مادری زبان اردور اردو پڑھانے کی افادیت کے موضوع پر اوسلو کے ریکا ہوٹل میں دو روزہ کانفرنس کا انقاد ہوا۔اس کے منتظمین میںنارویجن اساتذہ اورمحکمہ تعلیم کے افراد شامل تھے۔جبکہ مندوبین میں اردو نارویجن کے علاوہ ڈنمارک اور سویڈن کے افراد نے بھی شرکت کی۔یہ کانفرنس اپنے اعلیٰ انتظام، موضوعات اور ورکشاپ کے اعتبار سے بہت موثر اور کامیاب رہی۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے دور سے آنے والے مندوبین کی رہائش کا انتظام بھی اسی ہوٹل میں کیا گیا تھا۔کانفرنس کے منتظمین میں تھوئین اسکول کے پرنسپل اساتذہ اور پاکستانی اساتذہ نیر خان، رخسانہ اور شبانہ شامل تھیں۔
پہلے روز حاضرین کے لیے پاکستانی کلچر ل لڈی اور بھنگڑا بچوں نے پیش کیا۔جبکہ دوسرے روز ماں کے موضوع پر کلاسیکل گیت پیش کیا گیا۔ لیکچرز میں کمپیوٹر کے پاور پوائنٹ پروگرام،اور ڈاکیمنٹری فلمز کے ذریعے موضوعات کو اجاگر کیا گیا۔سنیل لونا،نیر خان ،پروفیسر نسیم ریاض،اور رخسانہ نے مادری زبان سکھانے کے طریقوں اور اسکی سماجی اور تعلیمی اہمیت پر روشنی ڈالی۔سنیل لونا نے مادری زبان کے سکھانے کے داران پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بتایا۔پروفیسر نسیم نے کلاس میں بچوں کو زباندانی پر مہارت کے آسان طریقے واضع کیے۔رخسانہ نے کلاس روم ٹیچنگ میتھڈ میں فلم کے ذریعے بچوں کو صوتی اچرات استعمال کر کے زبان سکھانے کے بارے میں بتایا۔انہوں نے اپنے لیکچر کو فلم کے ذریعے واضع کیا۔ نیر خان نے بچوں کو کہانی کے ذریعے زبان سکھانے کا طریقہ بتایا۔نیر خان تصویری کہانی کو اپنے نرم آواز میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا۔وہاں موجود شرکاء نے مقررین سے سوالات بھی کیے۔پہلے روز اردو کانفرنس کے اختتام پر ایک پاکستانی شاعرہ رابعہ روحی نے اپنا کلام بھی پیش کیا۔کانفرنس کے وقفے میں شرکایء کی تواضع کھانیے اور ظہرانے سے کی گئی۔ کانفرنس ہال کے باہر اردو کتب کی نمائش بھی کی گئی۔ کئی شرکاء نے یہ کتابیں بھی بک کروائیں۔
دوسرے روز کانفرنس میں ماں کے موجوع پر کلاسیکی موسیقی کی دھن پر ایک پنجابی گیت پیش کیا گیا۔ اسے سن کر گلوکار کے ساتھ ساتھ حاضرین بھی اشک بار ہو گئے۔ گیت کا مرکزی خیال تھا کہ بیٹے خواہ کیسے بھی ہوں مائیں ان کے عیبوں پر پردہ ڈالتی ہیں۔اسکے بعد کانفرنس کی باجابظہ کاروائی کی کگئی۔ژرکاء کو مادری زبان سکھانے کے طریقوں اور مسائل پر مبنی موضوعات پر گروپ ورک کرنے کے لیے دیا گیا۔ سب نے ہوٹل کے لائونج میں گروپ ورک کیا۔ ایک گھنٹے کے بعد شرکاء نے اپنی کارکدگی گروپ لیڈر کے ذریعے کانفرنس ہال میں پیش کی۔حاضرین نے سوالات کیے۔اسکے بعد ایک نارویجن خاتون مقرر نے تارکین وطن بچون کے نفسیاتی مسائل اور ان سے نبٹنے کے طریقے بتائے۔حاضرین نے ان سے سوال و جواب کیے۔اسطرح یہ دوروزہ کانفرنس اختتام کو پہنچی۔
مجموعی طور پر یہ کانفرنس نہائیت کامیاب رہی۔یہ کانفرنس تپتے صحرا میں بارش کی بوند ثابت ہوئی۔اسکا انعقاد دوسرے یورپین ممالک میں بھی کیا جائے گا۔ مزید معلومات جاننے کے لیے آپ اسکے ویب ایڈرس پر بھی جا کر مادری زبان سے متعلق مختلف معلومات اور خبریں پڑھ سکتے ہیں۔