ضیابیطس علامات اور احتیاط
رپورٹ شازیہ عندلیب
غزالہ نسیم ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کی ایک فعال سماجی کارکن ہیں۔وہ اس وقت ناروے میں موجود غیرملکی خواتین کے مسائل حل کارنے کے لیے کوشاں ہیں۔غزالہ ایک کامیاب سیاستدان بھی ہیں اور اوسلو میں غیر ملکیوں کو نارویجن زبان سکھا رہی ہیں۔
انہوں نے ایک خواتین کی سماجی آرگنائیزیشن کی بنیادرکھی ہے۔ اس آرگنائیزیشن میں اس وقت تین پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ان میں خواتین کی صحت،جاب کے مسائل اور ضرورتمند بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پراجیکٹس شامل ہیں۔ نارویجن حکومت فلاحی آرگنائیزیشنوں کو بھرپور امداد اور سہولتیں دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں فلاحی آرگنائیزیشنز خوب پھلتی پھولتی ہیں۔ گو کہ یہ ایک مشکل کام ہے مگر ہمت ہو تو انسان کیا نہیں کر سکتا۔میری دعا ہے کہ غذالہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔اس سلسلے میں جلد ہی خواتین کے لیے کمپیوٹر کلاسز اور تیراکی کی کلاسز کا اجراء ہو گا۔یہ آرگنائیزیشن اوسلو میں کام کر رہی ہے لیکن اسکا دائرہ کافی وسیع ہے۔یہ اوسلو کے مضافاتی علاقوں اور صوبہ اوسلو میں پھیلا ہوا ہے۔جو خواتین اس سے استفادہ کرنا چاہتی ہیں وہ غزالہ کی ای میل پر ان سے رابطہ کر سکتی ہیں۔جو کہ یہ ہے۔
naseem_ghazala@hotmail.com
صحت کے حوالے سے اوسلو ریڈیو پر کیے گئے ایک انٹر ویو کی گفتگو قارئین کی معلومات کے لیے پیش خدمت ہے۔
ریڈیو پروگرام ضیابطیس نمبر ١
انٹرویو،ڈاکٹر وسیم ذاہد
اناوئنسر عزیزصاحب
مسٹر قادر صاحب آپ کی خدمت میں اور ہمارے ڈاکٹر جناب ذاہد صاحب یہاں موجود ہیں۔جیسا کہ مسٹر عزیز کا کہنا ہے کہ ضیابیطس آج ہمارے مینیو کا حصہ ہے۔
میں تو بالکل اپنے مینیو میں ضیابیطس نہیں رکھوں گا۔بلکہ کوئی برگر یا کباب ۔لیکن یہ بھی خالص نہیں ہے۔اس لیے ہم اسی بارے میں بات کریں گے کہ خوراک میں کیا مناسب ہے اور کیا نا مناسب۔
ہمارا فون نمبر ہے 214099321410093 آپ اس پر فون کر کے سوالات پوچھ سکتے ہیں یا اپنی رائے بھی دے سکتے ہیں۔
اگر آپ اس بیماری میں مبتلا ہیں تو آپ بتائیں کہ اس بارے میں آپکا کیا تجربہ ہے۔آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس بیماری کے حوالے سے کیا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کیسے رہتے ہیں۔
مسٹر عزیزالرحمٰن آئیے ہم ڈاکٹر صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
جی ہاں آج کے مہمان ڈاکٹر وسیم ذاہد کو اسٹوڈیو میں آمد پر سلام پیش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر وسیم ذاہد وعلیکم السلام شکریہ بہت بہت
عزیز۔بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے آپکو اس اہم موضوع پر بات کرنے کی دعوت دی ہے۔
یہ ایک پراجیکٹ ہے جو کہ ہم اوسلو کمیونٹی کے ہسپتال کے تعاون سے پیش کر رہے ہیں۔
