وہ کون تھی؟
شازیہ عندلیب
میں ہر ویک اینڈ پر اپنے گھر سے کچھ فرلانگ پر ایک جنگل میں واک کرنے جایا کرتی تھی۔میں کبھی کبھی گھر کے کسی فرد یا دوست کو بھی لے جایا کرتی تھی۔میں ایک کالج میں لیکچرارہوں۔اس کے علاوہ ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ بھی کر رہی ہوں۔یہ ادارہ ہسپتال سے ملحقہ ہے۔تحقیق کا مو ضوع ہے ،کوڈ آف یوتھ، اس پر اسی فیصد کام مکمل ہو چکا تھا مگر باقی کام مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ایک گتھی تھی جو سلجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔میں ہفتے میں دو دن یہاں کام کرتی ہوں،کبھی کبھی کام ذیادہ ہو تو ویک اینڈ بھی یہاں گزر جاتا ہے۔تحقیقی کام ہے ہی اسقدر دقیق ۔یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جو اس کام سے واقف ہیں۔اس دوران میں ریسرچ سینٹر کے پاس واقع اپنے پرانے گھر میں ہی قیام کرتی ہوں۔یہ مضافاتی قصبہ شہر سے پنتالیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ویک اینڈ پر کام سے فارغ ہو کر جنگل کی سیر کو جانا میرا محبوب مشغلہ ہے۔یہ ایک پر لطف تجربہ ہوتا ہے۔اس جنگل میں مختلف خوش الحان قسم کے جنگلی پرندوں کی بولیاں اور گیت ایک عجب سرور دیتے ہیں۔پھر کبھی کبھی کوئی ہرنی بھی اپنے بچوں یا ہرن کے ساتھ قلانچیں بھرتی نظر آ جاتی ہے تو سیر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔پھر اس پر ڈوبتے سورج کا حسین نظارہ۔گرمیوں میں تو ناروے کے سورج کا سائز بھی کسی تھال جتنا ہوتا ہے جو گھنٹوں افق کے کنارے نہ جانے کس کے انتظار میں ٹھہرا رہتا ہے۔میں انہی نظاروں اور بہاروں میں مصروف تھی کہ یہ عجیب واقعہ پیش آ گیا۔ ایک روز میری ملاقات ایک نارویجن عورت سے ہو گئی۔وہ ایک دلکش مگر پر اسرار عورت تھی۔ان دنوں میں نئی نئی اپنی سفرنامہ کی کتاب سے فارغ ہوئی تھی اور اسکی مختلف تقریبات میں مصروف رہتی تھی۔اردو زبان میں ہونے کی وجہ سے اسکی صرف تین ہزار کاپیاں ہی فروخت ہو سکیںلیکن اسکے بعد اسکا ترجمہ انگلش اور نارویجن زبانوں میںکیا تو حیرت انگیز طور پر اسکی نارویجن ایڈیشن کی کاپیاں انگلش کی نسبت ذیادہ فروخت ہوئیں۔جبکہ میرا اندازہ تھا کہ انگلش ایڈیشن ذیادہ فروخت ہو گا۔بہر حال یہ ثابت ہو گیا کہ نارویجن لوگ سیاحت کے ذیادہ شائق ہیں۔اس کتاب سے فارغ ہو کر اب میں اس تحقیق میں مصروف تھی۔اس کی بنیاد ایک مفروضہ پہ رکھی گئی تھی۔وہ مفروضہ یہ تھا کہ ہر مسئلہ اور سسٹم کے حل کے لیے ایک کوڈ ہوتا ہے۔اگر وہ کوڈ دریافت ہو جائے تو وہ مسئلہ اور سسٹم حل ہو جاتا ہے۔اسی کو پیش نظر رکھ کر میں نے تحقیقی ادارے کو اپلائی کیا۔خوشقستی سے اس کو مناسب وظیفہ کے ساتھ پاس کر لیا گیا۔حالانکہ اس موضوع پر پہلے بھی فلوریڈا ور ٹوکیو میں تحقیقی ہو چکی ہے۔