چلو بھر پانی

چلو بھر پانی

چلو بھر پانی—-


تحریر عابدہ رحمانی
مجھے اپنے کراچی کے دن یادآگئے جب پانی کی حصول کی کوششیں زندگی  کا ایک اہم اور انتہائی تکلیف دہ حصہ تھا اسپر تو ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے
اب بھی اکثر راتوں کو میں گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں کہ میری ٹنکی میں پانی نہیں آیا- یہ بھیانک خواب مجھے جو آتا ہے اسکی کئی وجوھات ہیں-
میری زندگی کا آدھا وقت پانی والوں، واٹر بورڈ کے انجینئروں کو فون کرنے اور ان سے ملاقاتیں کرنے میں گزرتا،میری فون بک مین آدھے نمبر پانی والوں کے ہوتے تھے، والو مین تو جیسیہمارا خاص الخاص شخص  تھا جسے خوش رکھنیکی ہر ممکن کوشش ہوتی اور یہ سو فیصد حقیقت ہیہرگز ہرگز مبالغہ آرایء نہیں ہے اور پھر منہ مانگے ٹینکروں کا حصول آللہ کی پناہ اور اس مشقت میں کتنی تکالیف اٹھایء ہیں وہ میں اور میرا رب ہا گھر والے جانتے ہیں-
ٹنکی میں گرتے ھوئے پانی کی آواز سے مدھر آواز میری زندگی میں کوئی نہیں تھی اور اس روز کی خوشی کا کیا عالم جب اوپر نیچے کی دونوں ٹنکیاں بھر جاتیں اور میرے پیڑ پودے بخوبی سیراب ہو جاتے، پاکستان کی زندگی بھی کیا خوشیوں سے بھر پور ہوتی ہے- پانی آنے کی خوشی ان میں سے ایک تھی- اور اسکو حاصل کرنے کے لییکء فون کال ‘واٹر بورڈ کیکء چکر اور والو مین کے مختاف مشورے شامل ہوتے- قسم قسم کے suction pump ،جا بجا کھدائیاں لمبے لمبے پائپ اور اگر پانی آجائے تو کیا کہنے!! جو ہالیجی کا گدلہ پانی آتا تھا اسکو پینے کے قابل بنانا بھی ایک کار دارد–ابال کر اس میں پھٹکڑ ی پھیری جاتی ، جب گدلہ نیچے بیٹھ جاتا تو صاف اوپر سے نتھار لیا جاتا- یہ تمام تگ و دو میری زندگی کا ایک لازم حصہ تھا — اسکے باوجود واٹر بورڈ کے پانی کے ایک بھاری بل کی ادائیگی لازم تھی کیونکہ ہم ایک قانون پسند شہری ہیں اور پھر سال میں دو مرتبہ پانی آنے سے بھی محروم ہوجاتے-  پھر بھی ہم خوش تھے کہ زندہ تو ہیں-

پچھلے سال یھاں گھر میں گرم پانی کی لائن میں مسئلہ ہوا ایک عجیب پریشانی، گرم پانی کے بغیر کیسے گزارہ ہوگا؟ انشورنس کمپنی نے ہوٹل لے جانے کی پیشکش کی تاکہ مسئلے کے حل تک وہیں رھا جائے، اسے کیا معلوم کہ ہم پاکستانی ہیں اور کھال موٹی ہے- لیکن جو بچے یھاں کے پیدا شدہ ہیں اور بقول کسےABCD ہیں یہ تو آپ سب جانتے ہی ہونگے( born confused desis American) -وہ حیران پریشان کہ اس آفت کا مقابلہ کیونکر ہوگا- وال مارٹ سے ایک پوچے کی بڑی با لٹی ڈھونڈھ کر خریدی پتیلی میں پانی گرم کیا جاتا اور یوں گزارہ ہوا -What a hassle?
24 گھنٹے، نہ رکنے  والا پانی کہاں سےآتاہے اور کیسے آتا ہے ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہمیں مطلب ہے تو اس سے کہ اس میں ہرگز کوئی رکاٹ نہیں ہوگی اور یہ صاف پانی ہوگا- اور یہی وجوہات ہیں کہ زندگی کی انہی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کے لئے سات سمندر پار ہم لوگ اپنا وطن ، اپنی تہذیب و ثقافت کو پیچھے چھوڑ آئے اور جھاں دین بھی دا پر لگا ہوا ہے- مختلف زرائع سے ہمیں ان ممالک سے روکنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن بھلا ہم کہاں باز آنے والے ہیں- اب جب اپنے مادر وطن جانا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ احتیاط پانی کی جاتی ہے ورنہ بد ہضمی لازم ہے-
پانی انسان کی ایک بنیاد ی ضرورت ہے اس پانی کی تلاش میں قافلے سرگرداں رہتے تھے اور جھاں پانی مل جاتا وہیں بود و باش اختیار کرتے اسی طرح شہر اور بستیاں آباد ہوئیں پانی واقعی زندگی ہے- انسانی جسم کی ساخت میں 80 فیصد پانی ہے اور اس جسم کی بقا کا انحصار بھی ہوا،پانی اور غذا پر ہے-
ابراہیم علیہ السلام جب بی بی حاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ آئے توبی بی حاجرہ پانی کی تلاش میںصفا ومروہ کے درمیان سرگرداں تھیں، دیکھا کہ ننھے اسماعیل کی ایڑیوں تلے اللہ کی قدرت سے  پانی کا چشمہ  پھوٹ پڑا ہے- انھوں نیکہا’ زم زم” رک جا اے پانی یہیں رک جا اور اپنے ہاتھوں سے اس کے گرد بند باندھا -آیک قافلہ بھی یہیں آکر رک گیا اور یوں یہ بستی بسی اور ایسے بسی کہ مرجع خلائق ہوگئی- اللہ تبارک و تعالی کو بھی یہ بستی اتنی بھائی کہ اسکو اپنے محترم گھر کے لیے چن لیا اس پانی میں اسقدر خیر و برکت ڈال دی کہ ہزاروں سال گزرنے کیبعد بھی اسکی سیرابی میں فرق نہیں آیا——–

اپنا تبصرہ لکھیں