قومی زبان

urdu
تحریر ،رومانہ فاروق
کویت
:
قومی زبان نہ صرف پوری قوم کی خصوصیات اور اسکی روایات کی حامل ہوتی ہے۔ بلکہ منتشر قوم کی شیرازہ بندی بھی کرتی ہے جبکہ اسی میں عقل و فہم کی ترقی ، قومی ترقی اور انسانیت کا راز بھی پنہاں ہے۔
ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر اپنی قومی زبان اُردو کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ ہمیں ایام طفل سے ہی مظلوم نظر آئے گی۔ جسے کبھی ہمارے دشمنوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو کبھی کسی دوسری زبان میں مد غم کرنا چاہا۔ لیکن یہ پھر بھی اپنی وسیع الراضی کی بنا پر جگمگاتی رہی۔ تاریخی مطالعے سے آگاہی ہوتی ہے کہ برصغیر میں انگریز حکومت نے مقامی لوگوں سے میل جول بڑھانے کے لئے اردو زبان کا سہارا لیا۔ کیونکہ یہ اس وقت بھی پورے ہندوستان میں عام بول چال کی زبان تھی۔ اگرچہ ہر علاقے کی مادری زبان بھی موجود تھی۔ مگر سیاسی صورت حال کے پیش نظر فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر جان کاکرسٹ کی کوشش جہاں اردو ادب کے لئے سود مند ثابت ہوئیں وہیں لسانی حوالے سے ہندو مسلم تضاد بھی شروع ہوا۔ اردو ،ہندی تضاد کے سلسلے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق فرماتے ہیں۔ ”فورٹ ولیم کالج کے منشیوں نے، خدا انکی روح کو شرمائے، بیٹھے بٹھائے بلا وجہ اور بغیر ضرورت یہ شوشہ چھوڑا۔ للّوجی لال نے جو اردو زبان دان اور اردو کتابوں کے منصف بھی تھے اسکی بنیاد ڈالی اور وہ اس طرح کہ اردو کی بعض کتابیں لے کر انہوں نے ان میں سے عربی اور فارسی کے الفاظ چن چن کر نکال دیے اور ان کی جگہ سنسکرت اور ہندی کے ناموس الفاظ جما دئیے۔ لیجئے ہندی بن گئی”
اور یوں ہندو مسلم مشترکہ کلچر کی امین ارد و زبان باہمی اختلاف کے بھینٹ چڑھ گئی۔ جبکہ عربی اور فارسی رسم الخط ہونے کی وجہ سے ہندوئوں نے اسے اچھوت قرار دے دیا۔ اب جبکہ پاکستان میں اردو ہمارے گھر کی لونڈی ہے۔ اس لئے ہم اسے اپنے مالکانہ حقوق کے ساتھ برت رہے ہیں۔ اور انگریزی کے لاتعداد ایسے الفاظ ہیں۔ جو اب اردو کا ہی حصہ سمجھے جاتے ہیں یہ سلسلہ رکا ہوا نہیں بلکہ جاری ہے۔ مثلاً ڈرائیور، کپ جگ ،گلاس، ٹرین، کوٹ، پینٹ، کنڈیکٹر، اسٹیشن روڈ وغیرہ وغیرہ جبکہ ہمارے گھروں اور ہماری زبانوں سے لفظ دلان رخصت ہوا۔ اور اسکی جگہ ٹی وی لائونج اور لائوئج نے لے لی ہے۔پھر اسی طرح غسل خانے اور باورچی خانے کچن اور واش روم یا باتھ روم میں تبدیل ہوئے۔ لیکن کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن سے ایک نیم پڑھا لکھا یا ان پڑھ شخص بھی باخوبی واقف ہے۔ مثلاً سوری، پرابلم، نروس، ڈیپریشن… گویا انگریزی زبان اور اسکا کلچر تیزی سے ہم پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ تعلیمی اور قومی سطح پر اردو حال سے بے حال ہے۔ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ بیت چکا۔ مگر تعلیمی لحاظ سے ابھی تک یہ ہی طہ نہیںہو پایا کہ ہمارا ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاہیے۔ کیونکہ قیام کے ابتدائی دنوںمیں نوکر شاہی نے وزارت تعلیم کے ایک اجلاس میں انگریزی کو عوام کے لئے تو ممنوع قرار دے دیا مگر بالائی طبقے کے لئے کوئی ممانعت نہ تھی۔ اور یہی تضاد آج تک ہے۔ کہ سرکاری سکولوں یعنی بالفاظ دیگر اردو میڈیم سے کالج یونیورسٹی تک جانے والا طالب علم اپنی محنت اور قابلیت سے انگریزی سیکھ تو لیتاہے۔ مگر اچھی ملازمت کے حصول میں ہمیشہ ناکام ہی رہتا ہے۔ اسے نہ صرف اردو میڈیم کا طعنہ دیا ہے۔ بلکہ ہائی سوسائٹی میں مڈل کلاس بھی کہا جاتاہے۔ اس لئے اب انگریزی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اور والدین اپنے بچوںکو انگریزی سکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں۔ اب اگر میڈیا کے حوالے سے بات کی جائے۔ تو الیکٹرانک میڈیا شاباش کا مستحق ہے۔ جنہوں نے زبان کو بگاڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے نئے اور پرانے تمام چینلز پر ملی جلی زبانوں کے میزبانوں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ جواردو کے نہایت عام اور مصروف الفاظ بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے۔ بلکہ بعض کی انگریزی زبان تو اتنی بہترین ہوتی ہے کہ Viewers کی بجائے تمام وقت Weavers کہہ کر مخاطب کرتے رہتے ہیں۔
وطن عزیز میں قومی زبان کی نا قدری سے معاشرتی صورت حال یہ ہے کہ ملک میں ایک عام فرد کو تعلیم دی جا رہی ہے اردو میڈیم میں جبکہ دفتری زبان ہماری انگریزی ہے۔ ادھر عوامی سطح پر بھی زبان میں تیزی سے انگریزی کے الفاظ داخل ہو رہے ہیں۔ جبکہ سرکاری سطح پر یہ چاہ جاتا ہے۔ کہ اگر اردو میڈیم نوکری کے لئے آئے تو نہ صرف درخواست انگریزی میں ہوں بلکہ انٹرویو بھی انگریزی میں دے قومی زبان کی اسی نا قدری پر افسوس ہے اور ملامت بھی کہ شاید ہی دنیا میں پاکستان کے سوا کسی ایسی قوم کی مثال ملتی ہو۔ جس کا ایک بڑا طبقہ اپنی قومی زبان پر شرمائے اور اسے حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھے۔
کہنے کو تو اردو ہماری ”قومی زبان ” ہے مگر فی زمانہ یہ رابطے کی زبان ہے۔ جو ہماری حکمران صرف خطاب کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اور جھوٹے سچے وعدوں سے عوام کو بہکاوے دیتے رہتے ہیں۔ اگر واقعی ہم نے اردو زبان کو آئندہ نسلوں تک اصلی شکل میں رکھنا ہے۔ تو دفتری اور سرکاری سطح پر اردو کو نافد کریں اور اس سچائی کو بھی تسلیم کر یں کہ زبان اور قوم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ زبان نہیں رہتی تو قوم بھی تتر بتر ہو جاتی ہے۔