مگر میری ریسرچ اس لحاظ سے منفرد تھی کہ اس میں نفسیاتی اور روحانی پہلو بھی تھا۔خیر جنگل کی واک میرے اندر ایک نئی توانائی ذخیرہ کر دیتی۔اس جنگل کے ساتھ ساتھ کھیتوں کا بھی ایک طویل سلسلہ بھی تھا۔ان میں عام طور سے اجناس کی کاشت کی جاتی ہے۔ان میں کہیں کہیں خوبصورت گھر اور غلے کے گودام بھی بنے ہوئے ہیں۔میں جس روز واک پہ تنہا نکلی مجھے ایک دلکش خدوخال کی مالک چھریرے بدن والی نارویجن عورت نظر آئی۔یہ جمعہ کی ایک خوبصورت شام تھی۔سورج اپنی الوداعی سنہری کرنوں سے زمین کو نہلا رہا تھا۔اس عورت نے آسمانی رنگ کا ٹریک سوٹ پہن رکھا تھا۔اس کے ساتھ اسکے سنہری بالوں میں ہلکا آسمانی ہیر بینڈ اسے بے حد دلکش بنا رہا تھا۔جبکہ اس نے اپنے دراز بال پونی کی شکل میں باندھ رکھے تھے۔وہ میرے قریب آ کر بڑے دلکش انداز میں مسکرائی۔اس کی آنکھوں میں ایک میٹھی سی مسحور کن چمک تھی جو تخاطب کو اپنے حصار میں لے لیتی۔وہ مجھے ہائی کہہ کر میرے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی۔ہم دونوں کچی پگڈنڈی پر تقریباً بھاگتی چلی گئیں۔دانے دار موٹی ریت کے ذرے ہمارے قدموں تلے پھسل کر ہمیں آگے ہی آگے دھکیل رہے تھے۔مجھے اس کے ساتھ بھاگنے سے ایک نئی اور انوکھی توانائی کاحساس ہوا۔پھر نسبتاًہموار راستے پر پہنچ کر میں نے اسکا نام پوچھا۔اسکا نام مریانے جونز تھا اور اسکا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔جبکہ اسکا شوہر ایک مچھیرا تھا۔وہ مچھلیاں پولینڈ ایکسپورٹ کرتا تھا۔پہلے روز اسی قدر تعارف ہوا پھر وہ جنگل میں بنے اپنے خوبصورت ولا میں چلی گئی۔اس کے بعد کئی دنوں تک وہ مجھے نظر نہ آئی۔اس کے بعد تیسرے ویک اینڈ پہ میری اس سے ملاقات ہوئی۔ ان چھوٹی چھوٹی ملاقاتوں میں اس کے اور اس کے شوہر کے بارے میں کافی کچھ جان چکی تھی۔وہ اور اسکا شوہر مائیکل خاصے مہم جو تھے۔اسے کشتی چلانے کا بہت شوق تھا اکثر ہفتے کی صبح قریبی دریا میں کشتی رانی کرنے جاتی۔اس کے پاس بوٹ ڈرائیونگ لائیسنس بھی تھا۔مگر ان سب باتوں میں سے سب سے ذیادہ حیران کن بات اسکی قابل رشک صحت تھی۔وہ جب بھی ملتی ایک نیا ٹریک سوٹ پہنے ہوتی ۔مگر گلے میں ہمیشہ ہرن کی کھال جیسا چتکبرا برائون سا اسکارف ہوتا ۔یہ اسکی بڑی بری برائون آنکھوں سے بہت میچ کرتا تھا۔اس کی وجہ سے اسکی آنکھیں اور بھی دلکش معلوم ہوتی تھیں۔اسکی آنکھیں غیر معمولی طور پر پر کشش تھیں۔حالانکہ نارویجن وں کی آنکھیں عام طور سے نیلی یا سبز ہوتی ہیں،لیکن ان بھوری آنکھوں میں ایک بلا کی کشش تھی۔جب ہوا اسکے بدن کو چھو کے گزرتی تو اس کے آس پاس ایک مسحور کن خوشبو سی پھیل جاتی۔اس نے بتایا کہ اسے مچھلی کھانا بہت پسند ہے شائید اسی لیے اس نے ایک مچھیرے سے شادی کر لی تھی۔اب مہینے میں ایک دو مرتبہ ضرور اس سے ملاقات ہو جاتی۔