ایک ھنگامے پہ موقوف ہے
> عابدہ رحمانی
>
>
> سات سمندر پار کا سفر کر کے مادر وطن پہنچی تو 12 گھنٹے پورے 12 گھنٹے میری
> زندگی سے حزف ہو چکے تھے دن رات میں بدلی اور رات دن میں’ عرف عام میں اسکو جیٹ
> لیگ کہتے ہیں یعنی جیٹ طیاروں کی برق رفتاری سے جو ہمارے اوقات بدل جاتے ہیں
> نمعلوم اردو میں اسکا کوئی متبادل ہے؟ جیٹ طیاروں کی برقرفتاری کی بدولت جب ہم
> مغرب سے مشرق کی سمت اتے ہیں تو وقت کا زیاں’ جبکہ مشرق سے مغرب کی سمت ہمیں
> فائدہ ہوتا ہے لیکن جسم کی گھڑی جسکو ہم باڈی کلاک کہتے ہیں اسکو تعین کرنے میں
> اور اہنی رفتار متوازن کرنے میں وقت لگ جاتا ہے نمعلوم پاکستان آکر میری یہ گھڑ
> ی کچھ سست کیوں پڑ
> جاتی ہیرات کو سوئی تو لگتا ہے دوپہر کا قیلولہ کیا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد
> آنکھ کھل جاتی ہے اور جب وہاں رات شروع ہوتی ہے تو نیند آنے لگتی ہیکم ازکم ایک
> ہفتہ ان اوقات کار کے عادی ہونے مین لگتاہیعلاوہ ازیں خاموش اور سانڈ پروف
> ماحول کا عادی ہونے کے بعد جھان زیادہ سے زیادہ شور اپنے ٹی وی کا یا رات کے
> سناٹے کو چیرتی ہوئی ایمرجنسی گاڑیوں کے سائرن کا ہوتا ھییہاں لگتا ہے کہ ہر
> طرف ایک شور بپا ہے-جس بالائی کمرے میں مقیم ہوں اسکے باہر کی طرف ایک گلی
> گزرتی ہیجھاں رات بھر آمد و رفت رہتی ہے لوگوں کی باتیں، موٹر سائیکلوں کا شور
> اور رات کے سناٹے کو درہم
> برہم کرتے ہوئے من چلوں کے قہقہیاور چینخیں ،ذرا سا خاموشی چھاء تومساجدسے آذان
> فجر بلند ہوئی آداب سحر گاھی کے تقاضیاس سے قبل ہی پوری کرنے کی کوشش ہوتی
> ہیساتھ ہی ساتھ بیشمار پرندوں کی چھچھاہٹ سامنے لگے ہوئے لوکاٹ کے درخت پر ہلہ
> بول دیا جاتاہے بلبل، قمری،فاختائیں،چڑیایں ،کوے ،توتے جھنڈ کے جھنڈ آنا
> شروع ہوئیں- خوبصورت سریلی صدائیں ایک نئی صبح کے آغاز کی نوید لے کر
> آتی ہیں – کراچی میں علیالصبح کوکتی ہوئی کوئلوں کی صدائیں سب پرندوں پر حاوی
> ہوتیں جب وہ میرے شریفے ، چیکو ،جامن اور انجیر کے پھل ٹونک بجا کردیکھتیں-
> ماحولیات کے ایک ماہر
> نے ایک مرتبہ کہا ‘کراچی کی کویل دیوانی ہوگئی ہے ‘کوئل برسات میں کوکتی ہے
> جبکہ کراچی میں سارا سال کوکتی رہتی ہے غالبا نمی اور رطوبت کی وجہ سے انہیں
> برسات کا لمس ملتا ہے-
> اب جبکہ نیند نہیں آرہی ہے تو بہتر یہ ہے کہ اٹھکر فطرت سے رشتہ جوڑا جاے اور
> قریبی پارک مین چہل قدمی کی جائے کافی اچھا بڑا پارک ہے-روشیں چہل قدمی یا جاگنگ
> کے لئے بنی ہوئی ہیں-اسلام اباد میں موسم بھار بھر پور انداز میں آتا ہے ہر طرف
> خوبصورت ، خوشنما پھول بھار دکھا رہے ہیںشائقین نے سڑک تک کیاریاں بنا رکھی ہیں
> -پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے اسی وجہ سے جب میں ترقی
> یافتہ ممالک میں جاتی ہوں تو انکے پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں سے جھاں
> مستفیدہوتی ہوں، وہاں مجھے سخت رشک و رقابت بھی ہوتی ہے -چھل قدمی میں صحت کی
> صحت اور چشم ما روشن
> و دلے ما شاد والی کیفیئت ہوتی ہے کیونکہ پھول پودے ہمیشہ سے اپنی کمزوری ہیں
> صبح آٹھ بجیسے گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں مالی ،ماسی ڈرائیور،کوڑا اٹھانے والیکی
