شازیہ عندلیب
نارویجن اخبار وے گے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مشرف کے جانے کے بعد بھی پاکستان کی سیاسی صورتحال پیچیدہ ہے اور پیچیدہ ہی رہے گی۔اور حالات بدستورناساز ہیں۔اسکے جانے کے بعد نئے مسائل اور فتنے سر اٹھا رہے ہیں۔راوالپنڈی واہ کینٹ میں پھر دھماکہ ہوا ہے۔ اسکے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں گاہے بگاہے دھماکوں کی خبریں بھی آرہی ہیں۔مشرف کی رخصتی کے موقع پر عوام نے خوشی کا مظاہرہ کیا ۔ مٹھائیاں بانٹیں ، دھمال ڈالے دھما چوکڑی ڈالی مگر جو دھماکے مشرف نہ رکوا سکا اسکا سدباب کسی حکومت کے پاس بھی نہیںجو مسائل مشرف نہ حل کر سکا انکا حل منتخب حکومت کے پاس بھی نہیں۔مشرف پاکستان پہ حکومت کرنے والا پہلا آمر نہ تھاجنرل ایوب کے سوا سب آمر ، آمریت کی داستانیں امر کر کے امر ہوئے۔جنرل ایوب نے اسلام آباد تعمیر کیا، راول ڈیم بنایا۔باقی حکمرانوں اور جرنیلوں نے کالا ڈیم، اور کالا باغ جیسے کیسوں میں منہ کالا کیا۔جنرل مشرف نے خود کتاب لکھی، ٹی وی پہ ڈرامہ لکھوائے، لال مسجد کا ڈرامہ کیا ۔اس نے لال مسجد کے معصوم شہیدوں کے خون سے رنگی داستان ظلم رقم کی۔جنرل مشرف نے مواخزہ سے پہلے کیوں صدارت کو خیر باد کہا؟کیونکہ اسے معلوم تھا اور سب جانتے ہیں کہ کہ وہ کبھی جیت نہیں سکتا تھا۔مواخزہ ہوتا تو اسکے ظلم و زیادتیاں بے نقاب ہو جاتیںلال مسجد کے شہیدوں کی روحیں گواہی دیتیں۔اور ظالم اس روز ہار جاتا اس لیے اس نے مواخزہ کا باب کھلنے سے پہلے ہی بند کر دیا۔لیکن انسانوں کے قانون سے بچنے والا قدرت کے قانون سے کبھی نہیں بچ سکتا۔
مشرف تو چلا گیا سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اب کیا ہو گاکیا مظلوموں کو انصاف ملے گاعوام کے مسائل حل ہونگے، کیا انکی زندگیوں کو تحفظ ملے گا؟کیا انہیں بنیادی حقوق ملیں گے؟کیا روٹی کپڑا کا نعرہ لگانے والی عوامی پا ر ٹی عوام کو یہ سب کچھ مہیا کرے گی؟کیا نئی منتخب حکومت ملک میں اسلامی حکومت کا نفاز کرے گی؟بے حیائی دور کرے گی؟ غلامی کی بیڑیاں توڑ ڈالے گی؟عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنے گی؟غلامی کی بیڑیاں توڑ ڈالے گی؟اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے گی؟فی الحال تو مشرف کے مسند اقتدارسے اترتے ہی سیاست کی ہنڈیا چڑھ گئی ہے۔جس میں سیاست کی کھچڑی پک رہی ہے اب دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی کی طرح میری بھی یہی تمنا ہے کہ جو بھی پاکستان کا صدر منتخب ہو وہ کہیں سے بھی مشرف جیسا نہ ہو، بھیڑ کی کھال میں چھپا بھیڑیا نہ ہو، شرافت کے لبادے میں ڈاکو نہ ہو اور مرد اول کوئی دس نمبری نہ ہو۔بلکہ وہ اپنی قوم سے مخلص ہووہ اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کا نام روشن کرے۔اسکی ترقی کے لیے کام کرے۔