لیکن عجیب بات یہ تھی کہ یہ ملاقات صرف اسی وقت ہوتی جب میں تنہا واک پہ جاتی ۔ایک ہفتہ کی شام کو وہ ایک اور لڑکی کے ساتھ آ رہی تھی۔شائید اسکی کزن یا بہن تھی۔مارتھا بھی ایک خوبصورت لڑکی تھی مگر اتنی بھی نہیں تھی جتنی کہ مریانے تھی۔وہ دونوں بھی میرے ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں۔ مارتھا نے بتایا کہ وہ بھی اکثر اپنی نانی کے ساتھ ہفتے کی صبح بوٹنگ پہ جاتی ہے۔اچھا میں نے پوچھا کہاں رہتی ہے تمہاری نانی؟کہنے لگی اسی جنگل میں۔میں نے ماریانے سے پوچھا تو کیا تمہارے ساتھ اسکی نانی بھی رہتی ہے۔تب اس نے جو کہا وہ حیران کن تھا۔مریانے بولی میں ہی اسکی نانی ہوں ارے نہیں تو تم تو تیس بتیس برس کی لگتی ہومیں نے حیرانی سے پوچھا۔یہ سن کر اس کا کھنکتا ہوا قہقہ فضا میں بکھر گیا۔ اس کے گھر کو جانے والی پگڈنڈی آ چکی تھی ۔وہ اس جانب چلی گئی اور مجھے خدا حافظ کہا۔وہ کئی سوال میرے ذہن میں چھوڑ کر اپنے گھر والی سڑک پہ مڑ گئی۔ میں نے اس سمت دیکھا جس جانب وہ مڑی تھی۔اس کے آگے آگے ہرن کے بچے جا رہے تھے مگر ہرنی نظر نہیں آ رہی تھی۔عام طور پر ہرن کے بچے اپنی ماں کے بغیر نہیں جاتے مگر ۔۔۔مجھے یاد آیا کہ میں خیر اس کے آگے آگے ہرن کے بچوں کو دیکھتی ہوں۔مجھے ایک دم سے وہ عورت بہت پر اسرار سی لگنے لگی۔پھر وہ بہت دنوں تک نظر نہ آئی۔مگر میں جب بھی گھنے جنگل میں سے گزرتی مجھے اسکے بدن سے پھوٹنے والی خوشبو آتی۔ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ کہیں آس پاس ہی ہو۔جب بہت دن گزر گئے میں اس سے ملاقات کے لیے بے چین سی رہنے لگی۔
ایک روز بالآخر وہ آ ہی گئی۔میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ میں اس سے اسکی خوبصورتی اور صحت کا راز ضرور پوچھوں گی۔اس نے جو کچھ بتایا وہ مجھے چونکا دینے کے لیے بہت تھا۔ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ وہ غلظ بیانی سے کام لے رہی ہے۔لیکن حالات اور شواہد اسکی سچائی کی گواہی دے رہے تھے۔ویسے بھی نارویجن لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔اس نے بتایا کہ اگلے برس وہ پچاسی برس کی ہو جائے گی۔لیکن وہ تو دیکھنے میں پینتیس چھتیس برس سے ذیادہ کی نہیں لگ رہی تھی۔پچاسی برس یعنی میری امی سے بھی کئی برس بڑی۔بلکہ پورے بیس برس اف ۔۔میں حیرت زدہ ہو کر اپنی امی اور مریانے کی صحت کا موازنہ کرنے لگی۔کاش میری امی بھی ا کی طرح میرے ساتھ جوگنگ کریں۔میں نے بڑی حسرت سے سوچا۔میری آنکھوں میں امی کا دوپٹے میں لپٹا پاکیزہ وجود گھوم گیا۔ایک روز جب میں نے اپنی اس منہ زور خواہش کا اظہار امی سے واک کے دوران کر دیا تو انہوں نے مجھے ایسی جگر پاش اورغصیلی نگاہوں سے گھورا جیسے میں نے ان سے جوگنگ کی نہیں بھنگڑا ڈالنے کی فرمائش کر دی ہو۔آخر اس میں اس قدر غصہ کرنے کی کیا بات ہے وہ بھی تو انسان ہے میں نے امی کو سمجھانے کے لیے کہا تو پھر انہوں نے جو تاویلات اور وعیدیں سنائیںسے لکھنے کی تاب نہیں۔