ہمارا پہلا سوال ہے کہ ضیابیطس اصل میں ہے کیا؟
اسکا جواب لمبا چوڑا دیا جا سکتا ہے یہ ایک بیماری ہے۔اور اسکی کئی قسمیں ہیں لیکن جو ہماری کمیونٹی میں زیادہ ہیں۔وہ ٹائپ ٹو کہلاتی ہے۔یہ ایسی قسم ہے جس کا تعلق آپکے لائف اسٹائل سے ہے کہ آپ اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔اور آپ کیا کرتے ہیں۔اس میں جسم کے اندر جو شوگر یا گلوکوز کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے اور جسم اسے خود کم کر دیتا ہے اس طرح جسم میں چینی بڑھ جاتی ہے۔یہ بیماری ایکدم سے نہیں ہوتی بلکہ اسے ایک عرصہ لگتا ہے۔اسکا تعلق موٹاپے سے ہوتا ہے یعنی حرکت نہ کرنا ایکسرسائز نہ کرنا۔جو لوگ ایسا لائف اسٹائل رکھتے ہیں انہیں اس بیماری کا ذیادہ خطرہ ہوتا ہے۔موٹاپا بڑھنے کے ساتھ جسم میں گلوکوز کو ہینڈل کرنے کی قوت کم ہوتی جاتی ہے۔
ع۔ داکٹر صاحب کچھ لوگوں کے مطابق وہ چینی خوب کھاتے ہیں انہیں پھر بھی شوگر نہیں ہوتی۔لیکن آپ نے کہا ہے کہ چینی سے یہ بڑھ جاتی ہے۔کیا ایسے لوگ بھی ہیں جو چینی زیادہ استعمال کرتے ہیں مگر انہیں شوگر نہیں ہوتی۔
ذ۔ جی میٹھا کھانا بنیادی طور پر خطرناک نہیں ہے۔اگر آپ میٹھا کھاتے ہیں ورزش کرتے ہیں،حرکت میں رہتے ہیں۔اپنے جسم کو پتلا رکتے ہیں تو اس میں یہ ہوتا ہے کہ آپکی شوگر استعمال ہو جاتی ہے۔جیسے موٹر میں پٹرول ڈالیں اور استعمال کرتے رہیں تو وہاں استعمال ہو جاتا ہے
لیکن اگر آپ کئی سال تک مرغن کھانا اور چینی کھاتے ہیں اس کے ساتھ حرکت بھی نہیں کر رہے توپھرخوراک کے حرارے جسم کا حصہ بھی نہیں بن رہے تو ظاہر ہے پھر خطرہ ہو سکتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ باتیں کچھ فرق کے ساتھ صحیح ہیں۔کچھ لوگ ہیں جنہیں شوگر کی بیماری نہیں ہوتی لیکن کچھ لوگوں کو کھانے کی نامناسب عادات کی وجہ شوگر ہو جاتی ہے۔اسکا تعلق وراثت سے بھی ہے۔ایسے لوگوں کی کھانے کی عادات صحیح بھی ہوں تب بھی انہیں شوگر ہو جاتی ہے۔اگر آپ کے خاندان میں یا کسی بہن بھائی کو شوگر ہے تو پھر آپ کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے اس لیے آپ کو ذیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔
ع۔لیکن اگر کسی کے والدین کو نہیں بلکہ دادا دادی یا نانا نانی کو ہے تو تب بھی اسکا تنا ہی خطرہ ہو سکتا ہے؟
ذ۔اس کو بالکل متفقہ طور پہ کہنا تو مشکل ہو گا لیکن جتنا قریبی رشتہ ہو اتنا ہی چانس زیادہ ہو سکتا ہے۔یوں کہہ لیں کہ جو ہماری پہلی جنریشن پاکستانیوں اور انڈین کی سن سترکی دہائی میں آئی تھی جو کہ اب پچاس ساٹھ برس کے ہیں انہیں یہ بیماری ذیادہ تھی۔ ان کے والدین کو تھی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی احتیاط ہوتی تھی اور نہ ہی چیکنگ تھی۔اس وقت خوراک بھی سادہ تھی لوگ کھیتوں میں کام کرتے تھے اور ہلنا جلنا بھی ذیادہ ہوتا تھا۔ اس لیے میرے خیال میں یہ بیماری اتنی عام نہیں تھی۔
