ایک حسین و اسمارٹ لڑکی کی شادی ایک مشہور زمانہ بیکری کے مالک سے ہو گئی۔ وہ لڑکی جو شادی سے پہلے نمکین ٹائی کی طرح اسمارٹ تھی۔ شادی کے بعد پہلے کیک رس جیسی ہو گئی ، پھر پیسٹری بنی اسکے بعد برتھ ڈے کیک جیسی بن گئی۔ یہ سب بیکری کی لذیز کنفیکشریز اور مصنوعات کا کمال تھا۔یہ کوئی گھڑا ہوا قصہ نہیں بلکہ أنکھوں دیکھا حال ہے، اکثر پر خوروں کا۔ یہ پر خور دنیا میں کھانے کے لیے اپنی صحت حتیٰ کہ جانیں تک دائو پر لگا دیتے ہیں۔حد سے زیادہ مزیدار کھانے نوش کرنے کی وجہ سے اسمارٹ سسٹرز اینڈ برادرز کنگ سائز کے برادرز اینڈ سسٹرز کے روپ میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ ایک لمحہء فکریہ ہے کہ ہمیں زندگی کی نعمت اس لیے تو نہیں ملی کہ دنیا میں آ کر کھائیں پئیں موج میلہ کریں اور اس پاپی پیٹ کی خاطر مر جائیں۔صرف پر خوری اور زیادہ کھانا ہی نہیں بلکہ چٹخارے دار کھانے بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔حد سے زیادہ چائے کولا چاکلیٹس اور میدے سے بنی اشیاء بھی مضر صحت ہیں۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا میں کتنے لوگ بھوکے سوتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں لوگ زیادہ کھانے سے مر جاتے ہیں۔اب تو ہمارے ملک میں بھی زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان بھوک اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔لوگ بھوک کے ڈر سے اپنے بچے فروخت کر رہے ہیں بیمار بچے کوڑے کے ڈھیر وں پہ پھینک رہے ہیں۔ پانچ سالہ انعم کو اسکے والدین نے بیماری کی حالت میں کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک دیا۔ وہ بچی اب ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ایسے حالات میں شادی بیاہوں پر ون ڈش کا قانون بلا شبہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ اسے نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ اس پر سختی سے عمل کروانا چاہیے حکومت کو۔ اس کے علاوہ شادیوں پر بیت زیادہ کھانا جائع بھی ہوتا ہے۔ آخر لوگ ایسے کیوں کھاتے ہیں جیسے پہلی مرتبہ کھانا کھا رہے ہیں یا پھر کبھی نصیب نہیں ہو گا۔ اس بارے میں بھی ہمارے معاشرے کے لیے قانون ہونا چاہیے کہ جو پلیٹ میں کھانا بچائے اسے بھی جرمانہ کرنا چاہیے۔کیونکہ شادیوں اور فنکشنز پہ اسقدر کھانا ضائع ہوتا ہے کہ اس سے کئی غریبوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔مسلمانیت او ر انسانیت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سادہ خوراک اور بیلنس ڈائٹ لی جائے۔اسکے علاوہ مناسب خوراک کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپکو اپنی جسمانی کنڈیشن کا بھی علم ہو۔اسکا مطلب یہ ہے کہ جو چیزدوسروں کے لیے فائدہ مند ہے وہ آپ کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی کا مزاج بلغمی ہے یعنی کہ ہر وقت زکام نزلہ ہی رہتا ہے۔ ایسے افراد کیلیے زیادہ کیلے ، دہی اور تلی ہوئی اشیاء کھانا مناسب نہیںبلکہ ایسے افراد کو نزلہ خشک کرنے والی اشیاء مثلاً بھنے ہوئے چنے، سبز قہوہ اور و ٹامن سی سے بھرپور رسیلے پھل کھانے چا ہیئں۔ ان میں چکوترا، کینو اور سنگترے شامل ہیں۔ جیسے ہی آپکو اپنا سر درد ، تھکن یا نزلہ ہو تو اپنی خوراک چیک کریں کہ کہیں آپ خوراک کی کمی بیشی کا تو شکار نہیں ہو رہے۔اس لیے کہ لیس دار خوراک نزلہ زکام کے جراثیموں کو بہت پسند ہے ۔ وہ ایسی خوراک کھا کر بہت صحتمند ہو جاتے ہیں۔ اس لیے آپ ایسی خوراک سے پرہیز کر کے انہیں بھوکا مار دیں۔ان جراثیموں کو پرھیز او خوراک کی تبدیلی کے ہتھیاروں سے ایسا زیر کریں کہ وہ دوبارہ آپکا رخ نہ کریں۔ہر بیماری کے لیے داکٹروں حکیموں کے پاس نہ بھاگتے پھریں۔ ان بیچاروں کو بھی کچھ آرام کا موقع دیں۔ اپنے جسم کو خود کنٹرول کریں اکثر عوارض نفسیاتی ہوتے ہیں۔ بیماری کو خود پر حاوی نہ ہونے دیںبلکہ آپ بیماری پر حاوی ہو جائیں۔جیسے ہی جراثیم آپکے جسم کی سرحد پر جمع ہو نا شروع ہو انکا قلع قمع کردیں۔
