبیاں ہمارے فنکاروں اور سیاستدانوں میں پائی جاتی ہیں۔جن فنکاروں اور سیاستدانوں میں یہ خوبیاں موجود نہ ہوں وہ کامیاب اور مشہور نہیں ہوتے۔فنکار عوام کو ناچ کر دکھاتے ہیں جبکہ سیاستدان عوام کو نچاتے ہیں۔نچانا ویسے بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہم ہے۔ امیر اور طاقتور افراد غریب اور کمزور لوگوں کو نچاتے ہیں، بیویاں شوہروں کو نچاتی ہیں جبکہ بہوئوں کو سسرال نچاتا ہے۔پچھلے دنوں کسی ارباب اختیار کے سرعام ناچنے کی پاداش میں بیچارے ناچنے والوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے خلاف احتجاج ناچنے والوں نے سڑکوں پر ناچ کر کیا۔ ارباب اختیار نے انکے ناچ مارچ سے عاجز ہو کر پابندی ہٹا لی۔اسطرح لانگ مارچ کی طرح ناچ مارچ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا۔بلکہ کچھ دانشوروں کا تو خیال ہے کہ لانگ مارچ کا آئیڈیا بھی اصل میں ناچ مارچ سے ہی لیا گیا تھا۔جہاں تک بندروں کی دوسری اہم صفت نقل کا سوال ہے تو کئی فنکاروں اور صنعتکاروں کی تو دال روٹی ہی نقل اور نقلی مال پر چلتی ہے۔ اس سے مراد مزاحیہ فنکار اور نمبر دو مال بنانے والی صنعتیں ہیں۔ یہ صنعتیںہمارے ملک میں اصلی صنعتوں کے ساتھ ساتھ پہلو بہ پہلو خوب پھل پھول رہی ہیں۔اردو لغت اور ادب میں بندروں کے کئی محورے اور ضرب لامثال ملتی ہیں۔ ان میں معروف مثالیں، ہیں بندر بانٹ، ٹین کا بندر گھر کے اندر، نقلچی بندروغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں نقلچی بندر بھی عام ہیں۔ پنجاب کے ایک مشہور صنعتی شہر کے ایک طالبعلم سے کچھ پڑھنے کے لیے کہا گیا۔شہر کا نا،م اندیشہء نقص امن کے تحت نہیں بتایا جا سکتا۔اس شہر کا نام لینا اس لیے بھی خطرے سے خالی نہیں کہ ایک دفعہ بقول امریکہ کے انکل اسامہ وہاں جا چھپے تھے۔ آپ سمجھ گئے نا میں کہاں کی بات کر رہی ہوں۔ خیر اس آٹھویں کلاس کے طالبعلم نے پڑھنے سے انکار کر دیا۔و جہ اس نے یہ بتائی کہ اسے ٹھیک سے پڑھنا نہیں آتا۔چنانچہ اردو میڈیم اسکول کے طالبعلم سے پوچھا گیا کہ تم آٹھویں جماعت تک کیسے پہنچے۔ جواب ملا جی بوٹیاں لگا کر۔سوال کرنے والے کے لیے یہ نئی بات تھی۔ گمان گزرا کہ شائید یہ کوئی دماغ تیز کرنے والی جڑی بوٹی ہے ۔ سوال کیا کہ یہ ناقص بوٹی کہاں سے ملتی ہے جس سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔ کیا یہ کسی زرعی یونیورسٹی میں تیار کی گئی یا چھانگہ مانگہ کے جنگلوں سے دستیاب ہو ئی؟ یہ سن کر طالبعلم نے ایک قہقہ لگایا اور تالی بجائی۔ کہنے لگا کیسے بیوقوف اور نالائق ہیں آپ بھی۔ویسے تو بڑے سیانے بنتے ہو تو یہ نہیں پتہ کہ بوٹی کیا ہوتی ہے۔بوٹی کہتے ہیں نقل کو ا ب بات سمجھ آئی عقل میں۔سوال کرنے والے نے پر تجسس انداز میں پوچھا دماغ تو بڑا تیز ہے تمہارا پھر نقل کیوں کرتے ہو۔جواب ملا جو کام نقل کر کے ا سانی سے ہو جائے اس کے لیے دماغ خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اور تھوڑے کام ہیں دماغ لڑانے کے لیے ۔ اچھا !وہ کیا دوسری جانب سے پر تجسس سوال آیا۔ او جی پتنگ اڑانے ،پیچ لڑانے ، سیاستدان اور لوگوں کو لڑانے کے لیے۔ اچھا تو تمہیں اس سے کیا فائدہ ہو گا، سوال کیا گیا۔