کامیاب شادی کا راز: برداشت ،توجہ اور حقیقت پسندانہ رویہ
پہلے سال مرد بولتا اور عورت سنتی ہے ‘دوسرے سال عورت بولتی اور مرد سنتا ہے ، تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور ہمسائے سنتے ہیں
قریبی تعلقات کی مضبوطی اور ٹوٹنے کے چند پہلوئوں پر نظر
رومانہ فاروق:
شادی ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل جملہ ہے جس نے زندگی کو الگ الگ بے معنی حصوںمیں بانٹنے کی بجائے فل سٹاپ لگا کر مکمل کر دیا۔اور اسے Relationshipیعنی رشتے ناطے کی مالا میں پرویا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زندگی ایسے ہی بے رنگ، بے وقعت اور بے معنی ہوتی جیسے آڑی ترچھی بے رنگ لکیریں۔ یا پھر ایسے مسافر کی طرح جسکی مسافت منزل کے تعین کے بنا ہی جاری ہے اسلئے تو کہنے والوں نے اسے آب کوثر بھی کہا اور آب حیات بھی لیکن کچھ ایسے بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ شادی محبت ہے اور محبت اندھی ہوتی ہے۔ لہٰذا شادی ایک اندھیر نگری ہے اور اس نگری کے دستور کے مطابق لڑکا اپنی Bacholar کی ڈگری کھوتا ہے جبکہ لڑکی ماسٹر کی اعزازی ڈگری وصول پاتی ہے اور اسی کھونے پانے میںمحاذ جنگ تیار ہوجاتا ہے اور اسے تھری رنگ سرکس بھی کہاجاتا ہے۔شادی شدہ لائف میں ”Suffering”کے لفظ کا بھی اہم کردار ہے جس میں ایک ہیجان سی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ کہ پہلے سال مرد بولتا اور عورت سنتی ہے جبکہ دوسرے سال عورت بولتی اور مرد سنتاہے۔ تیسرے سال دونوں بولتے اور پڑوسی سنتے ہیں۔ بالائے طاق اسکے کہ کس کے کیا خیالات و نظریات ہیںہر ایک وہ جواس تعلق کی کشتی میں سوار ہو چکا ہے اسکی حقیقت اور اہمیت کو سمجھے۔مرد ہو یا عورت دونوں پر یکساں لازم ہے کہ کہ وہ اس Ship کو ہچکولے دینے اور ڈبونے والی تمام لہروں سے محفوظ رکھیں۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ اس سچائی پر تہہ دل سے سر تسلیم خم کیا جائے کہ شادی ایک کہانی نہیں بلکہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا باب اوّل شاعری جبکہ باقی ابواب سلیبس ہوتے ہیں۔
ذیل میں کچھ ایسے عناصر کا ذکر ہے جو اس Relationshipکے خاتمے کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں سے پہلے ایسی خواتین نقصان اٹھاتی ہے۔ جن کی طبیعت جلد ہی اکتاہٹ یا بیزاری کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیںکہ شادی کے ابتدائی ایام جب لائف پارٹنر کی طرف سے ہر پہلو میں ولولہ انگیزی کا مظاہرہ ہوتاہے توکچھ عرصہ بعد اس میں تبدیلی برحق ہے۔ لہٰذا وہ اس تبدیلی سے احمقانہ سوچوں کے بھنور میں پھنس جاتی ہیں اور ہر وقت جھنجھلائی اور اکتائی رہتی ہیں۔ اپنے آج اور آنے والے کل کی بہتری کی بجائے کل کو نا بھولا کر نا قابل تلافی نقصان کر جاتی ہیں۔ جبکہ مرد و خواتین کی ایک تعداد ایسی بھی ہے کہ وہ اپنے سکول وکالج کے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کو نہیں بھول پاتے بلکہ اپنے ساتھی کے ساتھ تقابلی جائزے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ وہ تو ایسا نہیں تھایا تھی یہ کیوں ایسا ہے۔ ایسے لوگوںکو چاہیے کہ وہ تصوراتی دنیا کی بجائے حقیقی زندگی میں جینے کی عادت ڈالیں اپنے موجودہ لائف پارٹنر کی رفاقت کو خوش قسمتی سمجھیں اور پرانے دوستوںکو ماضی میں دفن کر دیں کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دو کشتیوں میں سوار ہوکر آپ ڈوب ہی نہ جائیں۔ یہاں پر ایسے سسرالیوںکو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو باس بننے کی پوری پوری صداقت رکھتے ہیں۔ حکم عدولی پر سزا وجزا ان کی مرضی پر ہوتی ہے۔ جبکہ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکی کے والدین بیٹی کو بیاہ دینے کے بعد بھی اسکے گھریلو معاملات میں دخل اندازی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جو اس رشتے کی نا پائیداری کا سبب بنتا ہے۔ بد قسمتی سے کئی دفعہ بچے کی موجودگی دراڑکا سبب بن جاتی ہے کیونکہ وقت اور توجہ کی تقسیم کسی ایک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ مجھے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یا مجھ سے زیادہ اسکی ضروریات کو تر جیح دی جا رہی ہے اور یہی ذہنی دبائو انتشار کا باعث بنتا ہے۔ روپے پیسے کی کمی بھی اس رشتے پر اثر انداز ہوتی ہے، جائز ضروریات کے ساتھ ساتھ غیر ضروری خواہشات کی تکمیل اس ہوس کو بڑھاوا دیتی ہے اگر ایسے میں عورت اپنی سلیقہ شعارسے قابو پا لیتی ہے تو رشتے کی سلامتی ہے وگرنہ بے جا خواہشات کی تکمیل بہت بڑے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ مردو عورت دونوںکو یہ بھی چاہیے کہ قبل از منسلک ان کا جو وسیع حلقہ احباب تھا اس میں بھی کمی کر یں کیونکہ اس رشتے میں دوستوںکے مقابلے میں آپ کی توجہ اور سوچ کا حقدار آپ کا ساتھی ہے نہ کے دوست، اسکے علاوہ اپنے گھریلو مسائل دوستوں میں شیئر کر کے بلاوجہ کے مفت مشوروں سے اپنی خوشحال زندگی کو خراب نہ کر یں کیونکہ آپ خود اسکے ذمہ دار ہیں دوسرے نہیں۔ عموماً ایسا بھی ہوتاہے کہ کمیونیکیشن کی کمی بھی اس رشتے کو ختم کرتی ہے کیونکہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے بات چیت سب سے زیادہ ضروری ہے جس کیلئے اپنی ذات کے خول سے باہر آنا بہت ضروری ہے۔ اعتماد کی کمی بھی اس رشتے کو پروان نہیں چڑھنے دیتی۔ اس Relation کو محفوظ و مضبوط رکھنے کے لئے ایک دوسرے پر اپنے سے زیادہ اعتماد و یقین شرط ہے۔ جبکہ ایک خاص پہلو جس کی موجودگی خواتین کا خاصہ ہے کہ کسی خاص دن یا موقع پر اگر شریک حیات سے کوئی بھول ہوجائے تو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں نہ کہ انا کا مسئلہ بنائیں ۔کوئی شک نہیں کہ اگر ہم تمام مسائل کا باریک بینی سے مطالعہ و مشائدہ کرنے کے بعد خود اعتمادی ،سمجھداری اور خوش دلی سے سامنا کر یں اورغیر حقیقی سوچوں پر پہرے بٹھا دیں۔ اگر ہم واقعی اس Relationship کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا ۔
the purpose of relationship is not to have another who might complete you, but to have another with whom you might share your completeness.
or
“Relationship is one of the most powerful tool for growth….if we look honesty at our relationship, we can see so much about how we have created them”.