ع۔ڈاکٹر صاحب ہمارے یہاں جو اقلیتیں ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری بہت عام ہے۔اس کی کیاعمومی وجوہات ہیں؟کیاا سکی وجہ غلط خوراک،کھا کر سو جانا ہے اور کیا ہم لوگ خوراک میں ذیادہ کولسٹرول لے رہے ہیں؟یا بے احتیاطی ہے، ہم لوگ کھانے میں ذیادہ چینی نمک اور مصالحہ استعمال کر رہے ہیں اور ورزش کم کر رہے ہیں۔کیا یہ تمام وجوہات ضیابیطس کو بڑہانے کا سبب ہیں؟
ذ۔اصل میں آپ نے ذیادہ جواب سوال میں ہی دے دیا ہے۔پہلی با یہ ہے کو جو اقلیتیں یہاں پر ایشیا کی ہیں۔ ان کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ انکی وراثت میں یہ بیماری ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ انکو ذیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کا تعلق غریب ملکوں ے تھا وہاں ایسی پر تعیش خوراکیں نہیں تھیں۔وہاں لوگ گوشت دودھ دہی اور مکھن نہیں کھاتے تھے۔اس کے علاوہ ان کے پیشے بھی ایسے تھے جن میں ہلنا جلنا ذیادہ تھا۔یہاں ہمارا لائف اسٹائل مختلف ہو گیا ہے۔ وہاں ہم لوگ کھیتوں میں صبح چار بجے سے شام تک کام کرتے تھے۔یہاں ہر چیز آسانی سے دستیاب ہے۔ چینی گوشت دودھ سستا مل جاتا ہے۔اب تو گھر میں صوفوں پر بیٹھے رہتے ہیں اور جو ڈیوٹیز ہیں وہ بھی اتنی مشکل نہیں ہیں۔ان تمام وجوہات کی بناء پر ضیابیطس کی بیماری بڑھ گئی ہے۔
ع۔ کیا اسٹریس ضیابیطس کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے؟
ذ۔ نہیں اس سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔لیکن اگر آپ کا کام بہت ذیادہ ہے تو اس سے بھی بلا واسطہ طور پر اثر پڑ سکتا ہے۔ہمارے ذیادہ تر سامعین ٹیکسی درائیور ہیں۔ انکا کھانا بھی زیادہ تر جنک فوڈ پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ سات آتھ گھنٹے ٹیکسی میںبیٹھے رہتے ہیں۔ ورزش بس اتنی سی ہوتی ہے کہ گاڑی سے نکل کر دروازے تک جاتے ہیں۔اس لیے ان کی بڑی تعدادضیابیطس اور ہارت اٹیک کی بیماریوں میں مبتلا ہے۔
کیا ان دونوں بیماریوں کا آپس میںتعلق ہے؟
ذ۔ جی بالکل ہے سب سے پہلے تو ٹیکسی ڈرائیورز کا شکریہ جو اتنا اہم کام کر رہے ہیں۔دوسرے یہ کوئی اتنا ایک جیسا گروپ نہیں کوئی ورزش کرتے ہیں کوئی نہیں کرتے۔لیکن یہ بات صحیح ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور ایک تو بیٹھے رہتے ہیں اوردوسرے باہر کا ناخالص کھانا کھاتے ہیں۔
اگر لمبی شفٹ میں کام کریں تو تھکاوٹ کی وجہ سے ورزش کو دل نہیں چاہتا۔ اسکا نتیجہ موٹاپا اوضیابیطس کی شکل میں نکلتا ہے۔اس لیے ہم لوگ اتنا زور دیتے ہیںکہ انسان اس بیماری سے بچے اور اگر شوگر ہو بھی جایء تو اسے کنٹرول کرے۔اس سے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔شوگر کی وجہ سے ہارٹ اٹیک کی بیماری ذیادہ ہو جاتی ہے اور یہ ایک جان لیوا بیماری ہے۔
