تحریرراشد اشرف کراچی
سفر نامہ ڈ اکٹر خلیل طوق
بزم تخلیق ادب پاکستان کے زیر اہتمام ڈاکٹر خلیل طوق کا سفرنامہ خیرپور سے پشاور تک کل بروز جمعرات 16 فروری 2012، کو شائع ہوا ہے۔
دو سو صفحات پر مشتمل اس سفرنامے کی قیمت 250 روپے مقرر کی گئی ہے۔ خیرپور سے پشاور تک مندرجہ ذیل پتے سے حاصل کیا جاسکتا ہے
بزم تخلیق ادب پاکستان
پوسٹ بکس نمبر 17667، کراچی
maerajami@yahoo.co.uk
009221-3218291908
ڈاکٹر خلیل طوق ار کا تعلق ترکی سے ہے جہاں وہ استنبول یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو ہیں۔ ڈاکٹر خلیل ترکی سے ایک بین الاقو امی ادبی اور علمی سہ ماہی مجلہ “ارتباط” بھی شائع کرتے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل، پنجاب یونیوسٹی لاہور کے معروف استاد اور بزم اقبال کے سابق چیرمین ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار مرحوم کے داماد ہیں۔
ملاحظہ کیجیے کہ ڈاکٹر خلیل نے لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں پاکستان میں اردو کی حالت زار پر کیا خوب تبصرہ کیا تھا:
“پاکستان آکر مجھے جو زبان سننے کو ملتی ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ اس میں آدھے سے زیادہ تو انگریزی کے الفاظ ہو تے ہیں ۔میں تو یہ سمجھ کر پاکستان آتا ہوں کہ یہاں لوگوں سے با تیں کر کے میری اردو ٹھیک ہو جائے گی اور واپس جاکر میں اردو پڑھنے والے ترک لڑکوں اور لڑ کیوں کو صحیح اردو پڑھا سکوں گا ۔مگریہاں تو میری اردو اور بھی خراب ہو جا تی ہے۔یہاں اردو اور انگریزی کا ایسا ملغوبہ بنا دیا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی جس نے باہر رہ کر اردو پڑھی ہے حیران رہ جا تا ہے کہ یہ کونسی زبان بولی جارہی ہے”
(عطا الحق قاسمی کی جانب سے ترکی سے آنے والے مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے کے دوران ڈاکٹر ذکائی قارداش نے پڑھ کر سنایا)
ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنے ایک مضمون میں ڈاکٹر خلیل طوق ار کے بارے میں بیان کرتے ہیں
:
“نہ صر ف یہ کہ اردو خلیل صاحب کی مادری زبان نہیں تھی بلکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے لڑکپن میں ان کے آس پاس بھی اردو بولنے والا کوئی نہیں تھا۔ ظونغولداق بحرِ اسود کے کنارے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس میں وہ پانچ برس کی عمر کے بعداپنے کنبے کے ساتھ مقیم رہے۔ انہوں نے اسی قصبے کے عام ورنیکولر اسکول سے پرائمری اور مڈل کے امتحانات پاس کیے۔ پھر ہائی اسکول کے لیے ان کے والد نے ٹیکنیکل پڑھائی کو ترجیح دی اور وہ ظونغولداق انجنیئرنگ اسکول میں داخل ہوئے۔ چہ آنکہ وہ ہر ایک سیمسٹر میں امتیاز سے کامیاب ہوتے رہے، ان کی خواہش تھی کہ وہ مختلف زبانوں پر اور ادب ِ عالیہ پر عبور حاصل کریں اور والدین کی مرضی کے خلاف انہوں نے ہائی اسکول کے بعد یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں داخلہ لیا۔ اس طرح ان کا مدت ِ مدید کا یہ خواب پورا ہوا کہ وہ قدیم اور جدید فارسی ادب کا مطالعہ کر سکیں۔ وہ شعبہ اردو میں شامل ہوئے۔ 1992 میں انہوں نے باقاعدگی سے اردو میں ایم اے کیا۔ ماسٹرز ڈگری کے لیے ان کے تھیسس کا موضوع مرزا غالب کی زندگی اور فن سے متعلق تھا۔ تین برسوں میں انہوں نے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کر لی۔
”
ایک مضمون میں ڈاکٹر خلیل اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
