” تحریر، شازیہ عندلیب
ظالموں نے تمہیں ختم کرنے کی اپنی سرزمیں سے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے آج بھی وطن عزیز میں تم سے سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔مگر وطن سے دور رہ کر بھی میں تمہیں نہ بھلا سکی۔میں تمہاری یادوں کو آج بھی سینے سے لگا کے جی رہی ہوں۔میری پیاری زبان اردو مجھے آج بھی تم پہ فخر ہے میں تمہیں ہی بولتی ہوں ، تمہیں ہی لکھتی، ہوں اور تمہیں ہی سیکھتی ہوں ۔اسی لیے تو یورپ کے اس دور افتادہ ملک کی یونیورسٹی میں میں سب کو چھوڑ کر اردو زبان کا ہی انتخاب کیا ہے۔سو آج اسکا متحان ہے۔
اردو کے زبانی امتحان کے اساتذہ کا پینل ایک پا کستانی شاعر،ایک نارویجن پروفیسر اور ایک اجنبی سنسر پہ مشتمل تھا۔ پاکستانی شاعر ناروے کے معروف مگر پاکستان کے غیر معروف شاعر تھے ،نارویجن لکچررانتہائی شستہ اردو بولتے تھے۔گرامر ہم لوگوں سے بہت بہتر تھی۔اصل میں جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کسی بھی غیر ملکی زبان سیکھنے کے لیے مادری زبان پہ عبور ضروری ہے۔ چنانچہ اس اطلاع کے ملتے ہی ہم لوگ اپنی مادری زبان پہ عبور حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو گئے۔اسلیے کہ انگلش میڈیم اسکول
کی تعلیم نے انگریزی پر تو عبور کرا دیا مگر اردو صرف بولنے کی حد تک ہی ٹھیک تھی۔جب نارویجن یونیورسٹی میں اردو مضمون کی کلاسز کا انعقاد ہوا تو اردو بولنے والوں کو بھی زبان صحیح کرنے کا موقع مل گیا۔یہاں اردو پڑھ کر پتہ چلا کہ ہماری اردو کتنی نکمی تھی۔کسی زبان کا بولنا اور اس پہ مہارت حاصل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔اردو کی کلاس میں غالب اور میر کی شاعری کے ایسے منتخب اشعار تھے جو کہ آج کے جدید ماڈرن ماحول پہ بالکل فٹ بیٹھتے تھے۔ حیرت ہے کہ قدیم زمانے میں غالب اور میر نے اسقدر آزاد خیالی کا مظاہرہ کیا۔اس سے زیادہ عجیب بات یہ کہ ان اشعارپہ ہمارے معاشرے میں نہ تو علماء نے فتویٰ دیا اور نہ اسلامی دور میںشرعی دفعہ لگی۔ اب تو خیر انڈیا اور امریکہ کے زیر سایہ وطن عزیز بھی مغربی طرز زندگی میں کئی ہاتھ آگے نکل چکا ہے۔ہمارے حکمران سیاسی دوروں میں سر عام خواتین سیاستدانوں سے دل لگی، اور ہنسی ٹھٹھول کرتے ہیں تو وزراء غیر ملکی خواتین حریفوں سے سرگوشیانہ خوش گپیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔انکی ایسی مشکوک حرکات و سکنات کے آگے غالب و میر کا آزادخیال رومانس کیا معنی رکھتا ہے۔ مگر کلاس میں کئی اسلامی و،مشرقی خیالات کے حامل طلباء نے اسقدر آزاد خیال دیوان منتخب کرنے پہ اعتراض بھی او احتجاج بھی کیا۔ اس کے علاوہ اردو میں اردو ادب ،فلم،ڈرامہ اور شاعری کے انتہائی مشکل موضوعات بھی شامل کیے گئے تھے۔ اردو کے شاعر پروفیسر خود تو شاعری کرتے لیکن اگر کوئی اسٹوڈنٹ شاعری کرنے کی جرآت کرتا تو اسے ٹوک دیتے۔اسکی شاعری میں ایسی مین میخ نکالتے ہ وہ بیچارہ عمر بھر کے لیے توبہ تائب ہو جاتا۔حالانکہ انکے کئی ذاتی شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔پھر بھی غالباً انہیں یہ خوف دامن گیر رہتا ہو گا کہ کہیں کوئی ان سے آگے نہ نکل جائے۔
ایک اسٹوڈنٹ نے ان سے استدعا کی کہ اسنے انکے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کچھ اشعار مرتب کیے۔اس اسٹوڈنٹ نے اپنے پروفیسر سے اصلاح کی درخواست کی لیکن انہوں نے بجائے شاعری سن کر واہ واہ کرنے کے یوں ہنسنا شروع کر دیا جیسے اس بیچارے نے کوئی شعر نہیں بلکہ لطیفہ سنا دیا ہو۔حالانکہ شاعر پہلے چھوٹا ہوتا ہے پھر بڑا بنتاہے۔ آپ بھی یہ اشعار ملاحظہ کریں۔
بلی میری مانو ہے
موٹی میری نانو ہے
خالدہ کی والدہ
چوسے آم مالدہ
میں تو انہی کلاسز کی وجہ سے آج میں اس قابل ہوئی کہ اب تھوڑے تھوڑے مضامین لکھ سکتی ہوں۔
خیر کمرہء امتحان میں سر سنسر ناک پہ سن گلاسز جمائے کوئی پراسرار جاسوس لگ رہے تھے۔انہی سر پراسرار کے ساتھ ناروے کے وہی مشہور اردو شاعربراجمان تھے۔جبکہ انکے ساتھ ایک نارویجن اردو ایم اے پروفیسر تشریف فرما تھے۔آج یہ ان تین اساتذہ پہ مشتمل پینل جج صاحبان کا تھا۔انہیں ہماری اردو زبان پر عبور کی جانچ پڑتال کرنا تھی۔اسا تذہ کا پینل طالبعلم کے امتحانی پرچوں کا ریکارڈ اعمال نامہ کی صورت سامنے رکھے بیٹھے تھے۔ انہی پرچوں کی روشنی میں طلباء سے سوالات بصورت جرح کیے جا رہے تھے۔جج صاحبان کے پینل کے سامنے بیٹھا طالبعلم خود کو کٹہرے میں محسوس کرتا تھا۔ امتحان مقدمہ کی صورت میں شروع کیا جاتا۔طالبعلم سانس روکے یا اکھڑی سانسوں کے ساتھ بیٹھا رہتا۔ حلق کی خشکی دور کرنے کے لیے ٹیبل پہ پانی کا گلاس بھی رکھا ہوتا تھا۔حالانکہ اس وقت عموماً نقاہت اسقدر ہو جاتی تھی کہ پانی کی جگہ دودھ ،لسی ، ملک شیک یا اس سے ملتا جلتا کوئی انرجی کا مرکب ہونا چاہیے تھا۔امتحان شروع کرنے سے پہلے شاعر پروفیسر، نارویجن پروفیسر ، سر پراسرار سے یوں استدعا کرتے جیسے کسی مشاعرے میں شعر سنانے کی فرمائش کیا کرتے ہیں۔لیکن دونوں اساتذہ کے متفقہ انکار کے بعد شاعر سر ہی سوال کرتے۔اسٹوڈنٹ رٹے رٹائے جوابات دیتے۔یادداشت میں ذخیرہ شدہ مال منہ کے راستے خارج کر تے سر پراسرار سٹوڈنٹ کا دس صفحات پہ مشتمل پرچے کا تجزیہ کرتے ہوئے اسکی مدح سرائی کر کے طالبعلم کا خون گرماتے۔پھر سوالات کر کے اپنے کلیجے کی آگ ٹھنڈی کرتے۔ایک اسٹوڈنت سے سوال کیا آپکا مکالہ بہت اچھا ہے آخر آپ کرتی کیا ہیں۔ اس اسٹوڈنت نے کھوئے کھوئے انداز میںجواب دیا کہ جی میں رائٹر ہوں اور کتابیں لکھتی ہوں۔ اسکا جواب سن کر ممتحن بھونچکے رہ گئے۔فوراًحیرانی سے بلند آواز میں بولے تو پھر آپ اوسلو یونیورسٹی میں اردو کیوں پڑھنے آئی ہیں؟؟