ع۔ڈاکٹر صاحب آپ نے بتایا کہ چینی زیادہ استعمال کرنے سے ضیابیطس ہو سکتی ہے ورزش کم کرنے سے بھی اس بیماری کا خطرہ ہے لیکن کیا کسی نو مولود بچے کو بھی یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے؟
ذ۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ضیابیطس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہم نے ابھی تک ٹائپ ٹو کی بات کی ہے۔ایک ہے ٹائپ ون ضیابیطس جو کہ کافی مختلف قسم کی بیماری ہے۔اسکا موٹاپے یا ورزش نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ وراثت میں ہوتی ہے۔اس لیے بچپن میں ہو جاتی ہے۔ہماری کمیونٹی میں یہ اتنی نہیں ہے۔یہ اسکینڈینیوین ممالک یعنی ناروے،سویڈن اور ڈنمارک میں ذیادہ ہے۔ہمارے ہاں کم ہے۔
ع۔یہ بھی پتہ چلا ہے ہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنہیں شوگر کی بیماری ہے لیکن انہیں پتہ نہیں کہ انہیں یہ بیماری ہے۔ یہ کیسے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں شوگر کی بیماری ہے۔؟
ذ۔جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ بیماری سالوں میں ترقی کرتی ہے۔شروع شروع میں پیاس لگتی ہے پیشاب بہت آتا ہے۔ اگر کسی کو یہ علامات ہیں تو اسے اپنا بلد ٹیسٹ کروانا چاہیے شوگر معلوم کرنے کے لیے۔
ع۔اب ہم ایک چھوٹا سا بریک لیتے ہیں۔ڈاکٹر وسیم ہمارے ساتھ ہیں اگر آپ شوگر کی بیماری کے بارے میں کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو پلیز ہمیں اس نمبر پر کال کریں۔21401993 وائیس آف اوسلو آپ کی خدمت میں دس بجے تک۔
گانے کا وقفہ
ع۔ہائے میرا دل۔لیکن ہم دل کی بات نہیں کر رہے ہم شوگر کی بات کر رہے ہیں۔دل کی بات ہم پھر کریں گے کیونکہ دل سے نکلتا ہے ہارٹ۔اور ہارٹ سے نکلتا ہے ہارٹ اٹیک۔ہارٹ اٹیک کی بات ہم پھر کریں گے۔آج ہم بات کر رہے ہیں ضیابیطس کی ۔آئیں چلیں آن لائن ہمارے ساتھ کوئی سامع ہے جو بات کرنا چاہتا ہے۔
ع۔جی السلام ع علیکم
سامع۔وعلیکم السلام جی میرا نام عرفان ہے۔
سامع۔میں دو سوال کرنا چاہتا ہوں۔
ع۔جی ضرور پلیز
سامع۔شوگر کی بڑی نشانی کیا ہے انسان کو کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ اسے شوگر ہے؟
ع۔جی
کالر۔جی سمجھ آیا
ع۔اور دوسرا سوال کیا ہے آپکا عرفان صاحب؟
کالر۔دوسرا سوال یہ ہے کہ رمضان میں میں جب روزہ رکھتا ہوں میری شوگر لو ہو جاتی ہے۔بہت دقت محسوس ہوتی ہے۔کیا یہ نارمل ہے؟اگر یہ نارمل نہیں ہے تو اسکو بہتر کر سکتے ہیں یانہیں؟
ع۔جی عرفان صاحب ریڈیو سنیں تو آپ کو ڈاکٹر صاحب جواب دے رہے ہیں۔فون کرنے کا شکریہ اللہ حافظ
ع۔جی ڈاکٹر صاحب آپ نے سوال سنا؟
د۔جی ہم نے پہلے جو بات کی تھی کہ اسکی علامات ہیں کہ پیاس بہت لگتی ہے۔پیشاب ذیادہ آتا ہے اور موٹاپا ہو جاتا ہے۔کمزوری محسوس ہوتی ہے۔
