تارکین وطن ڈنمارک پر قبضہ جما لیں گے؟
رپورٹ : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن
یہ سوال اپنے آپ میں اگرچہ ایک مذاق سمجھا جا سکتا ہے لیکن، غیر ملکیوں مخالف ، انتہائی دائیں بازو کی ڈینش پیپلز پارٹی اس کی تحقیق کرانا چاہتی ہے کہ مستقبل میں واقعی ایسا ہو سکتا ہے ۔
وزیر انٹگریشن، وینسٹرا پارٹی کے سرن پنڈ اس بات کی تحقیق کریں گے کہ، چالیس سال میں کون سے اور کس طرح کے غیر ملکی یہاں ڈنمارک میں ہوں گے اور وہ ڈینش ثقافت میں کس طرح دکھائی دیں گے ۔
وزیر انٹگریشن اور ان کی وزارت کے اعلی عہدیداروں کو یہ بتانا ہو گا کہ چالیس سال کے بعد تارکین وطن کا کلچر، ڈنمارک کے لیے کیا معنی رکھے گا ۔ بدیگر الفاظ اس کا اثر ڈنمارک کی اپنی ثقافت پر کیا ہو گا ۔
یہ بات، جیسا کہ روزنامہ بی ٹی نے لکھا ہے، ڈینش پیپلز پارٹی نے اس معاہدے میں شامل کرا لی ہے جو حکومت اور اس کی حامی، غیر ملکیوں مخالف ڈینش پیپلز پارٹی اور کرسچیئن ڈیموکریٹ پارٹی کے درمیان، جرائم کار غیر ملکیوں کی ملک بدری کے لیے آسانی پیدا کرنے کی خاطر طے پا چکا ہے ۔
ڈینش پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ مطالبہ اس لیے کیا گیا ہے کہ پارٹی سمجھتی ہے کہ ملکی آبادی میں اضافے کی پیشرفت کچھ یوں جاری ہے کہ غیر یورپی ممالک کے تارکین وطن کی تعداد، سنہ دو ہزار پچاس تک بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔
انٹگریشن سے متعلقہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کے رکن، ڈینش پیپلز پارٹی کے مارٹن ھنرکسن نے کہا ہے کہ ہم اس معاملے پر بحث کرانا چاہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں آبادی میں تارکین وطن کے اضافے اور اس طرح کی پیشرفت سے کیا اثرات مرتب ہونگے اور تارکین وطن کی سماج میں انٹگریشن کے ساتھ ساتھ ڈینش اقدار و ثقافت کے فروغ و تحفظ کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہوگی ۔
انہوں نے ڈینش محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سنہ دو ہزار نو میں ڈنمارک میں غیر ملکیوں کی شرح چھ اعشاریہ چھ فیصد تھی جو کہ ، تین لاکھ اکسٹھ ہزار بنتی ہے ۔
ڈینش محکمہ شماریات کے مطابق، سنہ دو ہزار پچاس میں غیر ملکیوں کی شرح دوگنا ہو کر بارہ اعشارہ ایک فیصد تک پہنچ جائے گی ۔ بدیگر الفاظ سنہ دوہزار پچاس میں غیر ملکیوں کی تعداد، سات لاکھ اٹھائیس ہزار تک جا پہنچے گی ۔ اسی بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سنہ دو ہزار پچاس میں، غیر ڈینش پس منظر رکھنے والوں کی شرح ، کل ملا کر سولہ اعشاریہ چھ فیصد ہو جائے گی ۔
مارٹن ھنرکسن کے مطابق، غیر ملکیوں کی تعداد میں اضافے کی اس پیشرفت پر انہیں تشویش ہے اور ڈر ہے کہ مستقبل میں ڈنمارک ایک منقسم ثقافت والا ملک نہ بن جائے اور کہیں کثیر الثقافتی سماج جنم نہ لے لے ۔ انہوں نے کہا کہ ( غیر ملکیوں کی وجہ سے ) ہمارے ہاں ابھی ہی سے متبادل سماج سر اٹھا چکا ہے لیکن ہمیں ہر حال میں مستقبل میں اپنی ثقافتی سر بلندی بحال رکھنی ہے ۔ کیونکہ اس پر ہماری معاشری فلاح و بہبود کا انحصار ہے ۔
وزیر انٹگریشن، سرن پنڈ اور ان کی وزارت کے اعلی عہدیدار اب جو سروے کریں گے ان کے تحت یہ اندازہ لگایا جا ئے گا کہ مستقبل میں کس طرح کے غیر ملکی ڈنمارک آئیں گے اور وہ اپنے ساتھ کیا روایات و اقدار لائیں گے اور کس طرح اپنے آپ کو ڈینش سماج و ثقافت کا حصہ بنائیں گے ۔
اسی کے ساتھ ہی وزارت انٹگریشن اس کا بھی پتہ لگائے گی کہ بڑے بڑے اور قدرے بڑے ڈینش شہروں اور قصبوں میں تارکین وطن کا اثر و رسوخ یا حیثیت ، مستقبل میں کیا ہو گی ۔
ڈینش قومی خررساں ایجنسی ریٹزا کے مطابق، اگرچہ اس سروے کے کرائے جانے کے لیے ابھی کوئی تاریخ متعین نہیں کی گئی لیکن آثار بتاتے میں کہ اس میں دیر بھی نہیں کی جائے گی ۔
تمام جملہ اشاعتی حقوق بحق اردو ہمعصر ڈاٹ ڈی کے محفوظ ہیں