قسط اول: دلی تا بمبئی
نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ذی الحجہ 1254 ھ (مطابق 2 مارچ 1839) دو شنبہ کے دن شام کے وقت ہمارا قافلہ دلی سے روانہ ہوا۔ سب سے پہلے عالم ربانی شیخ الفقہا سید المحدثین حضرت مولانا محمد اسحاق سے شرف ملاقات حاصل کیا اور دعا کے خواستگار ہوئے پھر درگاہ حضرات خواجہ نظام الدین اولیا رحم اللہ میں پہنچے اور اپنے والد بزرگوار کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ بعدہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اوشی رحم اللہ کے آستانے پر حاضر ہوئے اور رات وہیں بسر کی۔ دوسرے دن قطب صاحب سے چلے اور گڑگانواں، پانودی، ریواڑی، شاہ جہان پور، بڑور، کوٹ پتلی، بہابرہ، منوہر پور اور اچرول سے ہوتے ہوئے 28 ذی الحجہ کو جے پور پہنچے۔ 4 محرم الحرام 1255 ھ کو جے پور سے چلے اور بگرو، ڈوڈو اور کشن گڈھ سے ہوتے ہوئے 7 محرم کو دار الخیر اجمیر میں وارد ہوئے۔ یہاں سب سے پہلے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ کے مزار پرانوار کی زیارت کی۔ درگاہ کی رعنائی اور اس مسجد کی دلربائی کا کیا حال بیان کروں جو روضے کے پاس واقع ہے۔ اجمیر سے چل کر نصیر آباد چھانی، بہناہ، انگوچھہ، بھنیسرہ، بھیل واڑ اور سونواناں پر منزلیں کرتے ہوئے 18 محرم کو چتوڑ پہنچے۔ یہ ریاست اودے پور میں واقع ہے۔ یہاں کا قلعہ سارے ہندوستان میں مشہور ہے۔ چتوڑ کا خربوزہ گفتار محبوب سے زیادہ شیریں ہوتا ہے۔
نصیر آباد سے چتوڑ تک اگرچہ جگہ جگہ انگریزوں کے بنوائے ہوئے ڈاک بنگلے موجود ہیں لیکن منتظمین کی عقل کو کیا کہیے کہ سب بنگلے آبادی سے دور ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کے قریب کوئی سایہ دار درخت ہے نہ کوئی چشمہ یا کنواں۔ اسی لئے ان ڈاک بنگلوں میں ٹھہرنا انسانوں اور جانوروں کے لئے شدید تکلیف کا باعث ہوتا ہے خصوصا موسم گرما میں۔
چتوڑ میں ایک دن قیام کر کے نیمہ ہیڑہ، نیمچ، ملہار گڑھ، مندسور، کچنارہ اور جاورہ سے ہوتے ہوئے 3 صفر المظفر کو رتلام پہنچے۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پاک پانی شروط احناف کے مطابق مذکور مقامات پر بالکل دستیاب نہ تھا۔ اس لئے اضطراری حالت میں امام مالک کے فتوے پر عمل کرنا پڑا۔ اب آگے اس سے بھی زیادہ پانی کی نایابی سننے میں آ رہی ہے، معلوم نہیں اب کیا مسلک اختیار کرنا پڑے۔
رتلام سے چل کر مہی، کررراود، بھگوڑا اور ایک غیر آباد منزل پر ایک ایک دن قیام کرتے ہوئے 9 صفر کو دوحد پہنچے۔ یہ جگہ گوالیار کے مضافات میں ہے، شہر کے باہر ایک چشمے کے کنارے قیام کیا۔ اس جگہ کو دوحد اس لئے کہتے ہیں کہ یہ مالوہ اور گجرات کے درمیان حد فاضل ہے۔ عالمگیر بادشاہ اسی جگہ پیدا ہوئے تھے۔ شاہ جہاں بادشاہ نے اسی شہر کو آباد کیا ہے۔