پاکستانیوںکیلئے کویت کا ویزا حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف
کویت میںغیر اقوام کو نہ تو کبھی شہریت مل سکتی ہے اور نہ ہی جائیداد خرید نے کی اجازت ہے
کویت کیلئے ویزٹ ‘ورک پرمٹ اورورکنگ ویزا کے حصو ل کیلئے اہم معلومات پر رومانہ فاروق کی تحریر
رومانہ فاروق:
(آخری حصہ)
دیگر ممالک کی طرح کویت میں بھی انٹری کے لئے ویزے کی شکل میں اجازت نامے یا پرمٹ کی شرط موجود ہے۔ یعنی ویزٹ ویزا ورک ویزا یا پھر فیملی ویزا۔۔۔ جن کی وضاحت کچھ اس طرح ہے۔
ویزٹ ویزا:
اس کے بارے میں لکھتے ہوئے احساس ندامت بھی ہے۔ اور دکھ بھی اس لیے کہ پاکستانیوں کے لئے یہ ویزے شاذو نادر ہی کھلتے ہیں۔ جس پر یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ اس دوران اپلائی کیے گئے تمام ویزوںکی منظوری بھی ہو جائے بلکہ وہ کسی پر بھی کوئی اعتراض لگا کر مسترد بھی کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں بحث و مباحثے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر آپ نے کوئی سوال کر لیا تو وہ جواب دینے کی بجائے امن دولا جانے کو کہیں گے۔ امن دولا یعنی سیکورٹی آفس میں ۔ اگر وہاں خوش قسمتی سے آپ کو کوئی اچھا بنگالی مل جاتا ہے تو وہ آپ کو اندر جانے سے پہلے ہی روک دے گا کیونکہ وہ جو سارا دن دیکھتے اور سنتے ہیں وہ ہم اور آپ نہیں کیونکہ ہو سکتاہے کہ آپ کو اپنی ”کیوں” کا جواب لینے کے لئے سارا دن خوار ہونا پڑے یا پھر لمبے عرصے تک ان کے دفاتر کے طواف کرنے پڑیں۔ ایسا سب کچھ ہونے کے بعد بھی یہ گارنٹی نہیں کہ ویزہ مل جائے۔ اگر آپ قسمت کے دھنی ہو کر اس ویزے کی وصولی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر آپ کو یہاں کی سیروتفریح کا مزہ لینے کے لئے ویزے کی فوٹو کا پی اور اپنے یا سپورٹ کو اپنے سینے پر چسپاں کرنا پڑے گا۔ یعنی کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی وقت کی چیکنگ آپکا مزہ کرِکرِا نہ کر دے اور اس کی رہائشی مدت 3 ماہ ہے۔
ورک پرمٹ یا ورکنگ ویزا:
یعنی کام کرنے کا اجازت نامہ، جسکا طریقہ کار کچھ اس طرح سے ہے کہ سرکاری سطح پر خالی آسامیوںکو پر کرنے کے لئے منسٹری مطلوب دہند گان کے ملک سے اسی سطح پر رابطہ کرتی ہے اور دونوں کے مابین ایگریمنٹ طے پاتا ہے اور ایسی جاب میں عموماً رہائش ، ٹکٹ کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ جبکہ اسکی دوسری صورت یہ ہے، کہ ادارے اور کمپنیاں اپنے ایجنٹ متعلقہ ممالک میں مقرر کر دیتے ہیں جو بذریعہ اشتہارات ٹیسٹ اور انٹرویوز کرتے ہیں اور ویزے دیتے ہیں پھر یہ ان کی مرضی پر ہوتاہے کہ وہ اپنے لئے اس ویزے کی کیا قیمت لیں۔ ورک ویزے کی ایک اور قسم یہ بھی ہے کہ شائون(Sahoon) سے ویزا نکلوایا۔ دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی سپانسر کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشکل ایسے لوگوںکو ہوتی ہے جو کسی کام کی Surity کے بنا پرکثیر رقم سے ویزا مزید کر آتے ہیں۔ انہیںکام کے ساتھ ساتھ ایک اچھے سپانسر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً یہاں ایسے سپانسر 450 دینار دو سال کے اقامے(Residence) کے لیتے ہیں جو کہ ان کی ماہانہ آمدن کے حساب سے ایک بڑی رقم ہوتی ہے۔ فیملی ویزے کے لئے تنخواہ کی حد مقرر ہے یہ صرف ان ہی لوگوںکو دیے جاتے ہیںجو اسکے اہل ہوں فیملی ویزے میں مرد خود اپنی فیملی کا کفیل ہوتاہے جبکہ اسکا کفیل متعلقہ ادارہ ہوتا ہے۔ویزے کے حصول سے لے کر اپنی قومیت اور اپنے سپانسر کے پروف کے حصول کا درمیانی سفر کچھ ایسے ہے کہ اس ریاست کی سر زمین پر قدم بوس ہونے کے بعددو ماہ کے اندر اندر میڈیکل کروانا اور فنگر پرنٹ کو ان کے کمپیوٹر سسٹم میںمحفوظ کروانا لازمی ہوتاہے۔ دونوں طریقہ کار میں کلیئر ہونا طے ہے کیونکہ اس کا رروائی کے بعد ہی پاسپورٹ پر اقامہ لگتا ہے۔ یعنی قانونی رہائشی ۔۔ ۔۔اسکے بعد بطاقہ مدنی یعنی (Civil ID) بنتاہے۔ اور پھر ہمارا اور سول ID کا چولی دامن کا ساتھ ہو جاتا ہے۔ اقامے کی مدت معیاد کے خاتمے سے ایک ماہ قبل ہی نئے اقامے کی تیاری شروع کرنی پڑتی ہے۔ مگر اس بار میڈیکل اور فنگر پرنٹ نہیں دینے پڑتے۔ وہ صرف پہلی دفعہ، گورنمنٹ فیس میڈیکل سمیت ایک سال کی 65 دینار ہے۔ Expiry اقامے کی صورت میں یومیہ2دینار جرمانے کی ادائیگی تو ہے ہی مگر پکڑے جانے کا خوف بھی رہتا ہے۔ پکڑے گئے تو سافر یعنی واپس بھیج دیتے ہیں اور دو بارہ انٹری ممنوع ہوتی جاتی ہے۔ فرار کی صورت میں امیگریشن کے عتاب سے نہیں بچ سکتے۔ لیکن ہر سال اکتوبر تا دسمبر حکومتی سطح پر اس رعایت کا اعلان بھی ہوتاہے کہ بغیر اقامہ یا Expiry اقامے والے بنا کسی جرمانے کی ادائیگی کے واپس جا سکتے ہیں۔
آپ یہاں چاہے ساری زندگی گزار دیں نہ تو آپ کو یہاں کی شہریت مل سکتی ہے او رنہ ہی اپنی جائیداد بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ذاتی کاروبار نہیں کر سکتے۔ پیدا ہونے والا بچہ بھی قومیت سے محروم رہتاہے جبکہ دیگر اقوام کے لئے ایک قانون یہ بھی ہے کہ دو بچوںکے اقاموں پر نارمل خرچہ جبکہ تیسرے پر دوگناہوجاتا ہے۔ جبکہ کویتیوں کو ہر بچے کی پیدائش پر 50 دینار تنخواہ میں اضافہ اور مفت راشن میں بھی ۔ تو پھر یہ کیوں نہ ان سہولیات سے پھر پور فیض یاب ہوں۔ قوانین و قوائد کے اس مختصر احاطے سے یہ حقیقت تو ہم پر آ شکار ہو ہی گئی ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہی ہوئے ہیں۔ اور اس سچائی کو بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں غیر اقوام سے قانون وقواعد کی پا بندی نہ کروائی جاتی ہو۔ سوائے وطن عزیز کے جہاں غیر ملکیوں پر اعزازات، نواز شات کے ساتھ قانون سے کھیلنے کی بھی آزادی ہوتی ہے اور مجرم ہونے پر بھی انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

4 تبصرے ”قومی زبان

  1. by پرویز قادر in Technology, National, Issues Of Pakistan, Official, Education

    ڄناب صدر صاحب تے گورنر کھوسہ صاحب!

    ١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔

    ۔٢.۔ تعلیمی پالسی ڈو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔

    ٣۔سرائیکی کوں قومی زبان دا درجہ ڈیوو.۔

    ۔٤۔ نادرا سندھی اردو تے انگریزی وچ شناختی کارݙ جاری کریندے۔ سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔

    ۔٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے۔

    ۔٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔

    ۔٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔

    ۔٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟

  2. ڄناب صدر صاحب تے گورنر کھوسہ صاحب!

    ١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔.

    ۔٢.۔ تعلیمی پالسی ڈو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔.

    ٣۔سرائیکی کوں قومی زبان دا درجہ ڈیوو.۔.

    ۔٤۔ نادرا سندھی اردو تے انگریزی وچ شناختی کارݙ جاری کریندے۔ سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔.

    ۔٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے۔.

    ۔٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔.

    ۔٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔.

    ۔٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟.

اپنا تبصرہ لکھیں