آخر ایک روز وہ کئی ہفتوں کے بعد مجھے مریانے جنگل میں مل ہی گئی۔میں نے بڑی بے چینی سے اس سے اسکی صحت کے راز کے بار میں پوچھا۔اس نے جو کچھ بتایا وہ چونکا دینے والا تھا۔اسکی صحت کا راز یوگا سومنگ اور ایک خاص دریا کی مچھلی میں تھا۔یہ خاص مچھلی قطب شمالی کے ایک دور افتادہ شہر کرستیانسن کے دو رنگی جھیل کی ہے۔ اس میں چوبیس گھنٹوں میں دو رنگ کے بھنور بنتے ہیں۔ ہلکا نیلا اور سبز۔اس جھیل کی مچھلیاں اس قدر تند لہروں کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے بہت طاقتور اعصاب کی مالک ہوتی ہیں۔اس لیے جو شخص بھی یہ مچھلی باقائدگی سے کھائے وہ بھی اس کی طرح چست اور چاک و چوبند ہو جاتا ہے۔بعد میں تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ بات سچ تھی۔میری ریسرچ کی بہت سی گتھیاں سلجھ گئی تھیں مگر ماریانے کافی دنوں سے نظر نہیں آئی تھی۔میں اسے دیکھنے کے لیے بے چین تھی۔وہ تو میرے لیے توانائی اور کامیابی کا پیغام تھی۔ جب وہ بہت دنوں تک مجھے نہ ملی میں نے خود اسکے گھر جانے کا ارادہ کر لیا۔اسکا گھر گھنے جنگل کے بیچ میں کسی عالیشان محل کی طرح کھڑا تھا۔وہاں اسکی خوبصورت نئے ماڈل کی سبز بوٹ بھی کھڑی تھی۔میرے بیل کرنے پر اندر سے ایک ادھیڑ عمر مگر توانا شخص نکلا ۔میں نے اس سے مریانے کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔میں نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔تب وہ بولا کہ اسے تو مرے ہوئے دو برس گزر چکے ہیں۔
مم مگر ۔۔۔میں تو اسے تت تین ہفتے ۔۔۔پہلے جنگل میں ملی تھی۔
یہ سن کر بوڑھا بولا نہیں نہیں وہ اب یہاں نہیں ہے۔یہ کہ کر بوڑھے نے دروازہ جلدی سے بند کر دیا۔ شائید اسے بہت جلدی تھی۔مگر اسکا جو ہاتھ اس نے پیچھے کیا ہوا تھا اس میں ایک سالم زندہ مچھلی تڑپ رہی تھی۔ یہ منظر یدکھ کر میں مبہوت رہ گئی۔پھر نہائیت تیزی سے گھنے جنگل سے باہر نکلی۔جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے دروازے کے پاس ہرنی کے بچے نظر آئے اور پھر وہی مخصوص مسحور کن خوشبو۔ آہ مریانے ۔۔۔ہی میں کہہ کر رہ گئی۔میں جلدی جلدی سے ڈھلوانی راستہ عبور کر کے بلندی کی جانب آگئی۔ یہاں سے اس کے گھر کا پچھلا حصہ صاف نظر آتا تھا۔میں نے بڑے تاسف سے وہاں دیکھا تو میں یہ دیکھ کر چونک گئی کہ وہی بوڑھا آدمی ایک ہرنی کو زندہ مچھلی کھلا رہا تھا جو وہ بڑی رغبت سے کھا رہی تھی۔میں اب بھی اس راستے سے گزرتی ہوں مگر مجھے مریانے کبھی نظر نہیں آئی۔ میری ریسرچ کی کا جواب تو مل گیا تھا وہ گتھی سلجھ گئی تھی مگر ایک اور گتھی الجھ چکی تھی۔ نہ جانے وہ کون تھی؟؟؟