تاریخ ادب کے ایک رومان کا قصہ
تحریر راشد اشرف
کتابوں کے اتوار بازار میں فٹ پاتھ کے کونے میں چپ چاپ پڑا تاریخ کا ایک گم گشتہ رومان نظر آیا۔ سو آج کی رودار بازار، اسی کے گرد گھومتی ہے۔
اردو اکیڈمی سندھ کی شائع کردہ ۔۔ قمر زمانی بیگم کی پیشانی پر درج ہے تاریخ ادب میں اپنی نوعیت کا پہلا رومان۔علامہ نیاز فتحپوری کی انوکھی داستان معاشقہ۔151 صفحات پر مشتمل یہ کتاب 1979 میں ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے مرتب کی تھی۔ اسے انہوں نے تاریخ ادب کا ایک قیمتی صحیفہ قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر فرمان فتحپوری بیان کرتے ہیں کہ قمر زمانی بیگم انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں پیدا ہوئی تھیں۔ ادب اور صحافت، دونوں میں انہیں تیزی سے شہرت نصیب ہوئی اور وہ اس زمانے کے اہل مشاہیر ادب کی نظروں میں آگئیں۔ 1915 سے 1920 تک کا زمانہ ان کی شہرت کی بلندیوں کا زمانہ کہلایا تھا۔قمر زمانی بیگم سے علامہ نیاز فتحپوری کی داستان محبت کا ذکر مجنوں گورکھپوری اور مالک رام نے بھی اپنے مضامین میں کیا ہے۔ مجنوں صاحب کا مضمون یکم جولائی 1964 میں علی گڑھ کے جریدے ہماری زبان میں جبکہ مالک رام کا مضمون جولائی 1966 میں دہلی کے جریدے آج کل میں شائع ہوا۔ڈاکٹر فرمان فتحپوری کا دعوی ہے کہ ان دونوں حضرات نے سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اپنے مضامین تحریر کیے ،اور دونوں کو اصل بات کا چنداں علم نہ تھا۔ نیاز فتحپوری کے خطوط زیر تذکرہ کتاب کی شکل میں پہلی مرتبہ شائع ہو کر منظر عام پر آئے تھے۔یہ خطوط علامہ نیاز فتحپوری کے عزیز دوست ڈاکٹر ضیا عباس ہاشمی کے پاس محفوظ تھے۔نیاز صاحب کراچی آئے تو عباس ہاشمی نے انہیں ان کے حوالے کردیا۔ڈاکٹر فرمان فتحپوری نے نیاز فتحپوری سے ان خطوط کی اشاعت پر اصرار کیا تھا۔نیاز صاحب راضی ہوئے اور انہوں نے اکتوبر 1966 کے نگار کے پرچے میں یہ اشتہار شائع کیا
پچاس سال کا ایک سربستہ راز
قمر زمانی کی نقاب کشائی
یعنی نیاز کی زندگی کا ایک پوشیدہ ورق
خود حضرت نیاز کے قلم سے
تاریخ ادب میں اپنی نوعیت کا پہلا رومان
جس کا تقاضا پچاس برس سے ہورہا تھا اور اب پورا ہوا
نہایت نفیس کاغذ پر مجلد مع تصاویرزیر ترتیب ہے
لیکن ہوا یہ کہ نیاز فتحپوری ان خطوط کو اپنی زندگی میں مرتب کر ہی نہ سکے۔ زیر تذکرہ کتاب کی اشاعت کے بعد یہ عقدہ کھلتا ہے کہ کتاب کے عنوان سے حقیقت کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ عنوان سے یہ ظاہرہوتا ہے جیسے یہ معاشقہ علامہ نیاز فتحپوری اور بیگم قمر زمانی کے درمیان رہا ہوگا لیکن درحقیقت یہ شاہ نظام الدین دلگیر مدیر نقاد آگرہ(وفات: 6 جون 1934) اور نیاز فتحپوری کی تخلیق کردہ ایک فرضی خاتون قمر زمانی بیگم کے مابین لکھے گئے خطوط کا شاخسانہ تھا۔نیاز فتحپوری ہی قمر زمانی بیگم بن کر دلگیر کو خطوط لکھاکرتے تھے۔ جوش ملیح آبادی، یادوں کی برات میں دلگیر کے بارے میں لکھتے ہیں