دوسرا سول جو انہوں نے کیا تھا کہ روزہ رکھنے سے شوگر لو ہو جاتی ہے تو شوگر کی بیماری سے شوگر لو نہیں ہوتی بلکہ ہائی ہو جاتی ہے۔شوگر لو اسلیے ہوتی ہے کہ انہوںنے شوگر کی دوا جاری رکھی ہوتی ہے اسکا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ خون مین شوگر کو لو رکھتی ہے۔اور جب وہ روزہ رکھتے ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ کچھ کھا پی نہیں رہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپکے جسم میں نہ کچھ ڈالا جا رہا ہے نہ دوا لے رہے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ شوگر کو لو کر رہے ہیں۔یہ خطرناک بھی ہے کہ آپ فرض کریں کہ آپ ڈرائیونگ کر رہے ہیں اور آپ کی شوگر لو ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا ہے۔
ع۔ اس طرح ہوتا ہے کہ آپ کی آ نکھوں کے سامنے اندھیرا ہو جاتا ہے ٹوٹل اور آپ پر بے ہوشی طاری ہو سکتی ہے۔
ذ۔ اگر بہت ہی لو ہو تو بندہ بے ہوش بھی ہو سکتا ہے۔
ع۔ کیا یہ سب اچانک آناً فاناً ہو جاتا ہے؟
ذ۔ نہیں یہ سب آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔تو پہلے آپ کو چکر آئیں گے۔بندہ کسی چیز پر فوکس نہیں کر سکتا۔نظر صحیح نہیں رہتی اور بہت لو ہو جائے تو بندہ بے ہوش ہو سکتا ہے۔یہ اتنا عام نہیں ہے لیکن اسکی وجہ یہی ہے کہ وہ شخص روزہ بھی رکھ رہا ہے اور شائید سحری کے وقت میڈیسن بھی نہیں لیتااگر ایسا مسلہ ہو تو ان کے لیے روزہ رکھنا مناسب نہیںہے۔
ع۔ویسے بھی ہمارے مذہب میں جو روزہ نہیں رکھ سکتا وہ اس کے بجائے کسی کو کھانا کھلا سکتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ شوگر لو یا ہائی ہونے کی صورت میں کیا انسان اس کی پیش بندی کے لیے پہلے سے کوئی دو انہیں رکھ سکتاّ
ذ۔دیکھیں اگر شوگر لو ہو جائے تو اس صورت میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ بندہ کوئی میٹھا کھائے۔میٹھا کھانے سے کافی جلدی شوگر ہائی ہو جاتی ہے یا نارمل ہو جاتی ہے۔لیکن اگر شوگر ہائی ہو گئی ہے تو اسکے اتنے واضع علامتیں نہیں ہیں۔یہ انسان پہچان نہیں سکتا۔ اس کے لیے مریض کو ایک ڈائری بنانی پڑتی ہے جس میں وہ اپنے چھوٹے چھوٹے آلات رکھے جن سے بلدشوگر کو ماپا جا سکتا ہے اور نوٹ کرے۔اس طرح انہ اسے یہ جائزہ لینا چاہیے کہ پتہ چلے کہ شوگر کتنی ہے۔اگر بہت ہائی ہے تو اپنی میڈیسن ایڈ جسٹ کر لیں۔
ع۔ بہت شکریہ عرفان صاحب امید ہے کہ آپ کو اپنے سوالوں کا جواب مل گیا ہو گا۔پھر بھی اگر آپ کے دل و دماغ میں کچھ سوال ہیں تو پلیز ہمیں کال کریں۔دوسری لائن پر چلتے ہیں ہماری لائن پر کوئی اور ہے۔
ع۔ السلام و علیکم
کالر۔وعلیکم السلام وسیم صاب اور ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں آپ؟
ع۔بہت شکریہ جی آیاں نو۔
کالر میںوسیم بھائی کا مشکور ہوں جو موضوع آپ نے اٹھایا ہے بہت اہم ہے۔
کالر ۔میں بھی ٹیکسی ڈرائیور ہوں۔میں کوئی پروفیشنل نہیں ہوں۔میرا سوال یہ ہے کہ آدمی کا وزن کتنا ہونا چاہیے تاکہ آدمی خطرہ کی لکیر سے نیچے رہے۔