دوحد سے چل کر جے کوٹ، پانیا اور ادرواڑہ پر منزلیں کرتے ہوئے 13 صفر کو گودرہ پہنچے۔ یہ ریاست گوالیار میں واقع ہے۔ رتلام سے گودرہ تک کا تمام علاقہ بے آب و گیاہ خارستان ہے۔ ہوا بھی وہاں سے بچ کر نکلتی ہے۔ اس سے گزرتے ہوئے جو اذیت ہوتی ہے، وہ حد بیاں میں نہیں آ سکتی۔
گودرہ کو خیرباد کہہ کر صفر کو کلول پہنچے۔ گودرہ سے کلول تک سارا راستہ اتنا شاداب و پر بہار ہے کہ احاطہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔ قسم قسم کے درختوں کی کثرت، رنگ رنگ کے پھولوں کی فراوانی اور طائران خوش الحان کی نغمہ سنجی کے سبب یہ علاقہ نہایت عمدہ تفریح گاہ ہے۔
صفر کا دن کلول میں گزارا اور صفر کو جرود میں۔ جرود سے چل کر صفر کو بڑودہ پہنچے۔ نواب حسام الدین حسین خان نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے دولت خانے میں اتارا ور مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
آٹھ دن بڑودہ میں قیام کے بعد آگے چلے اور ایننو اور نکاریہ سے ہوتے ہوئے صفر کو بڑوچ پہنچے۔ دریائے نربدا اس کے قریب بہتا ہے۔ اس مقام تک سمندر کا مد و جزر اثر انداز ہوتا ہے۔ آج کل سمندر میں طوفان آیا ہوا ہے۔ اس لئے نربدا کا پانی کھاری ہو گیا ہے۔ برشگال اور سرما میں اس کا پانی میٹھا ہوتا ہے۔ صفر کو بڑوچ سے رخصت ہو کر دریائے نربدا عبور کر کے اکلسیر میں قیام کیا۔ یکم ربیع الاول کو چوکی کے مقام پر ٹھہرے اور ربیع الاول کو بندرگاہ سورت پہنے۔
سورت ایک بڑا اور آباد شہر ہے لیکن اس کے گلی کوچے تنگ ہیں، آب و ہوا سرد و مرطوب ہے۔ شہر کے اکثر لوگ دریائے تاپتی کے کنارے پر آباد ہیں۔ اس دریا میں بھی دریائے نربدا کی طرح مد و جزر ہوتا رہتا ہے۔ جس زمانے میں ہم سورت پہنچے دریائی سفر کا زمانہ گزر چکا تھا، اس لئے دریا کے راستے بمبئی جانا ممکن نہ تھا۔ لامحالہ خشکی کا راستہ اختیار کرنا پڑا لیکن جب بارش کا آغاز ہوا تو خشکی کا راستہ بھی بند ہو گیا کیونکہ اس علاقے کی مٹی گیلی ہو کر دلدل بن جاتی ہے۔
ابھی ہمارے وطن کے حساب سے موسم برسات شروع ہونے میں ایک مہینہ باقی ہے لیکن یہاں موسلا دھار بارش ہو رہی ہے، بجلی چمک رہی ہے اور بادل گرج رہے ہیں۔ چند روز کے بعد بارش تھم گئی اور کچھ کچھ راستہ کھلا۔ میں ربیع الثانی کو چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اہل شہر اور اپنے کچھ ساتھیوں نے اس وقت سفر شروع کرنے سے منع کیا کہ اگر راستے میں بارش نے آ لیا تو چلنا دوبھر ہو جائے گا لیکن میں جنون عشق میں مبتلا تھا، جلد از جلد دیار حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پہنچنے کی تمنا تھی۔ اس لئے ان لوگوں کا مشورہ قبول نہ کیا اور توکل بخدا سورت سے چل پڑا۔
ربیع الثانی کو سورت سے سات کوس چل کر لاج پور میں منزل کی۔ ربیع الثانی کو لاج پور سے نوساری پہنچے۔ یہ ایک بہت بڑا قصبہ ہے۔ نوساری میں ایک دن قیام کے بعد بلساڑ اور پاڑی نام میں منزلیں کرتے ہوئے ربیع الثانی کو دمن پہنچے۔ دمن دو ہیں ایک خرد اور ایک کلاں۔ دونوں ساحل بحر محیط پر مشرق کی جانب واقع ہیں۔ ہمارا قیام دمن خرد میں ہوا۔ سہ پہر کو میں چند آدمیوں کے ساتھ کشتی کے ذریعہ دمن کلاں گیا تا کہ کچھ تفریح ہو جائے۔ دونوں دمن شاہ پرتگال کی حکومت میں شامل ہیں۔