اسٹوڈنٹ فوراً خیالات کی دنیا سے باہر نکل آئی اور سہم کر بولی ج، جج جی۔۔۔ مم میں۔۔ دراصل رائٹر بننا چاہتی ہوں اسلیے اردو سیکھ رہی ہوں۔ تب ممتحن نے اطمینان بھرا ہنکارا بھرا، شاعر سر کے تنے ہوئے ابرو واپس آگئے اور نارویجن سر نے اپنی نیلی آنکھیں حیرت سے جھپکنا بند کر دیں۔نارویجن پروفیسر ایک دراز قد اور گھبرو نارویجن نو جوان ہیں۔انکی شخصیت ایسی تھی کہ ہالی وڈ کے اداکاروں کو مات کرسکتے تھے۔ فلمی دنیا میں تہلکہ مچا سکتے تھے۔ مگر انہوں صرف دنیائے اردو ادب میں ہی ہلچل مچانے کا فیصلہ کیا۔اردو زبان سیکھنے اور اس میں ایم اے کرنے کا فیصلہ انہوں نے معروف شاعرمنیر نیازی کی ایک غزل سن کر کیا۔وہ مشہور غزل یہ تھی
اس بیوفا کا شہر ہے
اور ہم ہیں دوستوں
بیوفائی بھرے اس دکھی گیت نے انکا دل ایسا موہ لیا کہ لاہور جا کر نہ صرف منیر نیازی کی شاگردی اختیار کی بلکہ اردو میں ایم اے بھی کر لیا۔اس طرح سر اوئی وند نے اس بیوفا کیء شہر جا کر ا ردو سے وفاداری کی۔ایک ہم ہیں کہ اردو زبان دان ہوتے ہوئے بھی اس سے وفا نہیں کرتے ۔یہ نارویجن سر اردو بہت ٹھہر ٹھہر کر شستہ اور دھیمے سروں میں بولتے ہیں۔گرامر پر خاص عبور حاصل ہے۔اسلیے امتحان میں بھی اردو کی گرامر کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔انہیں اردو کی گرائمر پہ ایسا عبور تا کہ اہل زبان بھی شرما جائیں ۔انہیںغالباً ناروے میں اردو زبان کی فکر اردو بولنے والوں سے بھی زیادہ رہتی تھی۔اسی لیے تقریباً ہر اسٹوڈنٹ سے ناروے میں اردو زبان کے مستقبل کی بابت ضرور پوچھتے۔وہ خود بھی نارویجن یونیورسٹی میں اردو زبان کے پروفیسر ہیں۔آجکل اسی زبان میں ریسرچ کر رہے ہیں۔ایک حاضر جواب طالبہ نے انہیں ایسا جواب دیا اسی سوال کا کہ پروفیسر اوئی وند سمیت بقایا پروفیسران،اور جج صاحبان نے اس طالبہ کو اے گریڈ دینے کا متفقہ فیصلہ کر لیا۔آپکو پتہ ہے کہ وہ طالبہ کون تھی؟؟ چلیں پھر کبھی بتا دوں گی۔ اردو زبان کے یورپ میں مستقبل کے بارے میںطالبہ کا جواب یہ تھا کہ، پوری دنیا میں اردو زبان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔اسکی وجہ یہوںبتائی گئی ،گو کہ ماضی میں برصغیر میں اسے ختم کرنے کی کئی تحریکیں چلائی گئیںلیکن اردو آج بھی زندہ ہے اور رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔اردو اس وقت دنیا میں بولنے والی دوسری بڑی زبان ہے۔ اردو بولنے والے افراد آپکو تپتے صحرائوں سے لے کر برفیلے قطب ،سمندروں اور فضائوں میں بھی ملیں گے۔