دوسرے آپ کون سے کام کہتے ہیںکہ شوگر واکے مریض کوکرنے چاہیں۔کیا شوگر سے مکمل چھٹکارا ممکن ہے؟کون سی جسمانی مشقت کرنے سے شوگر سے چھٹکارا پا سکتے ہیں؟یا کو کنٹرول میں رکھیں؟
شکریہ
ذ۔ تو یہ بی آئی BI )کی بات کر رہے ہیں کافی لوگوں نے اسکا نام سنا ہو گا لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اسکو کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟یہ تو جیسا کہ شہزاد بھائی نے بتایا ہے کہ آپکا کتنا وزن ہونا چاہیے آپ کے قد،اور عمر کے مطابق؟
ذ۔جی یہ ایک پیمانہ ہے جس سے Body index ) باڈی انڈیکس کا پتہ چلتا ہے کہ آپکا وزن اور قد کے لحاظ سے کتنا وزن ہونا چاہیے؟یہ ایک فارمولہ ہے جو کہ شائید سننے میں اتنا دلچسپ نہ ہو ۔
اس میں جتنا وزن ہو اسے قد پر دو مرتبہ تقسیم کیا جاتا ہے۔اگر آپکا وزن اسی کلو اور قد ایک سواسی سینٹی میٹرہے تو یہ ہو گا اسی تقسیم اسی تقسیم ایک سو اسی۔ اس ے ایک جواب نکلتا ہے جسے 26/27 سے کم ہونا چاہیے۔اسے تئیس سے لے کر پچیس تک ہونا چاہیے۔اگر انسان کا وزن ذیادہ ہو اور پیٹ پر چربی ذیادہ ہو تو یہ سب سے ذیادہ خطرناک ہوتی ہے۔اور انکا کہنا صحیح ہے کہ اسے کم کرنے کیلیے ورزش بہت ضروری ہے۔یہ جسم کو سلم رکھنا ضروری ہے۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک جانب سے آپ جتناڈالیںگے اس میں سے کتنا ستعمال کر سکتے ہیں؟اس میں بیلنس ہونا چاہیے۔اگر آپ ذیادہ کھا رہے ہیں تو آپ ورزش بھی زیادہ کریں۔اگر آپ لمبے عرصے تک زیادہ کھاتے ہیں تو اضافی خوراک جسم میں جمع ہو کر اسے موٹا کر دے گی۔چاہے شوگر ہو یا نہ ہو۔نارویجنوں کے مطابق ہر شخص کو ہفتے میں کم از کم تیس منٹ تک ورزش کرنی چاہیے۔یہ تین مرتبہ کریں۔ورزش ایسی ہو کہ آپ کو پسینہ آئے اور سانس چڑھ جائے۔
ع۔میرا خیال ہے پہلے ایک سوال لیتے ہیں جی آپ ہیں لائن پر؟
کالر۔ہیلو السلام و علیکم
ع۔وعلیکم السلام
کالر۔میں وقاص بول رہا ہوں
ع۔جی وقا ص آپ ٹھیک ہیں
کالر۔ جی میں ٹھیک ہوں۔
کالر۔وسیم بھائی میں آپ کو ویلکم کہتا ہوں۔
کالر ۔ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ ہماری پاکستانی فیملیز میں چھوٹی عمر سے کولا وغیرہ پلانا شروع کر دیتے ہیں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟اسکا متبادل کیا ہونا چاہیے اور کون سی عمر میں بچوں کو کھانے پینے کی صحت مند عادات سکھانی چاہیں؟
ذ۔بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے اس میں کوئی شک نہیں۔یہ جو کولا اور دوسرے ڈرنکس ہیں ان میں دو خطرناک چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک چینی بہت ذیادہ ہوتی ہے دوسرے اس میں تیزاب ہوتا ہے۔اس سے موٹاپا پیدا ہونے کا خطرہ ذیادہ ہے۔میرے خیال میں بچوں کو کولا وغیرہ بالکل نہیں دینا چاہیے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تھوڑا بہت کولڈ ڈرنک ہو تو شربت یا جوس دیں۔
ع۔کولا سے مکمل پرہیز کروانا چاہیے۔
ذ۔بالکل ٹھیک یہاں تک کہ وہ تھوڑے سے بڑے ہو جائیں۔