دمن سے ربیع الثانی کو چلے اور عمر گاں، دینو، مرمد، دنتورا، بسی اور گھڑ بندر سے ہوتے ہوئے ربیع الثانی کو دوپہر کے وقت مہائم پہنچے۔ مہائم سے بمبئی صرف تین کوس کے فاصلے پر ہے۔ اسے باب بمبئی کہتے ہیں۔ میں سارے قافلے کو مہائم میں چھوڑ کر مکان کی تلاش میں بمبئی چلا گیا۔ قلعہ اور شہر کے مکانوں میں صحن نہیں ہیں جبکہ میں وسیع صحن والے مکان میں رہنے کا عادی ہوں۔ شہر سے بالکل قریب وہاں ایک عمدہ مکان جس کے ساتھ دلکشا باغ بھی ہے منتخب کیا۔ تین دن مکان کا فرش فروش درست کرنے میں صرف ہوئے، اس اثنا میں ہمارا قیام مہائم میں رہا۔
تین دن کے بعد ہم نئے مکان میں اٹھ آئے۔ شہر بمبئی کا کیا بیاں کروں، اس کے بازار کشادہ ہیں اور ہر قسم کی جنس اور دوسری چیزیں افراط کے ساتھ دستیاب ہیں۔ آب و ہوا اچھی نہیں۔ باقی ہر خوبی موجود ہے، ہر مذہب اور قوم کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔ کوئی تجارت کے لئے آیا ہے، کوئی سیاحت کے لئے کوئی کاریگر ہے کوئی شوق حرم میں ٹھہرا ہوا ہے۔ بمبئی کے اصلی باشندے کوکنی اور پارسی ہیں۔ کوکنی فقہ شافعی کے پابند ہیں۔
شہر بمبئی میں سب سے پہلے جامع مسجد بمبئی کے خطیب معلم ابراہیم سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرت موت کے ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ البتہ ان کا مولد و منشا سورت ہے، پانچ سال سے بمبئی میں مقیم ہیں۔ ان کے علاوہ شہر کے دوسرے معززین سے بھی ملاقات کے مواقع حاصل ہوئے۔ بمبئی کے مکانات کی بنا لکڑی پر ہے۔ یہاں ابر و باراں کے جو طوفان آتے رہتے ہیں، انہیں لکڑی کے سوا کوئی دوسری چیز برداشت نہیں کر سکتی۔
شاہ جہاں آباد (دلی) سے جس دن سے ہم چلے ہیں، ہر ہر شہر اور علاقے کے لوگوں میں عادات و اطوار اور معاشرت کا اختلاف مشاہدہ کیا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دلی سے یہاں تک ہر منزل اور مقام پر تانبے اور چاندی کے مختلف سکے چل رہے ہیں۔ وزن اور ناپ کے پیمانے بھی مختلف ہیں۔ ایک جگہ کا سکہ دوسری جگہ نہیں چلتا اور ایک جگہ کا پیمانہ دوسری جگہ کے پیمانہ کے برابر نہیں۔
بمبئی میں ایک عجیب جانور دیار عرب سے لایا گیا ہے۔ اس کی گردن اونٹ جیسی ہے اور سینگ اور پاں گائے جیسے، رنگ چیتے جیسا اور جسم پر داغ بھی اسی کی کھال جیسے ہیں۔ عرب لوگ اسے زرافہ کہتے ہیں اور اہل عجم “اشترگا پلنگ” یہ جانور اللہ تعالی کی عجیب مخلوق ہے۔
سازگار موسم کے انتظار میں تقریبا چار ماہ تک بمبئی میں قیام کرنا پڑا۔ بالآخر آہ سحر گاہی کے اثر سے باد مراد چلی اور وقت آ گیا کہ ہم بلا خوف و خطر بحر سفر کریں۔
باقی آئندہ
بمبئی سے بحری سفر شروع ہوتا ہے۔جو اگلی قسط میں پیش کیا جائے گا۔ ان شا اللہ