> آمد شروع ہوئی ان سب سلسلوں سے ہم کافی بے نیاز ہو چکے ہیں اگر ہفتے دو ہفتے
> میں کوئی میڈ یا مالی آتا ہے تو اسکے اوقات پھلے سے طے شدہ ہوتے ہیں باقی شوفر
> وہ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں اگر کسی کو بتا کہ پاکستان میں ہمیں یہ سہولیات ہیں
> تو انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں -اسکے بعد آوازوں اور صداں
> کا ایک سلسلہ بندھ جاتاہے اور جھاں تک کوڑا اٹھانے کا سلسلہ ہے ، میرے مختلف
> ٹھکانوں میں
> یہ طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے مثلا ایک جگہ ایک ہفتے باورچی خانہ کے کوڑے کے
> سااتھ باغ کے کچرے کا ڈمپسٹر جائے گا اگلے ہفتے ری سائیکل کا، ایک جگہ ہفتے میں
> دو روز کوڑا جاتا ہے -کوڑا اٹھانے والے ٹرک کا ڈرائیور بیٹھے بیٹھے اپنے ہائیڈ
> رالک گئیر سے اس کوڑا دان کو اٹھاکر الٹ دیتا ہے اور یہ جا وہ جا-ٹورنٹو والے
> کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہیں انکے ہاں باورچی خانے کے کچرے کے لئے ایک الگ کوڑا دان
> ہوتا ہے جسمیں ایک مخصوص پلاسٹک کی تھیلی لگتی ہے یہ پلاسٹک جلد تحلیل ہوتا ہے
> اور ماحول کا دوست ہے-اس میں اگر ایک کاغز بھی پایا گیا تو اسپر چٹ لگا کر چھوڑ
> دیا
> جائیگا-اس سے وہ کھاد بناتے ہیں –
> ہمارے یہاں ری سایکل کا انتظام کیا بہترین ہے بچے کوڑے سے ایک ایک کاغز چن کر
> الگ کرتے ہیں ،انکو کوڑا چننے والے بچوں کا ناام دیا گیا ہے
> کیونکہ یہی انکا ذریعہ معاش ہے- کوڑا اٹھانے والوں نے بہی مختلف تھیلے رکھے
> ہوتے ہیں- اور اس میں مختلف اشیا کو علئحدہ رکھا جاتاہے-اسے بیچ
> کر انکی کمائی ہوتی ہے — “ردیاں اخباراں ،ٹین ڈبے لینے والے کی صدائیں
> میں بچپن سے سنتی آئی ہوںوہ بھی ریسائکل یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک
> بہتریں ذریعہ ہے -بیچنے والے کو رقم الگ مل جاتی ہے-کراچی میں جب اپنا گھر
> سمیٹا تو بلا مبالغہ ہزاروں کی ردی بیچی
> جسمیں آڈیو کیسٹ ،ویڈیو کیسٹ اور بیشمار کتابیںو رسائل شامل تھے-،پریشر کوکر
> بنوالو ، منجی پیڑی ٹھکوالو،پھلے ایک اور صدا آتی تھی پانڈے قلعئی کروالو جو اب
> خارج از وقت ہو چکی’ سبزی والے آئیس کریم والے جو اب چاکلیٹ بھی بیچتے ہیںانکے
> ٹھیلوں کی موسیقی رات گئے تک بچوں کو کشاں کشاں کھینچتی ہے- بھانت بھانت
> کی آوازیں اور صدائیں ایک چھل پھل ایک رواں دوں زندگی کی
> علامت -انہی آوازوں میں مجہے وہ بچی بری طرح یاد آتی ہے جو چونی مٹھی میں دبانے
> ہوئی اسوقت گیٹ پر لپک کر جاتی جب دور سے یہ صدا آتی’ چنا جور گرم بابو میں
> لایا
> مزیدار چنا جور گرم’ اسے اسکا گانا بھی بیحد پسند تھا اور اسکا گرم گرم چنا
> جور -پھر اسکا اور چنا جور والے کا رشتہ اتنا گہرا ہوا کہ اگر کسی روز اسے وہ
> نہ ملی- تو وہ گیٹ پر کھڑا گھنٹیاں بجاتا رہتا اور اپنے گانے کو اور اونچا اور
> لمبا کر دیتا ‘بیبی آگیا تیرا چنا جور گرم والا ”
> جب بڑے ہوکر اسنے ‘کابلی والا’ دیکھی تو اسے اپنا چنا جور گرم والا بہت یاد آیا
> جب امی ابا کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی،کہ اسکو پیچھے کیوں لگادیا ہے — —
>
>
>
>
>
>