آپ نے انگریز کا یہ قول نہیں سنا کہ تقسیم کرو ، لڑائو اور حکومت کرو۔واقعی تم تو بڑے ہو کر بہت بڑے سیاستدان بنو گے ،یا پھر تمہاری شادی تو ضرور کسی سیاستدان عورت سے ہو گی۔پھر ایسے سیاستدانوں کی آخری منزل چوہے دان ہی ہوتی ہے۔ یہ چوہے دان آپریشن تھیٹر یا جیل میں سے کوئی بھی جگہ ہو سکتی ہے۔دونوں جگہ کام ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی کہ آپریشن۔ بات بندروں کی نقل سے نکل کر چوہوں کے چوہے دان تک جا پہنچی۔ اصل میں بندروں اور چوہوں ے انسانوں کی بہت خد مت کی ہے۔نسل آدم کی ترقی میںاور ترقیاتی تجربات میں بندروں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سائنسدانوں نے اکثر خلائی تجربات اور علاج کی ریسرچ میں نسل بندر سے ہی استفادہ کیا ہے۔یہ تو مغرب میں اس جانور کا استعمال ہے۔ ہمارے ہاں بندروں سے صرف تماشہ دکھانے کا کام ہی لیا جاتا ہے۔ بندروں کی ہمارے معاشرے میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس والے نے بندر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ شائید اس نے پولیس والے کو تنگ کیا ہو گا۔غلطی تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے بندر سے بھی اور انسان سے بھی ایک غلطی بندر سے ہوئی تو دوسری پولیس والے سے۔
براعظم ایشیامیں سنگاپور،بنکاک، تھائی لینڈ اور انڈیا میں بندروں کی نسل کی بڑی عزت ہے۔ انکے مذہب اور معاشرے میں بندروں کا اہم رول ہے۔وہاں بندروں کو مقدس ہستی سمجھا جاتا ہے۔ گمان غالب ہے کہ بندر انکے کسی ہنومان نامی دیوتا کے عزیز رشتہ دار تھے۔ چنانچہ اسی عقیدت کے تحت انکے مجسمے وہاں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔بزرگ بتاتے ہیں کہ بندر چچا غالب کے شہر لکھنئو میں گھروں کی چھتوں پر انسانوں کے بچوں کے ساتھ دوستوں کی طرح کھیلا کرتے تھے۔اکثر بندریائیں انسانوں کے بچوں پہ بھی اپنے بچوں جیسی ممتا اورشفقت نچھاورکرتی تھیں۔خیر ہمارے ہاں تو اصلی بندروں کو اتنی بھی آزادی نہیں جیسی کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں ہے۔بلکہ ایک بندریا نے تو ایک انسانی بچے کو مارے شفقت کے اپنا بچہ سمجھ کر ساتھ لے جانے کی کوشش بھی کی۔ لیکن وہ بندریا عین موقعہ پر بچہ اغوا کرتے ہوئے پکڑی گئی اس طرح اپنے خطرناک ارادوں میںناکام ہوئی۔یہاں تو انہیں چڑیا گھر کے جنگلوں اور جیلوں میں قید رکھا جاتا ہے۔چڑیا گھر میں کئی زائرین بندروں کو چھیڑتے ہیں۔جواب میں بندر غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں۔ پھر چڑیا گھر کے نگران کو مداخلت کر کے انکی لڑائی ختم کرانا پڑتی ہے۔
ہمارے ہاں ایکدوسرے کی نقل کرنے کا بہت رواج ہے۔ غریب امیر کی نقل کرتے ہیں۔ نوجوان نسل انڈین فنکاروں کی نقل کرتی ہے۔ پاکستانی حکمران امریکی لیڈروں کی نقل کرتے ہیں۔ نقل کا بھی اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ کوئی آسان کام نہیں۔ آجکل وہی ہمارے معاشرے میں کامیاب ہے جو اس فن میں ماہر ہے۔جو فلمی ہیرو یا ہیروئن بندر کی طرح اچھل کود کرے وہ زیادہ کامیاب ہو جاتا ہے۔بندروں کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ انڈیا یا بنکاک میں جس کی شکل بندر سے ملتی ہو اسکوبھی بندروں جیسی ہی عزت دی جاتی ہے کیا؟
ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لیڈران اور امراء نقل کر کر کے ہی اونچے مقامات پر پہنچے ہیں۔ اسلیے کامیابی کے لیے نقل کرنا بہت ضروری ہے۔ہمارے معاشرے میں نقل کرنے والے نقلی لوگوں کا بہت اثر و رسوخ ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں نقلی لوگ اور مارکیٹ میں نقلی اشیاء عام ہیں۔نقل بھی ایسی کہ ا نسان اصل کو بھول جائے۔دنیا میں نقلی اشیاء بنانے کی سب سے بڑی انڈسٹری بنکاک اور تھائی لینڈ میں ہے ۔ جبکہ پاکستان اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی نقلی اشیاء کی انڈسٹری پشاور شہر سے باہر لنڈی کوتل میں ہے۔ ہمارے ملک نے اس فیلڈ میں بہت ترقی کی ہے۔پاکستان کے صنعتی شہروں میں بنایا جانے والا کپڑا جاپان اور دوسرے ممالک کی مہریں لگا کر دوگنے بھائو بیچا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے ہی ملک کی صنعتی مصنو عات دوسرے ممالک میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ پھر یہ تضاد کیوں ہے ؟ہمارے ہاں غیر ملکی اشیاء استعمال کرنے کا رجحان فیشن بن چکا ہے۔ حالانکہ ہماری مصنو عات بھی کسی طرح بین الاقوامی معیار سے کم نہیں۔ لیکن یہ ہماری قوم کا دوہرا معیار زندگی اور احساس کمتری ہے جو اصل کو نقل بنا کر بیچنے پر مجبور کرتا ہے۔
ہمارے وطن میں طلباء بچپن سے ہی نقل میںطاق ہو جاتے ہیں اس طرح وہ بذریعہ نقل اپنی تمام منازل طہ کرتے جاتے ہیں۔ اسکی تازہ مثال کراچی جیسے شہر میں کئی نقلی اور اصلی امتحانی سینٹروں پر چھاپہ
ہیں۔جب یہی طلباء زندگی کے اصل امتحان میں قدم رکھتے یں تو ہمیں دو نمبر اور دس نمبری سیاستدان،
نا لائق ڈاکٹر اور ڈگڈگی ساز جج اور وزراء ملتے ہیں۔حالانکہ ہمارے ملک میں لائق اورذہین افراد کی کمی نہیں ہے۔ لیکن انہیں سازگار ماحو ل نہیں دیا جاتا۔ نقلی اور سفارشی لوگ انکا حق مار لیتے ہیں۔لائق اور فطین لوگوں کی تازہ مثا ل ڈاکٹر عبدلقدیر خان ، اور راولپنڈی کے ہونہار طالبعلم علی معین نوازش ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو ان جیسے لوگوں کی پیروی کرنی چاہیے۔ نقل کا بڑھتا ہوا رجحان ہماری آئندہ نسلوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔اسکا سد باب ایسے ہو سکتا ہے کہ طالبعلموں کو انکی استعداد کے مطابق مضامین رکھنے دیے جائیں۔ شعبہ تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے۔ گروپ اسٹڈی کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔ آجکل وطن عزیز میں امتحان ات ہو رہے ہیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ بھی بڑھ گئی ہے، جو کہ ایک تکلیف دہ بات ہے۔ لیکن طلباء کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ انہیں ا ن لوگوں کی مثالیں یاد رکھنی چاہیئں جو بڑے لو گ مٹی کے دیے جلا کر پڑھا کرتے تھے۔ بجلی نہیں تو نہ سہی ہر طالبعلم موم بتی اور لالٹین تو افورڈ کر سکتا ہے۔ ایک روز انہی میں سے کوئی طا لبعلم چراغ راہ بن کر وطن کے طو ل و عرض میں اجالے بکھیر دے گا۔زرا چیک تو کریں کہیں آپ کے آس پاس بھی کوئی بندر تو موجود نہیں یا پھر آپ خود ہی۔۔۔
ُ