زیادہ بیٹھ کر کام کرنے والوں کا جسم بے ڈول ہو جاتاہے۔ پہلے پیٹ پھولتا ہے پھر کولہے اور پھر باقی جسم کی باری آتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر پنتالیس یا پچاس منٹ کے بعد پانچ سے دس منٹ کا وقفہ لیں ذہن کو فریش کریں سیڑھیاں چڑھیں یا پھر چہل قدمی کر لیں۔دن بھر چاک و چوبند رہنے کے لیے ناشتے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔اسلیے کہ ناشتہ ہمارے لیے دن بھر کام کی بنیادی انرجی فراہم کرتا ہے۔ ناشتہ نہ کرنا حماقت ہے۔ناشتہ میں انگور، سیب ، اورمالٹے کا رس بہت مفید ہے۔ اسکے بعد چائے کے ساتھ عام ناشتہ کریں۔ لیکن اکثر پوری یا نان نہاری کا ناشتہ صحت کے لیے زہر قاتل ہے۔البتہ کبھی کبھار کھانے میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔
ایک کھانا تیار کرنے کی نارویجن فرم نے اپنے کارکنوں کو امریکی فلم دکھائی۔ فلم یورپ کے مشہو ر فاسٹ فوڈریستوران میکڈونلڈ کے بنے ہوئے برگرز کے بارے میں تھی۔اس ریستوران کی شاخیں پورے یورپ اور امریکہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان ریستورانوں کی وجہء شہرت اسکا سستا لذیز فاسٹ فوڈ ہے۔فلم میں دکھایا گیا کہ ریستوران کی انتظامیہ نے برگر بنانے میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔انہوں نے کنگ سائز برگر اور بوتلوں کا ایک پیک تیار کیا۔برگر اتنے لذیذ تھے کہ جو ایک مرتبہ کھاتا ہر بارکنگ سائزبرگرہی لیتا۔فلم میں دکھایا گیا کہ کنگ سائز برگر کھانے والے کچھ عرصہ بعد کنگ کانگ کے سائز میں ڈھلنے لگے۔اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ انکے دلوں نے ہڑتال کردی یعنی کہ دل نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اب بگ برگر کھانے والے لوگ ریستوران کے بجائے ہسپتال میں پہنچنے لگے۔یہ صرف میکڈونلڈ کے برگرز کی ہی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کے کھانے کے رسیا لوگوں کا یہی حال ہے۔یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ا نسان کو کھانے کے لیے نہیں جینا چاہیے بلکہ جینے کے لئے کھانا چاہیے۔جو لوگ کھانے کے لیے جیتے ہیں وہ صحتمند زندگی نہیں جی پاتے۔جن لوگوں کو ریستورانوں اور ہوٹلز میں کھانے کی عادت ہے سب سے پہلے انکا جگر اور معدہ متاثر ہوتا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ کھانوں میں لذت کے لیے جو اجزا ء استعمال کیے جاتے ہیں وہ مضر صحت ہوتے ہیں۔اکثر کھانوں میں اجینو موتو یا چائنیز نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نمک جگر کے لیے نقصان دہ ہے۔یہ جگر کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔پھر یہی بیماریاں یرقان اور ہیپاٹائٹس بن جاتی ہیں۔معدہ ہمارے جسم کا مزدور ہے۔ یہ مزدور کھانے کو اپنی چکی میں پیس کر اسکے اجزاء جسم کے مختلف حصوں کو سپلائی کرتا ہے۔اگر اس پر کام کا بوجھ زیادہ ڈالا جائے تو یہ بھی مل مزدوروں کی طرح ہڑتال کر دیتا ہے۔جبکہ روزہ ایک ایسی مفید عبادت ہے جو ثواب کے ساتھ ساتھ معدہ کو بھی تقویت دیتی ہے۔جو لوگ روزہ نہیں رکھتے انہیں ڈاکٹر روزہ رکھواتے ہیں۔ جب معدہ ہڑتال کرتا ہے تو مل مزدوروں کی طرح گڑ گڑ کر کے احتجاجی نعرے بھی لگاتا ہے۔خاص طور سے وہ لوگ جو بیٹھ کر کام سرانجام دیتے ہیں یا ڈیسک ورک کرتے ہیں انہیںہا ضمے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چاک و چوبند رہنے کے لیے واک اور ایکسسائز بہت ضروری ہے۔
