زبانی امتحان طلباء نادان


امتحانی کمرہء امتحان میں بے رحم گوری سنسر کو دیکھ کر اپنے شفیق پاکستانی ممتحن یاد آگئے۔ اگر فزکس کیمسٹری کے زبانی امتحان میں طالبعلم کی ہچکی یا گھگھی بندھ جاتی تو وہ اس سے گیت یا لطیفہ سنانے کی فرمائش کر ڈالتے۔تاوقتیکہ طالبعلم دوبارہ نارمل حالت میں واپس آجاتا۔ تب کہیں جا کر پروفیسران سوالات پوچھتے۔وطن عزیز میں تو ہر کام کے لیے ملازم میسر ہیں مگر افسوس یہاں یورپ میں سارا کام پروفیسر صاحبان خود ہی کرتے ہیں ۔حتیٰ کہ لیبارٹری میں آپریٹس تک رکھوانے جیسا مشکل کام بھی خود ہی سرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں توچپڑاسی عرف لیب اسسٹنٹ نزیر کی سہولت تھی جو ہمارے اساتذہ کے ہر اشارے اور حکم کو الہٰ دین کے جن کی طرح بجا لاتا تھا۔مگر افسوس یہاں نذیر جیسی کوئی بے نظیر ہستی نہ تھی۔وہ بھی کیا دن تھے جب ایف ایس سی بائیالوجی کے امتحان میں لڑکیوں کا ایک غول لیبارٹری کے ارد گرد منڈلا رہا تھا۔ جبکہ ایک دوسرا گروپ ذرا فاصلے سے لیبارٹری میں ہونے والی نقل و حمل پر امریکی جاسوس طیاروں کی طرح نظر رکھے ہوئے تھا۔اس دوران نوجوان اور معصوم و منخنی سا لیب اسسٹنٹ نزیر لیبارٹری سے اندر باہر آتا جاتا پایا گیا۔جیسے ہی وہ آپریٹس سیٹ کر کے باہر نکلا لڑکیوں کے ایک غول نے اسے نیٹو کے فوجیوں کی طرح گھیرے میں لے لیا۔وہ خود کو اتنی ساری لڑکیوں میں گھرا پا کر کسی دولہے کی طرح شرمانے لگا ،اور نیچی نگاہوں کے ساتھ گھیرا توڑ کر باہر بھاگنے کی کوشش کرنے لگا۔ساتھ ہی گھٹی گھٹی اور پھنسی پھنسی آواز میں مجھے جانے دو ، مجھے جانے دو کی گردان کرنے لگا۔لڑکیوں نے یہ شرط لگائی کہ پہلے بتائو کہ اندر میڈم نے لیبارٹری میںکون سا آپریٹس رکھوایا ہے۔ یہ سن کر پہلے تو وہ شرمایا پھر گھبرا یا، اسکے بعد اس نے بتایا۔ صورتحال نازک تھی وہ سمجھ چکا تھا کہ اب اسکے بغیر چارہ نہیں ورنہ اسے اغواء برائے تاوان نہ دینا پڑ جائے۔اسلیے یہ راز افشاء کرکے اپنی قیمتی جان بچانے کا سودا مہنگا نہیں۔اس نے حلق میں تھوک نگلا اور خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔اس نے بدستور نیچی نگاہوں اور سرخ ہوتے کانوں کی لوئوں کے ساتھ رازدارانہ لحجے میں ایسی بھاری آواز میں سرگوشی کی جس کی آواز کوسوں دور تک سنی جا سکتی تھی۔درختوں پہ بیٹھے محو آرام پرندے تو اسکی آواز سن کر پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ گئے۔ اس نے اپنی پھٹے ڈھول جیسی آواز میں بس اتنا ہی کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں بس جی میڈم نے ایکِ ، ڈڈوا سا، یعنی مینڈک رکھوایا ہے۔یہ سننا تھا کہ لڑکیوں کی ہنسی تو چھوٹ گی۔اس دوران نزیر موقع پا کرلڑکیوں کے جھرمٹ سے بھاگ نکلا۔اسکا مطلب تھا کہ آج بائیالوجی کے امتحان میں مینڈک کے باڈی پارٹس آنے تھے۔

