ایمر جنسی
(طاہر نقوی)
میںہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ بیوی کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ آن کیا۔ وہ اپنی ۔۔۔۔۔۔۔پر تکلیف سے کروٹیں بدل رہی تھی۔ اُس کی یہ کیفیت دیکھ کر میں گھبرا گیا۔ وہ جواب دینے کے قابل بھی نہیں تھی۔ میرے پوچھنے پر محض کراہتی رہی۔ میں سہارا دے کر جیسے تیسے گیراج تک لے گیا اور اُسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔
ابھی رات زیادہ نہیں ہوئی تھی۔ مگر موجودہ حالات کی وجہ سے سڑک پرہوکا عالم تھا۔ ہسپتال پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ میں نے بیوی کو بنچ پر لٹا دیا۔ پھر کائونٹر کی طرف لپکا۔ وہاں ایک نرس کرسی پر بیٹھی اُونگھ رہی تھی۔ میں نے اُسے آواز دی تو اُس نے ناگواری سے دیکھا۔ میں گھبراہٹ کے عالم میں بیوی کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ میری بیوی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ اُس نے کوئی تاثر نہیں دیا۔
“کسی ڈاکٹر کو بلائیے”
وہ چپ رہی۔
“آخر آر ایم او کہاں ہیں؟”
“تھوڑی دیر میں آجائیں گے”
میں بیوی کے پاس جا بیٹھا۔ اُس کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔ لیکن نرس اُسی طرح مطمئن بیٹھی رہی۔ اُس کے قریب جاکر میں نے سختی سے کہا۔
“ڈاکٹر کو بلائیے”
“میں کائونٹر چھوڑ کر نہیں جا سکتی”
“تو وارڈ بوائے”……….
“وہ چھٹی لے کر چلا گیا”
میں اپنے پائوں ٹیخنے لگا۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ اُس نرس کی گردن دبا دوں۔ اُسے میری پریشانی اور بیوی کی شدید تکلیف کو کوئی احساس نہ تھا۔
“آخر ڈاکٹر صاحب کب آئیں گے؟” میں نے تقریباً خوشامدانہ لہجے میں پوچھا۔
“ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ وہاں گئے ہیں”
“ہسپتال سے باہر؟”
“نہیں۔ ہسپتال میں ہی”
“تو آپ اُنھیں انٹر کام سے اطلاع دیجئے۔ آپ دیکھ رہی ہیں کہ”……..
“ہسپتال میں ہر مریض ایسا ہی آتا ہے”
میں اُس کی بات پر تلملایا۔ وہ اُسی طرح مطمئن بیٹھی رہی۔ میں اپنے آپ کو اُس کے سامنے بے بس پا رہا تھا۔ کبھی بیوی کے پاس جاتا اور کبھی متلاشی نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتا۔ میں نے آن ڈیوٹی آر ایم او کا نام پوچھا تو اُس نے لا پروائی سے نام بتایا۔ یہ سن کر مجھے ذرا اطمینان ہوا۔ کیونکہ میں اُس ڈاکٹر کو پہلے سے جانتا تھا۔ اب اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
“پلیز آپ بیٹھ جائیے”
“آخر ڈاکٹر کب تک”……
“بتایا نا۔ ایمرجنسی”
بیوی گھڑی گھڑی مجھے مدد کے لئے دیکھتی رہی۔ میں اُس کے لئے کچھ نہیں کر پارہا تھا۔ میں نے نرس سے بے اختیار کہا۔
“تو آپ ہی کوئی دوا”……
“نہیں۔ دوا ڈاکٹر ہی دیں گے”
“مگر۔ ڈاکٹر”…….
نرس کی طرف سے مایوسی اور بیوی کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھتے ہوئے میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔ بیوی کی طرف سے میں اب مایوس ہونے لگا۔ چنانچہ گھبراہٹ کے عالم میں مختلف وارڈز میں جاکر خود ہی ڈاکٹر کو تلاش کرنے لگا۔ ہر وارڈ میںخاموشی تھی۔ کچھ مریض سو رہے تھے۔ اور کچھ لیٹے لیٹے چھت کی طرف تک رہے تھے۔ میں دیوانوں کی طرح ڈاکٹر کو تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ اب نرس نے سختی سے مجھے منع کیا کہ مریضوں کو تنگ نہ کروں۔ میں نے اُس کی یہ بات نہیں مانی۔ اور گرائونڈ فلور کے کمروں میں جا جا کر دیکھنے لگا۔ اسی جستجو میں ایک کمرے سے مجھے کوئی آواز سنائی دی۔ میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر کسی مریض کو یہیں دیکھ رہا ہو گا۔ میں نے کھولنے کے لئے دروازے پر دبائو ڈالا۔ وہ نہیں کھلا۔ برابر والی کھڑکی کے پٹ بھی نہیں کھلے۔ ایک شیشہ ٹوٹا ہوا نظر آیا میں نے اندر دیکھنے کی کوشش کی۔ تاکہ ڈاکٹر کو اپنی بیوی کی حالت بتا سکوں۔ وہاں ڈاکٹر اور نرس دونوں موجود تھے۔
مگر…………؟
پتہ:-
پوسٹ بکس نمبر 11109
گلشن اقبال ہیڈ پوسٹ آفس
good hai………..yeah emergency aj kal her insaan ki life main hai main bus musharaf ki emergency ko janta tha………..ab her inssaaan nay apni life main khud hi emergency laga rakhi hai…………her kis say bugra hua……..her kay sath ghara……..her k sath dushmani……………..bus agar allow hai to tension or bemariyan…………
Article parhnai or pasand karnai ka shukriya.
editor