جہیز کے بہانے
تحریر ،علیم خان
بعض لوگ جہیز لینے اور دینے کی مدافعت میں یہ حیلہ پیش کرتے ہیں کہ اسکی وجہ سے ہزاروں ان لڑکیوں کی شادی آسان ہوجاتی ہے جو خوبصورت یا تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے یا مطلقہ یا بیوا ہونے کی وجہ سے گھر بسانے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ان کے نزدیک جہیز لڑکیوں کی شادی کو آسان کرنے والی ایک نعمت ہے۔
یہ بہانہ ایک جھوٹ اور خودفریبی ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ ساری خوبصورت اور تعلیم یافتہ اور اچھے خاندان کی لڑکیاں بغیر کسی جہیز کے اٹھہ جاتیں اور صرف کمتر لڑکیوں کیلئے ہی جہیز کی رشوت دینی ناگزیر ہوتی تو یہ حیلہ نہ صرف قابل قبول ہوتا بلکہ اس کو ایک کارعظیم جان کر ہم سب سے پہلے اسکیلئے فنڈز اکھٹا کرتے لیکن حقیقت
واقعہ ایسا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ھیکہ جہیز ہر صورت میں دینا لازمی ہے۔ لڑکی چاہے خوبصورت ہو کہ بدصورت، تعلیم یافتہ ہو کہ ان پڑھہ، کنواری ہو کہ بیوا یا مطلقہ۔ جہیز کے بغیر لڑکی کا بیاہنا آج کے معاشرے میں ناممکن ہوچکا ہے۔ اگر آپ مزید حجت اور تکرار میں پڑے بغیر حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو اپنے کزنس یا ساتھہ کام کرنے والوں میں سے دس بیس کا سروے کیجئے۔ بلکہ ذرا تحقیق بھی کیجئے کیونکہ بہت کم لوگ آپ کو سچائی اور ایمانداری سے ہر بات بتائینگے۔
آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ
ننانوے فیصد یہ کہیں گے کہ وہ جہیز کی رسم کے خلاف ہیں۔ ان کے خاندان میں یہ رسم بالکل نہیں پائی جاتی لیکن تحقیق پر پتہ چل جائیگا کہ یہ سارے نناوے فیصد خوشی سییا فرمائش یا مطالبے کے ذریعے جہیز کسی نہ کسی طرح لے چکے ہیں۔
پچاس فیصد وہ ہونگے جنکے ابا جان یا امی جان نے پورا میدان ان کے لئے سیٹ کیا۔ رشتہ بڑی چالاکی سے اسی لڑکی کے گھر بھیجا جہاں سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے اور بغیر مانگے ہی خوشی سے دینے کے نام پر یا رواج و سسٹم کے نام پر ہر چیز مل جائے تاکہ یہ لوگ شان سے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے کچھہ نہیں مانگا تھا۔ سب کچھہ لڑکی والوں نیزبردستی دیا ہے۔
چالیس فیصد وہ ہونگے جو خود یا ان کی امی جان وغیرہ نے لڑکی والوں کو اپنی فرمائش اور شرائط سے آگاہ کردیا تھا۔
پانچ فیصد وہ ہونگے جنہوں نے جتنا لے سکتے تھے اتنا نہیں لیا کئی چیزوں میں ڈسکاونٹ کردیا ورنہ نقد رقم جسکو جوڑا، تلک یا استری دھنم کہاجاتاہیاسکے ساتھہ ساتھہ پلنگ، فرینچر، سونا، کار یا موٹر سائیکل اور شاندار دعوت طعام تو وصول کیا جاسکتا تھا۔
تین فیصد وہ لوگ ہونگے جنہوں نے اقامے، ایمیگریشن یا لومیریج کی مجبوریوں کی وجہ سے کچھہ نہیں لیا ورنہ عام حالات میں شادی ہوتی تو کسی چیز سے ہرگز انکار نہیں کرتے۔
دو فیصد بمشکل وہ ہونگے جنہوں نے واقعی سنت نبی صل اللہ و علیہ و سلم کو زندہ کیا لڑکی والوں پر کوئی بوجھہ ڈالے بغیر نکاح کیا، مہر ادا کیا اور حسب استطاعت ولیمہ دیا۔ لڑکی والے اگر استطاعت بھی رکھتے تھے تب بھی ان لوگوں نے سنت کو زندہ کرنے اس حرام سے پرہیز کیا اور ایک مثال قائم کی اللہ ایسے لوگوں کے ایمان، دولت، صحت اور اولاد میں برکت عطا فرمائے۔
اب بھلا بتلائے کہ کم صورت یا خوبصورت، تعلیم یافتہ یا ان پڑھہ، کنواری یا بیوا کا کہاں سوال اٹھتا ہے۔ جہیز تو ہر دو صورتوں میں دینا ہی دینا ہے۔ البتہ فرق صرف یہ ہیکہ خوبصورت یا تعلیم یافتہ لڑکیاں ذرا کم جہیز پر اٹھہ جاتی ہیں اور کم صورت لڑکیوں کے لئے لڑکوں کو زیادہ قیمت میں خریدنا پڑتا ہے۔ ایک اور فرق یہ بھی ہیکہ جہاں لڑکیاں خوبصورت ہوں وہاں مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بغیر مانگے بہت کچھہ مل ہی جاتا ہے اور بھاو چکانے میں کچھہ کم زیادہ بھی طئے ہوسکتا ہے لیکن جہاں تک کمتر لڑکیوں کا معاملہ ہے وہاں مطالبہ منوایا جاتا ہے اور بھاو چکانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک کمتر بیٹی پیدا کرنیکے جرم میں اسکے باپ یا بھائی کو قیمت چکانی ہی پڑتی ہے ورنہ لڑکا اور اسکی ماں کسی اور در کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔
اس طرح جو لوگ کمتر لڑکیوں کی ہمدردی میں جہیز کی دفاع کررہے ہیں وہ لوگ در اصل ان لڑکیوں کی مشکلات اور بڑھارہے ہیں۔ اور لڑکوں کی قیمت میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ لڑکیوں کی قیمت، عزت اور وقار گرارہے ہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہیکہ جہیز کے حرام ہونے پر کھل کر کہیں اور مردوں کی خودداری اور مردانگی کو زندہ کریں اور قرآن سورہ نسا آیت چوتیس کی روشنی میں کھل کر کہیں کہ مرد کی اسلام میں تعریف یہ ہیکہ جو عورت پر مال خرچ کرے۔ جو عورت یا اسکے والدین سے پیسہ اور دعوتیں وصول کرے وہ قرآن کی تعریف کے مطابق مرد باقی نہیں رہتا۔ جہیز کی خلاف ایک جنگی پیمانے پر اٹھہ کھڑا ہونا اور اسکو جڑ سے مٹانا آج
وقت کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ اس دور کا سب سے بڑا جہاد ہے۔