ع۔لیکن یہ آسان نہیں ہے
ذ جی ظاہر ہے جب بڑے خود بیٹھ کر پی رہے ہوںتو پھر بچے بھی دیکھتے ہیں لیکن آپ یہ سوچیں کہ بچوں کی صحت کا معاملہ ہے۔اس میں کیفین بھی ہوتی ہے جو آپکی نیند اڑاتی ہے۔ اس سے بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اس لیے بچوں کو اس سے بچا کر رکھنا چاہیے۔
ع۔ ایک مختصر سوال ہے جو فیس بک پہ آیا ہے کہ آپ کولا لائٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ذ۔جہاں تک بچوں کا سوال ہے تو بچوں کو ایسی چیز سے دور رکھنا چاہیے۔اس میں بھی کیفین اور تیزاب ہوتا ہے جو کہ دانتوں کے لیے نقصان دہ ہے۔اس کے علاوہ اس میں اور بھی مضر صحت مصنوعی چیزیں ہوتی ہیں۔اس لیے شوگر کے مریضوں کو اپنی عادات بدلنی ہوں گی۔
ع۔ ہم آپ سے کھانے کے بارے میںبھی پوچھیں گے پہلے ایک کال لیتے ہیںڈاکٹر صاحب
لسلام و علیکم میں نے پوچھنا تھا کہ اگر کسی کو شوگر ہو جائے تو کون سی چیز نہیں لینی چاہیے جو شوگر بڑھاتی ہے؟
ایک اور سوال ہے کہ اگر بچے چھوٹی عمر میں ہی زیادہ وزن کے ہوں تو کیا انکو بھی شوگر ہو سکتی ہے؟
ذ۔ جی بہت اچھا سوا ل کیا ہے آپ نے ۔اس میں تین باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ایک ہوتی ہے پروٹین ایک کاربو ہائیدریٹس اور چکنائی۔یہ ہر قسم کے کھانوں میں ہوتی ہیں۔شوگر کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ کاربو ہائیڈریٹس والے کھانے کم کریں۔یہ ایسے کھانے ہیں جن سے بلڈ شوگر تیزی سے بڑھتی ہے۔طاہر ہے کہ ہر چینی والی چیز۔ان میں کیک ،بسکٹ جوس ہر ایسی چیز شامل ہے۔ اس کے علاوہ سفید بریڈ ،پاستہ یا ابلے ہوئے چاول،ان سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان سے بھی شوگربڑہتی ہے۔ان کو چاہیے کہ پروٹین والی خوراک یعنی مچھلی مرغی وغیرہ لیں اس کے ساتھ سبزی اور فروٹ بھی لیں۔دالیں اور موٹے دانے والی بریڈ بھی بہتر ہے۔اس طرح کی چیزیں ان کے لیے بہتر ہیں۔جو بچوں والی بات ہے تو یہ ایک بہت اہم موضوع ہے کیونکہ پوری دنیا میں بچوں کا موٹاپا بڑھ رہا ہے۔جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ موٹاپے کے ساتھ شوگر بھی ہوتی ہے۔یہ ہو سکتا ہے کہ شوگر نمبر ٢ جو کہ ذیادہ تر پچیس تیس سال تک یاذیادہ عمر والے لوگوں کو ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آگے جو سال آرہا ہے اس میں نوجوانوں کو بھی شوگر کی بیمار ہو۔
ع۔ جی ظاہر ہے یہ موروثی بھی ہو سکتی ہے۔کئی لوگ جو کہ کافی وزنی ہوتے ہیں اور مزے مزے کے کھانے بھی کھاتے ہیں۔یہ لوگ ورزش بھی نہیں کرتے اس کے باوجود ان کو شوگر نہیں ہوتی۔جبکہ کچھ لوگ ہوتے ہیں احتیاط بھی کرتے ہیں ان کو پھر بھی ہو جاتی ہے۔اس میں موروثی فیکٹر کارفرما ہوتا ہے۔اگرآپکی فیملی میں کسی اور کو بھی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ آپ کو بھی خطرہ ہے۔اس صورت میں لوگوں کو ذیادہ
احتیاط کرنی چاہیے۔
غزالہ نسیم