اسکے برعکس یورپ میں یونیورسٹی لیول پہ انوکھے طرز کے طریقہء امتحان دیکھے۔مثال کے طور پر زبانی امتحان،انٹرنیٹ پہ امتحان،گروپ میں امتحان اور گپیں مارنے کا امتحان۔پہلے پہل ناسمجھی کے عالم میں ان طریقہ ہائے امتحانات کے خوب ہنسی مذاق اور ٹھٹھے اڑائے گئے۔واہ جی واہ اتنے آسان طریقہء امتحان پھر تو یہاں ایم اے کرنا خالہ جی کا ہی نہیں ،پھپھو کا گھر ٹھہرا۔مزے سے انٹرنیٹ پہ امتحانی پرچہ لکھ کے بھیج دو یا پھر زبانی امتحان میں ممتحن کو دوچار لطیفے ، اور گپیںسنا کر پاس ہو جائو۔ پھر زمانے بھر میں اپنی تعلیمی قابلیت کے ڈنکے بجاتے پھرو۔مگر جب ایک ہی امتحان دیا تو گویا راتوں کی نیند اور ہاتھوں کے طوطے دونوں ہی اڑ گئے۔بے رحم اساتذہ نے گھوڑے بیچ کر سونے والوں سے گدھوں کی طرح کام لیا۔بیچارے طالبعلم گدھوں کی طرح پڑھائی میں جت گئے۔کہیں کوئی پراجیکٹ ہے ، کہیں لیبارٹری کے تجربات ہیں تو کہیں انتہائی پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے۔حساب کے سبجیکٹ میں پل بنانے کا پراجیکٹ یوں دے دیا جیسے ہم ملٹی ایجوکیشن کے نہیں انجینیرنگ کے طالبعلم ہیں۔پھر حساب میں کلیے دریافت کرنے کا امتحان دے دیا ۔اب ان پروفیسران کو کون سمجھاتا کہ ماضی بعید میں کئی فلسفی یہ کلیے صدیوں پہلے دریافت کر چکے ہیں۔لہٰذا اس موضوع پہ وقت برباد کرنا مناسب نہیں۔پھر حساب کا زبانی امتحان بھی عجیب تھا۔ہم سب تو یہ سوچ کر خوش تھے کہ گنتی کے دو چار پہاڑے سنا کر جان چھوٹ جائے گی۔ مگر جب وقت امتحاں قریب آیا تو استانی کی زبانی یہ جان کر ہی چھکے چھوٹ گئے کہ آ دھ گھنٹے کے امتحان کی تیاری سات ضخیم کتب میں سے کرنی ہے۔ یہ اطلاع طبع نازک پہ بہت گراں گزری۔مگر اب اس بھاری بوجھ کو اٹھانے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ایسے وقت میں یہ اشعار بہت یاد آئے
دورحاضر کے شاعر امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا ہے
یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوالنامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لیے بنایا ہے کچھ سمجھ میں آیا ہے
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں،سب سوال مشکل ہیں
انتہائی کٹھن مراحل کے بعد آخر کار امتحان کی ان چاہی کٹھن گھڑی بھی آکھڑی ہوئی۔ زبانی امتحان کا طریقہ کار یہ تھا کہ بارہ دقیق و تحقیق طلب موضوعات میں سے ایک موضوع کا انتخاب بزریعہء قرعہ اندازی کرنا تھا۔رسم قرعہ اندازی تو یوں رکھی گئی تھی جیسے لاکھوں کروڑوں کے سوالات نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی انعامی رقم نکلنا مقصودہو۔اس رسم قرعہ اندازی کے بعد مذکورہ طالبعلم کو ایک کوٹھڑی نماء کمرے میں کاغذ پنسل کے ساتھ قید کر دیا جاتا۔اس کمرے کے باہر سخت پہرہ تھا۔اس روشن کوٹھڑی میں سوائے سانس لینے، پانی پینے اور لکھنے کے اور کسی کام کی اجازت نہیں تھی۔ٹھیک آدھ گھنٹے کے بعد ایک جانی پہچانی پروفیسر کوٹھڑی کے دروازے پہ نمودار ہوئی۔وہ نہائیت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کمرے کی جانب اپنی رہنمائی میں کسی پہرے دار کی طرح لے جاتی ہے۔یہ وہی کمرہ ہے جہاں طالبعلم کے امتحان کا فیصلہ سنانا مقصود ہوتا ہے۔راستے بھر رہنماء استادحال احوال یوںپوچھتی جاتی ہے جیسے کمرہء امتحان کی جانب نہیں بلکہ آپریشن تھیٹر کی جانب لے کے جا رہی ہے۔مثلاً یہ کہ جی تو نہیں گھبرا رہا،دل تو نہیں زور ،زور سے نہیںدھڑک رہا متلی تو نہیں ہو رہی، یا پھر امتحان کا بخار تو نہیں چڑھا ہوا؟؟؟ ایسے سوالات سن کر اچھا بھلا انسان خود کو برسوں کا مریض محسوس کرنے لگتا ہے۔ میرا کمرہ امتحان کاریڈور کے آخری سرے پہ واقع تھا۔ایک ایک قدم من من کا ہو رہا تھا۔وہاں ایک چینی نسل کی گوری اور سیاہ اندھیری رات جیسی دراز زلفوں والی پروفیسر عرف سنسر پہلے سے موجود تھی۔اس وقت وہ مجھے اپنی آنکھوں کی جھریوں سے دیکھتی ہوئی بڑی ہی خوفناک چینی چڑیل لگ رہی تھی۔میں نے رحم طلب نظروں سے اپنی جانی پہچانی پروفیسر کو دیکھا مگر ابوہاں بھی بے رحمی اپنے پنجے گاڑے ہی نظر آئی۔سنسر سوالات بندوق کی گولی کی طرح داغتی رہی۔ ہم یہ سوچ کر ہر ظلم سہتے رہے کہ ،شائید انکا آخری ہو یہ ستمِ ، اس آدھ گھنٹے کے دوران اس طرح کے سوالات کر کر کے یوں ادھ موا کر دیا جیسے تفتیشی افسران مجرموں کو دوران تفتیش ادھ موا کردیتے ہیں۔ غرض یہ کے عرض ہے کہ وطن عزیز میں بسنے والے طلباو طالبات جان لیں کہ دیار غیر میں امتحان پاس کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ زبان بھی غیروں کی ہو اسلیے اپنے امتحانوں کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان پہ ہی پورا ترنے کی کوشش کریںورنہ اڑتے پنچھی کی آس میں کہیں ہم ہاتھ آئے پنچھی سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ہم توخدا خدا کر کے اس امتحان میں پاس ہو گئے مگر باقی ساٹھ فیصد طلباء اس میں اڑ گئے۔

زبانی امتحان طلباء نادان“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں