نارویجن پاکستانی ویب سائٹ اپنا کے ایڈیٹر محمد عدنان سے گفتگو
گفتگو،شازیہ عندلیب
تعارف
عدنان ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے نارویجن اور رومن ردو میں اپنا کے نام سے ایک ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔یہ یہاں پاکستانی کمیونٹی کی واحد سائٹ ہے جو کہ نوجوان نسل اور پاکستانیوں کو رومن اردو میں کمیونٹی کے ساتھ رابطے کاکام دیتی ہے۔اسکے ایڈیٹر عدنان کا تعلق میانوالی کے علاقے بھکر سے ہے۔ انہوں نے اوسلو کے بزنس ہائی اسکول سے فنانس اکنامکس میں ماسڑز کا امتحان پاس کیا ہے۔ عدنان پچھلے بارہ سال سے ناروے میں مقیم ہیں۔
ویب سائٹ کی تشکیل کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر ایک سوشل شخصیت کے حامل ہیںاور اپنی کمیونٹی میںخاصے متحرک رہ چکے ہیں۔انہوں نے ہائی اسکول میں غیر ملکیوں کے لیے ایک آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی۔اس کا مقصدالکوحل فری پارٹیز منعقد کرنا اور مسلمان اسٹوڈنٹس کو حلال کھانے کی فراہمی یقینی بناناتھا۔سماجی پروگراموں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شروع میں الکوحل فری پروگرام کروانے میں بہت مسلہ پیش آیا۔ لوگ کہتے تھے کہ یہاں ایسی پارٹیز نہیں ہو سکتیں۔لیکن ہمارے پروگراموں میں موسیقی ہوتی ہے سوائے مسجد کے پروگراموں کے۔
ہائی اسکول چھوڑنے کے بعد بھی میں اسکی کمیٹی کا ممبر رہا۔جب میں ے یونیورسٹی سے ایم اے کا متحان پاس کر لیا تو مجھے خیال آیا کہ مجھے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرنا چاہیے جس پر میں اپنی کمیونٹی سے رابطہ بھی رکھوں اور اسکی نمائیندگی بھی کر سکوں۔اس خیال کے تحت میں نے کافی ریسرچ کی اور کئی پراجیکٹس اسٹڈی کیے۔اس لیے کہ اب تعلیم کے ساتھ ہی میری آرگنائیزیشن کی نمائیندگی ختم ہو جانا تھی۔میں نے محسوس کیا کہ ہمارے پاکستانی جو کہ پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں سوائے چند ایک کہ سب صحیح نمائندگی نہیں کر رہے۔ وہ جانے انجانے میں لاشعوری طور پر اپنے طرز عمل سے اپنی کمیونٹی کے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔اسکی ایک بڑی وجہ پاکستانیوں کا احساس کمتری ہے۔اس کے علاوہ نارویجن زبان پر مکمل عبور نہ ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔بیشتر پاکستانی نارویجن معاشرے میں intergrering کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ پاتے۔وہ اس کوشش میں intergrering کے بجائے
assimilation کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اس طرح وہ نارویجن قوم کی نقالی کر کے ان جیسے بننے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ وہ بن تو نہیں سکتے البتہ اپنا تشخص اور پہچان تک کھو دیتے ہیں۔اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے سوسائٹی سے رابطہ رکھیں۔ہمیں اپنے تشخص پر فخر کرنا چاہیے۔چاہے جیسے بھی حالات ہوں اردو ہماری قومی زبان ہے امریکہ میں بھی نارویجن آباد ہیں۔ وہاں انکی بھی اپنی کالونیاں ہیں مگر انہوں نے اپنی زبان اور کلچر نہیں چھوڑا۔ہماری قوم کی خامیاں اپنی جگہ لیکن ہم لوگ اپنی قوم کے خلاف میڈیا میں بول کر وقتی توجہ تو حاصل کر لیتے ہیں مگر یہ میڈیا کی تو ضرورت ہے مگراپنا میج اچھا نہیں بنا پاتے۔
اپنی ویب سا ئٹ اپنا کے حولے سے انہوں نے بتایا کہ اپریل میں اسے لانچ کیے ہوئے ایک برس مکمل ہو جائے گا ۔لیکن انہوں نے ابھی تک اسکی سالگرہ منانے کا نہیں سوچا۔ اس لیے کہ وہ ابھی اسے کسی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں۔گو کہ ابھی اس پر ایکدم سے پچھلے چند ماہ میں آنے والوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ عدنان کا کہنا ہے کہ فی ہفتہ گیارہ ہزار تک ویزیٹرز یہاں آ رہے ہیں۔ایسے کام کرنے کے لیے لگاتار محنت درکار ہوتی ہے۔ ایک دو دن کی محنت سے کچھ نہیں بنتا۔انسان کو محنت سے نہیں کترانا چاہیے اور کوئی بھی کام کرنے میں آر محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ملک کے نامور کالم نگار حسن نثار کہتے ہیں کہ انہوں نے ہر کام کیا یہاں تک کہ انہوں نے ریڑھی تک لگائی۔کام کوئی بھی ہو اس پر لگاتار محنت کرنی چاہیے۔ابتدا میں لوگ کافی مذاق اڑاتے ہیں۔میں ذاتی طور پر جو بات ایک بار سوچ لیتا ہوں اس کام کے پیچھے پڑ جاتا ہوں اور اسے تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہوں۔پاکستانی لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ خود تو کچھ کرتے نہیں اور دوسروں پر تنقید خوب کرتے ہیں۔کئی لوگ مجھ سے مذاق کرتے تھے کہ اتنی بڑی ڈگری لے کر سوسائٹی کے فضول کام وں میں الجھا ہوا ہوں۔وہ جو مشہور پنجابی شاعر بلھے شاہ کہتے ہیں کہ
اپنی زندگی تو کتا بھی جی لیتا ہے مزہ تو یہ ہے کہ دوسرے کے لیے جیا جائے۔ میں بھی اسی بات پر یقین رکھتا ہوں۔
بقول کسی شاعر کے
جب میں نکلا تو اکیلا نکلا
چلتے چلتے قافلہ بن گیا
ایک استفار پر عدنان نے بتایا کہ ٹیم ممبرز کے نام اس لیے شامل نہیں کیے کہ کچھ لوگ اپنا نام ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ابھی یہ سائیٹ اس پوزیشن پر نہیں پہنچی کہ ٹیم کا نام انا ئونس کیا جائے۔ہمارا مقصد نارویجن معاشرے میں پاکستانیوں کا مثبت امیج بنانا اور انہیں اچھے نام سے متعارف کرانا ہے۔
میں نے اس ائیٹ کے لیے پچھلے چھ ماہ میں بہت جدو جہد کی ہے۔اس کی مقبولیت کا گراف بھی بہت تیزی سے اوپر گیا ہے۔ اس سائیٹ پر پاکستانی میلے کے انعقاد کے بارے میں لوگوں کی رائے لی گئی جس پر ایک بڑی تعداد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔یہاں تک کہ ناروے میں دہشت گردی کے حادثے کی وجہ سے پاکستانی میلہ کینسل کرنا پڑا۔اس ایشو پر چار ہزار لوگوں نے پول کیا۔اس کے علاوہ اس سائیٹ پر پاکستان کے معروف سماجی کارکن عبدلستار ایدھی کو نوبل پرائز کا اہل ثابت کرنے کے لیے رائے لی جا رہی ہے۔اس لیے کہ دنیا کو بھی پتہ چلے کہ پاکستانی قوم میں کیسے کیسے بے لوث خدمت کرنے والے سچے اور کھرے لوگ ہیں۔یہ وہ شخص ہے جس نے فلاحی کام کے لیے اپنا ذاتی مکان تک فروخت کر دیا تھا۔
سائیٹ پر ذیادہ دلچسپی کے موضوعات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عدنان ے بتایا کہ لوگ اپنی زمین سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔اس میں چاہے شاعری ہو یا تصاویر ہوں۔جب ہم نے اپنی سائیٹ پر سیاچن کے فوجیوں کے نام کاوال پیپر لگا لوگوں نے اسے بہت پسند کیا۔ہم سائٹ پر ذیادہ اسے ذیادہ کرنٹ افیئرز کے بارے میں معلومات دیتے ہیں۔جہاں تک نارویجن قوم کی بات ہے تو ناروے بھی ہمارا دوسرا وطن ہے۔ یہاں کے لوگوں کو جب بھی ہماری ضرورت پڑی ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس سے پہلے بھی پاکستانیوں نے اسکی تعمیر میں بھر پور حصہ لیا ہے۔یہ بھی ہمارا گھر ہے۔ اس سے وفاداری ہم پہ فرض ہے۔یہ نہیں کہ اس کے مشکل وقت پر ہم بھاگ جائیں گے۔
اس سائیٹ کو بنانے میں دوستوں اور فیملی کے تعاون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دوستوں نے بھی بہت تعاون کیا۔ جیسے قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ہر کسی نے اپنے استطاعت کے مطابق ساتھ دیا۔آجکل اکیلا آدمی کچھ نہیں کر سکتا، کوئی حوصلہ دینے والا ہو تو پھر ہی کام بنتا ہے۔ گھر سے بھی کافی سپورٹ ملی والدین نے کسی معاملے میں مالی تنگی نہیں ہونے دی۔
سائیٹ کے حوالے سے مستقبل کے ارادوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسے ہم لوگ اوور سیز کمیونٹی تک وسعت دیں گے۔یورپ مڈل ایسٹ اور یو ایس اے میں بسنے والیے پاکستانیوں کے لیے بھی ایک پیج بنا رہے ہیں۔ایک دنیا پاکستانی قوم کی پاکستان میں بستی ہے تو انکی ایک دنیا پاکستان سے باہر بھی ہے۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ پاکستان سے باہر بسنے والوں کی آواز بھی پاکستان میں سنی جائے۔
نارویجن میڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نارویجن میڈیا میں بہت آزادی ہے۔اگر یہ نارویجن اس طرح ہمارے ملک پاکستان میں ہوتے تو ہم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے؟میرے ساتھ اس سے بہتر سلوک ہو رہا ہے۔میڈیا بھی بہت اچھا سلوک کرتا ہے ۔ بے شک اس میں کچھ خامیاں ہیں۔
ااردو ویب سائیٹس کے حوالے سے عدنان نے بتایا کہ وہ ذیادہ تر قومی اخباروں کی ویب سائیٹس وزٹ کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ یورپ کی مشہور ویب سائیٹ پر بھی جاتے ہیں۔
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ ہمیں چاہیے کہ اپنی انفرادیت نہ چھوڑیں۔اور اپنا قومی تشخص برقرا رکھیں۔