وہ پاکستان کو ایسی مملکت بنائے کہ ہر پاکستانی اپنی مملکت پر فخر کرے۔پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی ہیں وہ اپنے پاکستانی ہونے پر فخر کریں۔ودسری اقوام پاکستان کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں۔ہمارے پڑوسی ملک ایران اور چائنا کی مثال ہمار ے سامنے ہے۔ چائنا جیسا کثیر ا بادی والا ملک پہلے عالمی صنعت سازی پہ چھا گیا اور اب کھیل کے میدان میں بھی اس نے شاندار برتری حاصل کرلی ہے۔ حالیہ بیجنگ اولمپکس میں اب تک کی خبروں کے مطابق چائنا نے سو سے زائد میڈل جیتے ہیں ۔ چائنا آہستہ آ ہستہ اقوام عالم میں ایک درخشاں ستارے کی طرح طلوع ہو رہا ہے ۔ جلد ہی اسکی روشنی اقوام عالم کی آنکھوں کو چندھیا دے گی۔ لیکن میرا وطن ناخواندگی غربت اور دہشت گردی کی ظلمتوں سے کب نکلے گا۔عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہت خراب ہے۔عالمی مارکیٹ میں اسکی پراڈکٹس کی کوئی ویلیو نہیں ہے۔حالانکہ پاکستان کی ٹیکسٹائل پراڈکٹس اور اجناس بہت سے غیر ممالک میں جاتی ہیں۔جب تک ہمارے پاس اپنے ملکی مادی وسائل نہیں ہونگے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ بیرونی قرضے لے کر ترقی کا سہانا سپنا دیکھنا تو محض خام خیالی ہے ۔ قرضہ لے کر ہم مقروض اور امیر ممالک کے غلام تو بن سکتے ہیں مگر باعزت ترقی یافتہ قوم نہیں۔ بیرونی قرضہ ملک میں اناڑی کھلاڑی ، بھکاری سیاست دان اور دس نمبری لیڈر تو پیدا کر سکتے ہیں مگر باوقار اور خود دار قوم نہیں دے سکتے۔
ایران نے امریکہ کی بالا دستی قبول نہ کرتے ہوئے بے مثال ترقی کی ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لے کثیر زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ زرمبادلہ مما لک تجارت اور اپنی صنعت و حرفت کو ترقی دے کر اور دیگر ٹیکسوں سے حاصل کرتے ہیں ۔ پاکستان ایک ذرعی اور صنعتی ملک ہے لہٰذٰا،اسکی آمدن کا انحصار بڑی حد تک زرعی اجناس اور صنعتی اشیاء بیرون ملک کو درآمد کرنے پر ہوتا ہے۔عالمی منڈی میں اشیاء کی کوالٹی اورمعیار ہی کامیابی کی اولین شرط ہے۔یہی تجارت ہے جس نے چائنا اور انڈیا کو ترقی کی شاہراہ پر لا کھڑا کر دیا ہے۔مگر پاکستان اسی میدان میں اپنے انہی ہمسایہ ملکوں سے کوسوں دور ہے۔اسکی سب سے بڑی وجہ غیر معیاری اشیاء کی ترسیل اور معاہدوں کی پاسداری نہ کرنا ہے۔غیر معیاری اشیاء کی ترسیل ، اور حسب وعدہ بروقت اشیاء کی ترسیل نہ کرنا ہمارا سیاسی ہی نہیں قومی مزاج بھی بن چکا ہے۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں پاکستانی پراڈکٹس مقامی مہریں لگا کر بیچی جاتی ہیں ۔ یہاں ناروے میں بھی پاکستان کی ٹیکسٹائل پراڈکٹس کی کافی کھپت ہے ۔ بڑے بڑے اسٹورز پر پاکستان کی ٹیکسٹائل ملز کی پراڈکٹس بکتی ہیں مگر ان پر پاکستان کی نہیں بلکہ برآمد کرنے والی کمپنی کی مہریں لگی ہوتی ہیں کیوں؟ آخر کیوں؟ ّّْ جبکہ اسی مارکیٹ میں انڈیا اور چائنا کی اشیاء انہی ممالک کے نام سے فروخت کی جاتی ہیں۔ اسی طرح دوبئی اور سعودی عرب میں بھی پاکستانی اشیاء پر پاکستان کی مہر نہیں ہوتی۔ یہ کیسی تجارتی پالیسی ہے کہ ہم اپنا نام تک استعمال نہیں کر سکتے یہ قومی بے حسی ہے بے ضمیری ہے کیا نام دوں اس بزدلی کو میں؟؟کیا ہماری قوم کو دنیا میں عزت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ اکثر پاکستانی ہمارے سیاسی لیڈروں کی طرح بے ضمیر ہیں انہیں صرف اپنے ذاتی مفاد سے غرض ہے اور قومی مفاد عزیز نہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ واقعہ میرے کزن کے ساتھ پیش آیا جو کہ قومی ایر لائن میں سینیر انجینیئر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔۔ ان دنوں وہ انپی ملازمت کے سلسلے میںاپنی فیملی کے ساتھ دوبئی میں مقیم تھے۔ دوبئی میں وہ ایک سرکاری تقریب میں مدعو تھے جہاں بڑے بڑے سرکاری عہدہ دار فوجی جرنیل اور تجارتی کمپنیوں کے عہدہ دار مدعو تھے۔یہ تقریب پی آئی اے کی طرف سے تھی۔ آرگنائر کی تجویز کے مطابق پارٹی ون ڈش تھی۔ عارف بھائی جان بھی اپنے گھر سے پلائو بنواکر لے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب ڈشز میں پلائو کی مہک سب سے زیادہ آ رہی تھی۔ پھر سب سے پہلے پلائو ہی ختم ہوا ۔ یہ ڈش جس نے چکھی متاثر ہوئے بناء نہ رہ سکا۔ایک تجارتی کمپنی کے ڈائریکٹر نے خاص طور سے پوچھا کہ یہ ڈش کون لایا ہے۔ تب عارف بھائی نے اپنا تعارف کرواتے وئے کہا کہ یہ ہمارے ملک کے باسبتی چاول ہیں۔اس ڈائریکٹر نے اسی دن باسبتی چاولوں کا بحری جہاز بک کروادیا۔ اس کے بعد دوبئی سے ایک اور آرڈر بک کروایا جو کہ تین بحری جہاز وں پر مشتمل تھا۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ پھر کیا ہوا۔ باسبتی چاول کے بھرے ہوئے تین بحری جہاز واپس کر دیے گئے۔ آپ جانتے ہیں کیوں اس لیے کہ اس میں بوریوں کے اوپر اصلی باسبتی چاول تھے جبکہ ان کے نیچے نمبر دوکوالٹی کے چاول پیک کیے گئے تھے۔اس کے بعد یہ چاول پھیری والوں نے گھر گھر جا کر اونے پونے داموں بیچے۔یہ ہے ہمارے ملک کی دو نمبر تجارت ۔ کوالٹی کنٹرول کسی شعبے میں نہیں۔اگر پاکستان چاول دوبئی میں فروخت کرتا تو بہت زر مبادلہ کما سکتا تھا۔ لیکن ہم اپنے وطن کی پسماندگی کا الزام کسے دیںحکمرانوں کو ، تجارتی اداروں کو عوام کو یا وہاں کے نظام کو؟یہاں نارویجن حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگر معاشرہ برائیوں اور جرام میں زیا دہ ملوث ہو جائے تو وہ سزا سے نہیں تعلیم و تربیت سے سدھرے گا۔۔ چنانچے ہمارے وطن کو بھی ضروروت ہہر شعبے میں تعلیم و ترکی اور انصاف کی اگر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو میرا وطن بھی آسمان پر ایک دن ضرور جگمگائے گا۔ اور وہ دن ضرور آئے گا۔