لڑکے والوں نے اب لڑکی دیکھنا اپنا دلچسپ اور پسندیدہ مشغلہ بنا لیا
لڑکی پسند کرتے وقت ہزار اعتراضات اٹھانے والے اپنا آپ کیوں بھول جاتے ہیں؟
بات ذرا تلخ مگر صد فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ نفسانفسی گہما گہمی اورخود غرضی کے اس دور میں ایک طرف تو ہم اخلاقی قدروںکو پامال کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ہم خود ساختہ مسائل کو بڑھاوا دینے میں بھی پیچھے نہیںرہے۔ انہی خود ساختہ مسائل میں ایک انتہائی سنجیدہ معاشرتی مسئلہ معیاری رشتوںکی تلاش بھی ہے کیونکہ اس کے لئے ہم نے جو پیمانہ تیار کر لیا ہے اس میں خوبصورتی، دولت اور شان و شوکت سر فہرست ہیں۔ جبکہ سیرت و کر دار، تعلیم دیانتداری اور حسن اخلاق جیسی دولت نا پائید ہوکر رہ گئی ہے۔اس عتاب کا نشانہ لڑکیاں ہی بنتی ہیں گویا ایسا لگتاہے کہ لڑکی پسند کرنے نہیں آئے بلکہ شوکیس میںلگی کوئی چیز پسند آنے پر رک گئے ،نہیں تو سر سری جائزہ لیا اور واپس اپنے گھر کی راہ لی۔ ویسے بھی آجکل گھر گھر جا کر بیٹوں اور بھائیوں کے لئے لڑکی دیکھنا ، دلچسپ مشغلہ بن چکا ہے۔ لڑکے والے بڑے رعب و دبدبے اور بڑی شان کے ساتھ لڑکی کو دیکھنے کے لئے تشریف فرما ہوتے ہیںاور بیچارے لڑکی والے آئو بھگت میںکوئی کسر نہیں چھوڑتے ،یہ ان کی مرضی کہ وہ اپنے راجہ اندر کے لئے اس جھانسی کی رانی کو پسند بھی فرماتے ہیں یا کہیں اور پڑا ئو ڈالتے ہیں۔ ایسے وقت میں لڑکے والوں کی شان بے نیازی اور مطلق العنانیت بالکل صدر مملکت سے مطابقت رکھتی ہے کہ صرف اپنی پروا باقی سب سے بے پروا۔ زیادہ تر رشتے رد ہونے کے اسباب میں خوبصورتی کی کمی، چھوٹا قد، موٹاپا، اچھا رہائشی علاقہ نہیں یا پھر گھر بار اچھا نہیں۔ لیکن یہاں یہ سوال بھی جہنم لیتا ہے کہ ایسے میں مائوں اور بہنوں کو اپنے چاند میںکوئی داغ نظر کیوں نہیں آتا ؟
انہیں تو بس چند ے آفتاب اور چندے مہتاب لڑکی کی تلاش ہوتی ہے۔ پھر چاہے یہ جوڑا یسے ہی کیوں نہ لگے ”جو روکے گلے میںلنگور” یا پھر بیٹا اس آفتاب و مہتاب میں الجھ کر سب کچھ بھول جائے۔ ان وجوہات کے علاوہ جو ایک اور وجہ بھی سامنے آ رہی ہے وہ لڑکی کا ملازمت پیشہ ہونا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو وسیع النظری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اپنے روشن خیالی کے خانے سے ملازمت پیشہ لڑکیوںکو خارج کر دیتے ہیں۔ انکے خیال میں جاب کرنے والی لڑکیاں اچھی خاتون خانہ ثابت نہیںہو سکتی۔ جو کہ بالکل غلط ہے کیونکہ انہوںنے جب اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنا ء پر یہ مقام حاصل کر لیا وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے کیسے غافل ہو سکتیں ہیں جبکہ عموماً یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں وقت بھی برباد کیا جاتاہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا،نہ اچھا نہ برا۔
لہٰذا اس خود ساختہ مسئلے کو سلجھانے کے لئے ہم سب کو مل کر پہل بھی کرنی ہو گی اور کوشش کر کے اپنے نظریات اور اپنی تلاش کے محور کوبھی بدلنا ہوگا۔ ہم بشر ہیں۔ اسلئے اچھائی اور برائی ہر کسی میں ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں جس سے کوئی برائی سر زد نہ ہوتی ہو۔ لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی سوچوںکو مثبت رکھیں۔ خامیوںپر کم اور خوبیوں پر زیادہ دھیان دیں۔ ظاہری چکا چوند سے مرعوب ہونے کی بجائے باطن پر بھی نظر رکھیں۔ انتخاب میں لڑکی اخلاق و سیرت کو فوقیت دیں، اگر ماں نیک سیرت اور خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہو گی تو آئندہ نسل میں بھی یہی خوبیاں موجود ہوں گی جس سے قوم کے بہتر مستقبل کی امید برآں سکتی ہے۔