نبیلہ رفیق۔ ناروے
انداز اپنا اپنا ۔۔۔
ایک لمبے سفر پر جاتے ہوئے ا شفاق احمد کی کتاب ، زاویہ کا پہلا افسانہ ، جس میں اس نے سانپ کے شکرئیے کا انداز لکھا
ہوا تھا ، اسے پڑھتے ہوئے ایک پرندے کی آپ بیتی یاد آگئی جو اس نے اپنی زندگی کے لمبے تجربے کے بعد لکھی تھی۔
وہ پرندہ جو کوئی بھی تھا، کسی جنگل کے بیلے میں آرام کی زندگی بسر کر رہا تھا ۔ ایک دفعہ کسی وجہ سے اسے دور کسی اور جنگل کی طرف سفر کرنا پڑا ۔ وہاں اس کی ملا قات ایک نیولے سے ہوئی ، جونہی نیولے کو علم ہوا کہ کہ یہ پرندہ خوش حالی کی زندگی بسر کررہا ہے ۔اور اس کے جنگل میں ر زق کی فراوانی ہے تو بس پھر کیا تھا لگا نیولا اس پرندے کو اپنے آنسوئوں کے جال میں پھانسنے ۔رو رو کر نیولے نے برا حا ل کر لیا۔اپنے اوپر ہونے والے نام نہاد ظلم کے قصے بیان کئے گئے ، اپنے دکھ اور مصیبت کی ایسی ایسی کہانی تر اش تراش کر سنائی گئی۔۔
الغر ض اس نے ہر وہ حربہ آ زمایا جو پرندے کا دل موم کرنے کے لئے کافی تھا ۔ ،پرندہ اس پر ترس کھائے بغیر نہ رہ سکا ۔پرندہ اپنے جنگل میں واپس آ کر نیولے کے حا لات کے متعلق غور کرتا رہا ، اس کے دکھ کو محسوس کر کر کے کڑھتا رہا اور اسے اس مصیبت سے نجات دلانے کے متعلق تدابیر سوچتا رہا ۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اچانک ایک حادثے نے پرندے کی زندگی تہ وبالا کر دی ۔ اب پرندے کو نیولے کا دکھ ذیادہ محسوس ہونے لگا
جب پرندے کو اپنا غم لگا تو نیولا اسے ذیادہ مظلوم نظرآنے لگا ، اب اسے ایک ہی فکر تھی کہ کسی طرح نیولے کو اس مصیبت سے نکالنا چائیے ، ادھر نیولا پرندے کی فطرت سمجھ چکا تھا ۔ اس نے پرندے کے بدلتے ہوئے حالات دیکھ کر اپنی مظلومیت کے چرچا کرنے کی مہم زیادہ تیز کردی ۔ کچھ پرندے کا اپنا دل بھی ایادہ نرم ہو چکا تھا ، لھٰذا پرندے نے جنگل کے بادشاہ سے ملکر نیولے کو وہاں سے نکالنے کا کام شروع کردیا ۔ ا ﷲ تعا لیٰ نے مدد کی اور پرندہ نے نیولے کو اپنے جنگل میں لا بسایا ، اب پرندے کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح نیولا اپنا غم بھول جائے ۔ اور خوش رہے ، پرندے نے ہر قسم کی مدد اسے دی ۔ نیولے نے پرندے کو اپنے اوپر اتنا مہربان ہوتے دیکھتے ہوئے ، اپنے دل کی ساری باتیں اور تمام وہ راز جو کسی صورت میں بھی کسی اور کو
بتانے والے نہیں تھے ۔ سب بتا دئے ، پرندے نے نیولے کی آئیندہ مدد کی بھی بھر پور امید دلائی ۔ اورخوب تسلی دی کہ اس جنگل میں تمہیں کو ئی تنگ نہیں کرے گا ۔
اب آگے پرندے کی داستان سنئے کہ ، وہ اپنے اس کارنامے پر بڑا خوش تھا ، سارے جنگل اور بیلے کے جانوروں اور پرندوں کو خوشی سے بتاتا کہ وہ کیسے نیولے کو مشکل سے نکال لایا ہے ۔ پرندے نے نیولے کو جنگل میں رہنے کے اصول سکھائے ، اسے وہاں کے باسیوں سے ملوایا ، وہاں کی روایات سے روشناس کروایا، گویا پرندے نے اپنے اوپر پڑنے والے غم کو بھلا کر نیولے کو آباد کرنے میں ہر قسم کی مدد کی ۔ اب آئیستہ آئیستہ نیولا سر نکالنے لگا ، اس کو اب احساس ہونے لگا کہ میں تو بہت سے ایسے ر از پرندے کو بتا چکا ہوں ، جو اصل میں نہیں بتانا چاہئے تھے ۔ اس احساس کے ساتھ ساتھ اسے اپنا آپ غیر محفوظ محسوس ہونے لگا ۔ اس تصور کا احساس کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ پرندہ میرے راز جنگل کے دوسرے جانوروں کو بتا دے ۔ اسے پاگل کرنے لگا ۔ نیولے نے ایک عجیب گھناوئنا کھیل کھیلنا شروع کیا کہ ، پرندے کے تمام پرانے دوستوں اور ملنے والوں ، کو پرندے کے متعلق من گھڑت کہانیاں سنا سنا کر بدظن کرنا شروع کیا ، اگر کبھی کسی بھلے مانس نے اسے کہ ہی دیا کہ پرندے نے تمہاری بہت مدد کی ہے ، وہی تمہیں یہاں تک لایاہے ْ نیولا وہیں اس کا دشمن ہو گیا ۔ ایسا سننا نیولے کے مزاج میں شامل نہیں تھا ۔وہ تو ہر سمجھانے والے کو یہ کہ کر چپ کروا دیتا کہ ، میری تو کسی نے مدد نہیں کی ، میں تو خود اپنی ہمت سے پائوں پائوں چلتے یہاں پہنچا ہوں۔ اور سمجھانے والے کو ایک طرف رکھ کر اس نے ہر کس وناکس کو پرندے کے متعلق بھڑکانا شروع کیا ْ ۔ کبھی رو رو کر پرندے کی زیادتیاں ، اور اس کے متعلق بے بنیاد جھوٹی با تیں گھڑ گھڑ کر اور کبھی ، اپنے پچھلے وطن کے جانوروں کے متعلق من گھڑت کہانیاںْ ، سنا سنا کر ان کو اپنا ہمدرد بنانے کی کوشش کرنا شروع کی، مگر اس جنگل کے ذیادہ تر جانور شریف اور بھلے مانس بھی تھے، اکثر ایسا ہوتا کہ کوئی نہ کوئی جانور آ کر پرندے سے ہمدردی کرتا ، اور کہتا کہ جس نیولے کو تم مظلوم سمجھ کر لے کر آئے ہو ، وہ تمہارا شدید دشمن بن چکا ہے ۔ مگر پرندہ محض اپنے وقار کی خاطر خاموش رہتا اور نیولے سے حسن سلوک کرتا رہا۔ اس جنگل کی کھوہ میں کہیں ایک بوڑھا گدھ بھی رہتا تھا۔ ایک دن کسی طرح اس کی نیولے سے آشنائی ہوگئی ، دونوں نے ایک دوسرے کی طبیعتوں اور مزاجوں کو لمحوں میں جان لیا ۔ ایسے لگتا تھا ، دونوں روحیں جنم جنم سے ایک دوسرے کی تلاش میں تھیں ،بس پھر کیا تھا ، دونوں پل بھر میں ، ہم نوالہ ہم پیالہ ہوگئے ۔ مگر ان کی دوستی کی بنیاد کسی ، محبت کے نتیجے میں نہیں ہوئی تھی بلکہ پرندے سے نفرت اور اسے مل کر نقصان پہنچانا ، اس دوستی کا اصل مقصد تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ اس جنگل میں کچھ اجنبی نیولے بھی آکر بسے پرندے نے ان کو بھی حسب طبیعت خوش آ مدید کہا ، ادھر ُں
نیولہ ہر وقت نئے نئے زہریلے پودے کھانے کی فکر میں رہتا ، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ نیولہ اس زہر کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا
اسے بے چینی گھبراہٹ اور بد حواسی کے دورے پڑتے
ایسے میں اس کا دل چاہتا کہ بیلے کے تمام وہ جانور جن کے ساتھ اس کا یا پرندے کا معمولی سا بھی تعلق ہے ، اس کے گھر آئیں۔ اور وہ انہیں رو رو کر اپنا حال سنائے۔
آئستہ آئستہ نیولے کی کوششیں اور محنتیں رنگ لانے لگیں۔ رونے دھونے اور من گھڑت مظلومیت کی کہانیا ں سنانے کا اثر بیلے کے کچھ دوسرے پر ہونے لگا ، وہ جانور جو ابتدائی دوروں کے وقت میں ، اسے ٹھنڈا رہنے کی تلقین کرتے تھے، زہریلے پودے کھانے سے روکتے تھے ، اور ایسی غذا کھانے کی تلقین کرتے جو نیولے کے مزاج اور طبیعت پر اچھا اثر ڈالے ، اب وہی نیولے اور دوسرے جانور ، اسے خود ہی زہریلے پودے لا لاکر دینے لگے ۔ کیونکہ ان کو سمجھ آگئی تھی کہ اس کی اصل غذا یہی زہر ہے ۔ اگر اسے یہ غذ ا نہ ملی تو نیولے کی گھبراہٹ ہم پر اثر انداز ہوگی، اور ہم کسی میلے میں اکھٹے نہیں ہوسکیں گے ، کیونکہ اس زہر کے بغیر ہمارا نیولا دوست ہمارا نہیں بن سکتا ۔ اور یہ تمام جانور نیولے کی دوستی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے ۔ آئیستہ آئیستہ اس زہر کا اثر بیلے کے دوسرے نیولوں اور جانوروں پر بھی ہونے لگا ۔اب ا کثر اوقات اکھٹا مجمع ہونے لگا ایک ہی درخت کی چھا ئوں میں بیٹھ کر ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھایا جاتا ۔ اس کام کے لئے اس خاطر تواضع کے لئے نیولے کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ، مگر آخر کا ر اس کی اتنی محنتیں۔ اتنی ریاضتیں اور اتنی تپسیا کام آئی،
ا ب وہ سارا گروہ نیولے کے ساتھ ایک ہی جوہڑ میں اکھٹا ہو کر چھلانگیں لگاتا ہے ۔ اپنے زُعم میں جوہڑ کا کیچڑ وہ پرندے پر پھینکتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے یہ ان کا وہم ہے ۔ اصل میں یہ کیچڑ آئیستہ آئیستہ ان سب کے جسموں اور کھالوں پر جمتا جا رہا ہے ۔
اور چٹان پر پتھر کے گھروندے میں بیٹھا ، پرندہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ میری فطرت میں تو دوسروں کی مدد کرنا شامل ہے میں تو اس جنگل میں رہنے والوں کی مدد کرتا ہی رہوں گا مگر نیولے اور اس کے ساتھی اپنی جگہ پر بالکل حق بجانب تھے میرے ساتھ یہ سلوک کرنے میں ، کیونکہ،
۔۔۔ یہی ان کے شکرئیے کا انداز ہے ۔۔