بات ہو رہی تھی امریکن فلم کی۔یہ ایک فیچر فلم تھی جس میں لوگوں کو بگ برگر کھاتے ہوئے دکھایا گیا۔ بگ برگر کے ساتھ کنگ سائز کولا کی بوتلیں بھی دستیاب تھیں جو لوگ جوق درجوق کھا رہے تھے۔بگ برگر اپنے ذائقے اور کنگ سائز کی وجہ سے بیحد مقبولیت اختیار کر گئے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے وزیر صحت نے بھی ایک اشتہار میں اسکی تعریف کر دی۔ ایک شخص کو بگ برگر اتنا پسند آیا کہ وہ اکثر یہی کھاتا ۔ ایک ماہ بعد وہ شخص ہارٹ کا مریض بن کر ہسپتال پہنچ گیا۔یہ تو ایک شخص کی کہانی تھی لیکن وہاں ایسے کئی کیسز تھے۔جب بڑی تعدا میں آنے ولے دل کے مریضوں کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ دل کے درد کے پیچھے بگ برگر کا شاخسانہ ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں بیچارے وزیر صحت کو اپنی وزارت سے ہوتھ دھونے پڑے ۔ امریکہ میں ملکی بجٹ کا بڑا حصہ صحت کے اخراجات پر اٹھ جاتا ہے ، جو کہ ریستورانوں کے ناقص کھانوں کی وجہ سے ہے۔یہ بگ برگر انسانی جسم کی ضرورت سے کہیں زیادہ کیلوریز فراہم کر رہا تھاجو کہ جسم کے لیے دھماکہ خیز ثابت ہوئی۔
ایک صاحب اکثر ریستوران کا کھانا کھاتے گھر میں بیگم کے آرام کے خیال سے کھانا نہ پکواتے۔ ایک روز انکا ہاضمہ فیل ہو گیا۔ یہ ریستوران کے کھانے کا یہ انجام تھا ۔یہ جدید دور کے تحفے ہیں،کہ ہر چیز فیل ہو رہی ہے۔خصوصاً پاکستانی معاشرے میں۔پہلے تو صرف ہارٹ فیل ہوتا تھایا گاڑی کا انجن۔ اب تو گردے فیل، ہاضمہ فیل حکومت فیل اور آخر میں پورا معاشرہ ہی فیل۔شکر ہے ان صاحب کے معدے نے چند روز بعد کام تو شروع کر دیا لیکن پیچھے ایک سوال چھوڑ دیا۔
اچھی صحت لے لیے ایکسسا ئز اور واک کے ساتھ ساتھ مناسب خوراک بھی بہت ضرورہے۔یہ کہاوت ہے تو پرانی لیکن اس پہ عمل نہ کرنا بھی ہے نادانی۔ایک سیب ہر روز کھانا ڈاکٹر سے دور رکھتا ہے۔ اسکے علاوہ روزانہ مالٹا یا مالٹے کا رس کئی بیماریوں سے دور رکھتا ہے۔ سلاد ہر روز کھائیں۔یاد رکھیں ہمارا جسم خدا کی امانت ہے۔ اسکی صحت اور حسن کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔اسے زیادہ اور بے کا ر خور اک کھا کھا کر برباد نہ کریں۔ہم خدا کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے کہ ہم نے تیرے دیے ہوئے خوبصورت چہرے اور چاک و چوبند جسم کا کیا حال کیا۔ اسے کمپیوٹر اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ بیٹھ کر بھدا کر دیا۔ غلط خوراک کھا کھا کر بیماریوں کا گھر بنا دیا۔ غیر صحتمندانہ سوچوں سے بیماریوں کو دعوت دی۔اپنی صحت کی حفاظت نیکی سمجھ کر کریں۔
صوفیانہ نظریہ کے مطابق جسمانی عوارض کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک حصہ نفسیاتی بیماریوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ جسمانی بیماریوں پر مبنی ہوتا ہے۔جسمانی بیماریاں غلط خوراک اور سانس کی غلط آمد و رفت کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔
نفسیاتی امراض کی وجوہات میں جذباتی عدم توازن اور ذہنی انتشار شامل ہیں۔جذباتی عدم توازن سے پیدا ہونے والی بیماریاں دل جگر،نظام تنفس اور دوران خون پر حملہ کرتی ہیں۔جبکہ ذہنی انتشار اعصابی نظام اور پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔
اب یہ معلوم کرنا آپکا کام ہے کہ آپکی بیماریوں کی وجوہات کیا ہیں۔اگر آپکو وجہ معلوم ہو تو آپ وجہ دور کریں ،بیماری دور ہو جائے گی۔یہ کام کوئی ڈاکٹر نہیں کر سکتا ۔ یہ کام آپکو خود ہی کرنا ہے۔ اسلیے کہ یہ جسم و جان آپکا اپنا ہے اور خدا کی امانت ہے۔ اسکی حفاظت کر کے امانت داری کا ثبوت دیں۔