رہی بات ناروے میں اردو زبان کے مستقبل کی تو یہاں تو اسکا مستقبل بہت ہی روشن ہے۔ جب تک اسکولوں میں پاکستانی والدین اپنے بچوں کو اردو پڑھاتے رہیں گے اردو کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔بلکہ ناروے میں تو اردوزبان بہت ترقی کرے گی ،کیونکہ اگر ہمارے نارویجن نثراد اردو پروفیسر جیسے لائق فائق اور قابل شخص اردو میں ایم اے کر سکتے ہیںتو اردو زبان یہاں ہمیشہ پھولتی پھلتی رہے گی۔بس پھر کیا تھا،پھر تو ستاروں میں روشنی نہ رہی اور سارے تارے سمٹ کر سر کی نیلی آنکھوں میں روشنی بھر گئے۔بس اسی روشن لمحے میں اس طالبہ کو اے گریڈ عنائیت کر دیا گیا۔اسکے بعد وہ طالبہ تو گویا کہکشائوں پہ چلتی ہوئی کمرہء امتحان سے باہر نکلی تو ساری طالبات نے اسے ایسے گھیر لیا جیسے وہ امتحان دے کر نہیںبلکہ ادب کا کوئی ایوارڈ جیت کر آئی ہے۔اصل میں وہ طالبات سوالات کی نویعیت پوچھ رہی تھیں۔بے شک اپنی زبان کا ہی امتحان تھا لیکن پھر بھی یونیورسٹی لیول پہ امتحان کی ایک اپنی ہی دہشت ، ڈرا و رخوف ہوتا ہے۔جب رزلٹ آیا ور طالبہ کو اے گریڈ ملنے کی اطلاع ملی تو کسی طالبہ نے اس پہ ا لزام لگا دیا کہ وہ پروفیسران کی چہیتی ہے تو کسی نے اسکی اسمارٹنس اور شخصیت کو اے گریڈ کی وجہ قرار دیا۔حالانکہ ناروے میں ایسا نہیں ہوتا یہاں طلباء کو کوئی سفارش اور فیور نہیں ملتا۔یونیورسٹی میں داخلہ بھی میرٹ کی بنیاد پہ ملتا ہے نہ کہ پاکستان کی طرح سفارش سے۔امتحانات کے رزلٹ صرف اور صرف طلباء کی ذاتی قابلیت پر ہی مرتب کیے جاتے ہیں، اسکی یا اسکے والدین کی شخصیت کی وجہ سے نہیں۔ایسا سوچنے اور کہنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔رزلٹ قابلیت پر دیا جاتا ہے اسمارٹنس یا خوبصورتی کی بنیاد پہ نہیں۔ویسے بھی ناروے میں حسین لوگوں کی کمی تو ہے نہیں۔اگر ایسا ہی ہوتا تو ہر حسینہ ٹاپ کرتی ،اوربڑے بڑے ہسپتالوں اور یونیورسٹیوں میں جاب کرتی۔مگر یہاںزیادہ تر حسینائیں نرسنگ یا صفائی کے پیشے کا ہی انتخاب کرتی ہیں۔کیونکہ اکثر حسن و ذہانت ایک دوسرے کے بیری ہوتے ہیں۔ یہ خصوصیات بہت کم ایک ہی شخصیت میں یکجا ہو پاتی ہیں۔جبکہ ذہانت محنت اور کامیابی کا اپنا یک حسن اور وقار ہوتا ہے۔
سو وہ لوگ جو خوبصورتی کے کسی معیار میں کم ہیں وہ بجا طور پہ محنت سے کامیابی حاصل کر کے حسین و
نظر آسکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے!!!!