میں ترک ہوں۔ اردو میری مادری زبان نہیں۔ نہ ہی میں ایک ایسے ماحول میں پیدا ہو کر پروان چڑھا جہاں اردو بولی جاتی ہو۔ میں نے بی۔اے کی تعلیم کے دوران اردو سیکھنی شروع کی۔۔۔ اس طرح سے میرے دل میں اردو سے محبت سی بیدار ہونے لگی اور یہ محبت زمانے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ مجھے شعر و شاعری کا شوق تھا۔ کچھ عرصہ بعد اردو سے محبت اور شعر و شاعری کے شوق کی آمیزش ہوئی اور غیر اختیاری طور پر میرے احساسات اردو کے روپ میں میرے قلم سے نکلنے لگے۔
(عرض حال، دیباچہایک قطرہ آنسو صفحہ 17)
ڈاکٹر خلیل کی ایک نظم “کہتے ہیں” کا آخری حصہ ملاحظہ کیجیے
زخمی تصورات کا بے لگام گھوڑا
اضطراب سے پاگل، ایک مجنوں جیسا
ایوان ِ خیال کی بلور سرحدیں
پار کر کے انجانی کہیں
دور دراز فضاں کی پہنایوں میں
کھو جانے کی ٹھان لیے ہوئے
تمامتر سرعت و تیزی کے ساتھ
ہواں سے جیسے کرتا ہے بات
جیسے اسے ایک شفا بخش دست کے
چھو جانے سے شفا یابی کا ڈر ہو!
خیرپور سے پشاور تک کے پس ورق، اس کے ناشر سید معراج جامی، ڈاکٹر خلیل طوق ار کے بارے میں لکھتے ہیں
:
“میں ڈاکٹر خلیل طوق ار کا تعارف کراتے ہوئے اگر یہ کہتا ہوں کہ یہ میرے چھوٹے بھائی ہیں تو خوشی ہوتی ہیں مگر جب یہ کہتا ہوں کہ یہ مجھے اپنا بڑا بھائی کہتے ہیں تو فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ ترک نژاد پاکستانی ہیں، میں پاکستان نژاد ترک بننے کی شدید خواہش رکھتا ہوں، میں ان کی کامیابی و کامرانی کے لیے ہمیشہ دعائیں کرتا ہوں”
سفرنامے کے دیباچے میں رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر خلیل کے بارے میں رقم طراز ہیں
:
” ڈاکٹر خلیل کی تحریر کا اہم پہلو ان کی حس مزاح ہے جو ان کے پہلے سفرنامے کی طرح زیر نظر روداد سفر میں بھی قاری کو
خندہ زیر لب پر اکساتی اور بعض اوقات مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے۔ کہیںتو بیان واقعہ سے مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوجاتی ہے، حس مزاح کے ساتھ خلیل کی معصومیت بھی متوجہ کرتی ہے۔ ان کا بیانیہ بظاہر ایک بھولے بھالے شخص کا سا ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو دیوانہ بکار خویش ہوشیار نظر آئے گا۔
ڈاکٹر خلیل نے خیرپور سے پشاور تک کا یہ سفر، اپنے دوست شاہ عبدالطیف یونیورسٹی سندھ کے شعبہ اردو کے صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک کی دعوت پر اختیار کیا تھا۔ پروفیسر خشک نے انہیں 208 میں خیرپور یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مدعو کیا تھا اور اسی سال اکتوبر کے مہینے میں ڈاکٹر خلیل اپنے نائب ڈاکٹر ذکائی قارداش کے ہمراہ کراچی پہنچے اور اس سفر کا آغاز کیا جو پشاور پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔
سفرنامہ وہ ہے جو سرسری ہم جہان سے گزرے کے بجائے ہرجا جہان دیگر کی مثل ہو۔ ڈاکٹر خلیل طوق ار اپنے سفرنامے میں قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں ، اس کی زبان رواں اور بے ساختہ ہے ، انداز بیاں دل نشیں اور جاذب نظر ہے،واقعات میں زیب داستان کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔
بیرون ملک مقیم ادیبوں کے تحریر کردہ پاکستان کے سفرناموں میں رام لعل کا زرد پتوں کی بہار اور بلراج ساہنی کا میرا پاکستانی سفرنامہ خاصے اہم سفرنامے ہیں۔ خیرپور سے پشاور تک کی اشاعت کے بعد اس فہرست میں ایک خوشگوار اضافہ اور ہوگیا ہے۔