ڈنمارک میں عورتوں پر تشدد
ڈنمارک جہاں عالمی سطح پر انسانی حقوق کے احترام اور عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد کے خاتمے کا پرچارکرتا نہیں تھکتا وہاں ڈنمارک خود ایسا ملک ہے جس نے عورتوں پر تشدد کیے جانے کے خلاف یورپی کونسل کے کنونشن پر ابھی تک دستخط نہیں کیے ۔
جرمنی، سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور چودہ دیگر یورپی ممالک جن سے ڈنمارک اپنا موازنہ کرتا نہیں تھکتا ان سب ملکوں نے عورتوں پر تشدد کیے جانے کے خلاف اقدامات اور اسے ایک تعزیراتی جرم قرار دیئے جانے کے لیے، یورپی کونسل کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن، ڈنمارک نے بڑی معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ جس کی وجہ سے ڈنمارک کو عورتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے لیے اپنائے گئے خود ساختہ تشخص و شہرت کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔
اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق، ایک سو ملین مغربی عورتوں کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے اور پچھلے سال ڈنمارک میں گھریلو تشدد و مارپیٹ کا سامنا کرنے والی ڈینش عورتوں کی تعداد اٹھائیس ہزارتھی ۔
عورتوں کی تنظیموں اور دیگر سماجی و رفاعی سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اگرچہ سابق حکومت پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد کے خاتمے اور عورتوں کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات لے لیکن دائیں بازو کی وینسٹرا و کنزرویٹوو مخلوط حکومت کے دس سالہ دور اقتدار میں جہاں ایسا نہ ہو سکا وہاں بائیں بازو کی موجودہ حکومت نے بھی عورتوں کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے اب تک کوئی باقاعدہ کوشش نہیں کی۔
یورپی کونسل نے عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے ایک سال پہلے کنونشن پیش کیا تھا اور ڈنمارک کے پڑوسی ممالک جہاں اس پر دستخظ کر چکے ہیں ڈنمارک ابھی تک اس پر دستخط کرنے سے ہچکچا رہا ہے ۔ ڈنمارک کے اس رویے پر بعض سیاسی و سماجی اور قانونی حلقوں نے شدید تنقید کرتے ہوئے اسے باعث شرم قرار دیا ہے ۔
ڈنمارک میں عورتوں پر تشدد کے خلاف کام کرنے اور اس تشدد کو روکنے کے لیے متحرک، عورتوں کی تنظیم ڈانر نے ڈنمارک کی اس سستی و کوتاہی پر شدید غصے کا اظہار کیا ہے ۔
ڈانر تنظیم کے مرکز معلومات کی سربراہ ھینیریٹے ھائبرگ نے کہا ہے کہ عورتوں پر تشدد کے خلاف یورپی کونسل کے کنونشن پر ڈنمارک کی جانب سے اب تک دستخط نہ کیے جانے کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ ہم عورتوں پر تشدد کے خلاف عالمی منصوبے کے تحت لیے جانے والے ٹھوس اقدامات میں شامل نہیں ہو رہے ہیں اور یہ بات یقینا ڈنمارک کے اپنے قومی و عالمی تشخص کے لیے اچھی نہیں بلکہ اس کی شہرت پر ایک کالا داغ ہے ۔
It’s appropriate time to make a few plans for the longer term and it’s time to be happy. I have learn this put up and if I could I desire to recommend you some interesting issues or tips. Perhaps you could write next articles relating to this article. I wish to read more issues about it!