شاعر اور رکشہ ڈرائیور
ہے ابھی گردشِ حالات سے جینا دو بھر
وقت یکساں نہیں رہتا ہے گذر جائے گا
شاعر نے یہ شعر شاید ان لوگوں کے لیے کہا ہوگا جو اوائل عمری میں حالات کی سختی کا شکار ہوتے ہیں۔ وقت یکساں نہیں رہتا، گزر جاتا ہے، غم کے بعد خوشی، مصائب و آلام کے بعد راحت بھی ملتی ہے۔ لیکن 68 برس کی عمر میں کسی کے حالات خراب ہوجائیں تو اچھے وقت کے انتظار میں وہ حرماں نصیب بھلا کتنا جیے گا ?
یہ قصہ ہے کراچی میں مقیم سید محسن رضا نقوی المعروف محشر لکھنوی کا جن کا انٹرویو 8
جولائی 2012 کو ایک مقامی روزنامے میں شائع ہوا۔ محشر لکھنی غزل کے شاعر ہیں، اس کے علاوہ منقبت، نوحے اور قطہ نگاری کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
شورش کاشمیری کے روزنامہ چٹان میں ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے محشر لکھنوی ان دنوں
شہر کراچی میں گردش حالات کا شکار ہو کر رات کی تاریکی میں رکشہ چلانے پر مجبور ہیں۔ 1957 میں شورش کاشمیری یہ جان کر کہ محشر کے جد امجد مولانا سید دلدار علی غفران تھے، آبدیدہ ہوگئے تھے، پھر جو بن پڑا، شورش نے ان کے لیے کیا۔ آغا شورش کاشمیری کی بات پرانی ہوئی، اب محشر ایک “شورش زدہ” شہر میں مقیم ہیں جہاں امن و امان کی درگوں صورتحال کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی گزر اوقات روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ محشر کے والد مولانا حکیم سید محمد یوسف علیم لکھن کے کئی مدارس میں معلم رہے۔
تقسیم کے بعد محشر لکھنی نے کراچی میں بیرا گیری کی، ٹرینوں میں لیمن سوڈا کی بوتلیں فروخت کیں، بندر روڈ پر مونگ پھلیاں بیچتے رہے۔ ساحل سمندر پر میٹھا پانی فروخت کرتے رہے، برسوں مکانوں پر رنگ روغن کا کام بھی کرتے رہے۔ کئی دہائیں گزریں جب محشر لکھنی عباس ٹان کراچی کے ایک شکستہ مکان میں مقیم تھے، ان کا ننھا سا بیٹا ایک موذی مرض کا شکار ہوا، جو کچھ کماتے، اس کے علاج پر اٹھ جایا کرتا تھا۔ ایک روز اس معصوم نے دم دے دیا۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں تھا، ایک دوست سے ادھار لیا اور بیٹے کی لاش کو چھاتی سے لگا کر سہراب گوٹھ میں اس زمانے میں واقع بچوں کے ایک قبرسان پہنچ گئے۔ خود قبر کھودی اور بیٹے کو سپرد خاک کیا۔ آج اس قبرستان کی جگہ ایک پیٹرول پمپ بن چکا ہے۔ محشر جب بھی وہاں سے گزرتے ہیں تو وہ ننھی سی قبر ان کے سینے میں شق ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک احوال احسان دانش نے بھی اپنی خودنوشت میں “دو لاشیں” کے باب میں بیان کیا ہے جب ان کے ایک انتہائی غریب مزدور دوست کے دونوں بچوں کا انتقال ہوگیا تھا اور وہ ان کے لاشے سائکل کے کیریئر پر باندھ کر قبرستان پہنچا تھا۔
گردش حالات کے سبب محشر لکھنی کا دل بھی تباہ ہے ہمت بھی پست ہے لیکن خوداری کا عالم یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے روا دار نہیں ہیں۔ محشر، فیڈرل بی ایریا میں واقع کیفے پیالہ کے سامنے ایک غریب پرور بستی میں مقیم ہیں۔ انٹرویو لینے والے صاحب کہ محمد احمد انصاری کہلاتے ہیں، راقم الحروف کے دوستوں میں سے ہیں اور محشر صاحب کی قیام گاہ سے واقف ہیں۔
محشر لکھنی کی اہلیہ کے دل کے تین آپریشن ہوچکیہیں، کچھ عرصہ قبل ان کے داماد سید مختار عباس کو قتل کردیا گیا تھا، بیوہ بیٹی کہ کینسر کی مریضہ ہے، پانچ بچوں کو ساتھ لیے انہی کیگھر آگئی تھی۔ اس ہوشربا مہنگائی کے زمانے میں دو کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھائے محشر لکھنوی کیسے جیتے ہیں، کس طرح جیے جاتے ہیں، ان کی بسر اوقات کا احوال جان کر اہل دل یقننا دل گرفتہ ہوجائیں گے۔ لکھن کے ایک معزز سادات گھرانے سے تعلق رکھنے والا خودار انسان آج شہر میں میں محض اس لیے “بھیس” بدل کر رکشہ چلانے پر مجبور پے کہ کہیں ان کے شناسا انہیں اس حال میں دیکھ کر ملول نہ ہوں۔ غم حسین میں نوحے پڑھنے والا ایک بوڑھا انسان آج اپنی تقدیر پر نوحہ کناں ہے۔ اس کی ہر شام، اب شام غریباں ہے۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
میرے وطن عزیز کا حال ہی میں معزول قرار پانے والا، اسی لاکھ کے سوٹ پہنے والا شخص، دو روز قبل اس شان سے اپنے آبائی شہر ٹرین میں بیٹھ کر چلا تھا کہ اس کے لیے چئرمین ریلوے کا “سیلون” مخصوص کیا گیا جس میں عملی طور پر فائیو اسٹار کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔کسی کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی، رستے میں کئی چھوٹے شہروں کی ٹرینیں روکی گئیں جہاں گرمی سے کئی مسافر جاں بلب ہوئے۔
خیر اندیش
راشد اشرف