رسالہ نقاد کے مدیرخاندان مشائخ کے چشم و چراغ ،دراز قامت، دراز ریش، دراز دست، کوتا ہ ہمت، بخل پسند، پر کیسہ، تہی دست، کثیر السواد، قلیل الرماد، بکراہت میزبان، عقاب پنجہ، کبوتر مزاج،خانقاہ کی محراب میں قطب الاقطاب، حسینوں کی جناب میں پارہ سیماب، کیا کیا خصوصیات بیان کروں شاہ صاحب کے۔وہ اس قدر تلملا جاتے تھے حسینوں کو دیکھ کر کہ ان کے حواس بجا نہ رہتے تھے۔راہ گلی میں ان کے ساتھ چلنا پھرنا بے حد خطرناک تھا اس لیے کہ جب کسی حسین چہرے پر ان کی نگاہ پڑ جاتی وہ اپنے ساتھ کی پسلیوں پر اس قدر زور سے کہنی مارتے تھے کہ اس بیچارے کے منہ سے چیخ نکل جاتی تھی۔اسی طرح جب وہ جھوم جھوم کر دیوانہ وار اپنا کلام سناتے تھے زور زور سے داد دینے والے کی ران پر اپنا پہاڑ سا ہاتھ اس قدر زور سے مارے تھے کہ وہ غریب اچھل جایا کرتا تھا۔ (یادوں کی برات۔طبع اول۔1980)
اس داستان کا آغاز 3 نومبر 1916 کو قمر زنامی بیگم کے بنام دلگیر اس خط سے ہوا جس میں قمر زمانی نے انہیں ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر کوئی دکھیا آپ سے ملنا چاہے تو کیونکر ملے کیونکہ آپ بڑے آدمی ہیں۔شاعر ہیں اور ایک مشہور شخص ہیں۔ آپ کی بلا سے مگر نہیں۔اگر آپ سچ مچ ویسا ہی دردمند دل پہلو میں رکھتے ہیں جیسا کہ آپ کے کلام سے ظاہر ہے تو یقین ہے آپ ازراہ کنیز نوازی کوئی تدبیر ملاقات کی ضرور نکالیں گے۔میری سمجھ میں تو ایک بات آئی ہے کہ اگر آپ نومبر کی شب دہلی تشریف لا کر احمد بھائی کے کسی بالا خانے میں قیام کریں ۔وہاں یا تو میں خود حاضر ہوں گی یا میری خادمہ پیاری میرا خط لے کر رات دس بجے کو حاضر ہوں گی۔
شاہ دلگیر یہ خط ملتے ہی قمر زمانی سے ملنے آگرہ سے دہلی روانہ ہوگئے۔ ضیا عباس ہاشمی اور نیاز فتحپوری کو فکر لاحق ہوئی کہ اب قمر زمانی کہاں سے پیدا کی جائے۔ ضیا عباس ہاشمی کے ایک عزیز محمود احمد نامی تھے جو چھریرے بدن کے خوبصورت نوجوان تھے۔لہذا انہیں زنانہ لباس پہنا کر دلگیر سے ملاقات کے لیے بھیجا گیا۔ محمود احمد تمام وقت نقاب ڈالے بیٹھے رہے۔اس ملاقات نے شاہ دلگیر کو قمر زمانی کے عشق میں بری طرح مبتلا کردیا اور یوں دونوں کے مابین خط و کتابت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران نیاز فتحپوری نے قمر زمانی کے نام سے نقاد میں مضامین بھیجنے شروع کردیے جنہیں دلگیر نہایت اہتمام سے شائع کرتے رہے۔
۔۔ قمر زمانی بیگم سے شاہ نظام الدین دلگیر کے خطوط کے چند ٹکڑے ملاحظہ ہوں:
آج صبح بہت بیتاب و پریشان تھا۔ خدا جانے کیوں قلب کے ٹکڑے اڑے جاتے تھے کہ اسی حالت کرب و اضطراب میں محبت نامہ ملا جس کو پڑھ کر رو دیا۔ اب تک رو رہا ہوں اور جب تک یہ خط پیش نظر رہے گا، روئے جاں گا، الامان۔میں اور تم سے روٹھ جاں ۔میں اور تم سے خفا ہوجاں ۔تمام دنیا ملنے پر بھی ممکن نہیں۔ارے توبہ۔ یہ آپ نے معافی کیوں چاہی۔ میں تباہ ہوگیا، کھو گیا۔کہیں کا نہ رہا۔ اس خط پر ہاتھ جوڑتا ہوں ، منتیں کرتاہوں۔ قدم چھوتا ہوں، اف اپنی لازوال محبت کا واسطہ معاف کردو۔ ( اٹھارہ اپریل 1917 )
—————–
پیاری! بہت ستاتی ہو۔ خطوں کے جواب میں اتنی دیر۔ کل نہ مرا تو آج مر جاں گا۔ آپ یہ سن کر ہنسیں اور میں روں کہ 23 اپریل کو جب آپ کا خط نہ ملا تو طبیعت میں الجھن پیدا ہوئی،دل کی وحشت بڑھی اور مجھ سے کسی عنوان ضبط نہ ہوسکا۔سیدھا اسٹیشن پہنچا، ٹکٹ لیا اور روانہ ہوگیا۔ راستے میں یہ معلوم ہوتا تھا کہ قلب میں پنکھے لگے ہوئے ہیں۔خیر،رویار محبوب کے شوق میں رات کٹ گئی۔ صبح ہوتے ہی بریلی میں تھا ۔دن بھر اس پیارے شہر کی گلیوں کی خاک چھانتا پھرا۔پہلے ذخیرہ گیا۔ دروازے کو بوسہ دیا، سجدہ کیا اور پھر الٹے پاں واپس آیا۔پھر اس تلاش میں ہر جگہ گیا کہ کسی طرح قمر منزل کا پتہ چل جائے تو وہیں پاں توڑ کے بیٹھ رہوں مگر تیزہ بختی ساتھ تھی، ناکامی ہوئی۔آپ کا کھوج نہ لگا۔ آہ! مجھے اس دل کی بیتابی نے مارا۔(26 اپریل 1917)
——–
ادھر قمر زمانی کے جوابی خطوط میں بھی کچھ اس قسم کے جذبات کا اظہار کیا جاتا تھا جنہیں پڑھنے کے بعد دلگیر اپنا ہوش مکمل طور پر کھو بیٹھتے تھے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
کنیز نواز۔عذر گناہ اور پھر وہ بھی میری زبان سے ، مجھے شرمندہ اور آپ کو اور زیادہ دلگیر بنا دے گا۔ آپ فرمائیے معذرت کروںیا نہ کروں۔مجھے آپ کے سب خط مل گئے۔ایک اس مزار دل نے تڑپا دیا۔ کیاکہوں کہ یہاں کیا گزر گئی۔ کاش میں گرد راہ ہوکر قدموں سے لپٹتی ، نثار ہوتی،آنکھوں کا فرش بچھاتی۔خدا کے لیے خفا نہ ہوجانا۔ آپ کے سر کی قسم جنوری کو آپ کے تینوں خط ایک ساتھ ملے جو بریلی سے لکھے گئے تھے۔ سر پیٹ لیا۔جی چاہتا تھا کہ کپڑے پھاڑ کر باہر نکل جاں اور اپنے دلگرفتہ دلگیر کو جس طرح بنے، منا لاں۔ لیکن وقت نکل چکا تھا اور ہم سے روٹھ کر جانے والے جا چکے تھے۔مگر نہیں میں مایوس نہیں ہوں منالوں گی اور آپ من جائیں گے۔ ہمیں منانا آتا ہے۔ ہاں اگر تکلیف نہ ہو تو نقاد کے سارے پرچے مجھے بھجوا دیجیے۔یہ نہ پوچھیے کہ کیوں منگواتی ہو۔(17جنوری1918 )
——-
بلآخر مدیر نقاد شاہ نظام الدین دلگیر کو یہ یقین ہوگیا کہ قمر زمانی بیگم کے روپ میں کوئی مرد چھپا ہے جو انہیں عرصہ دو برس سے بیوقوف بنارہا ہے۔ 19 فروری 1918 کو قمر زمانی بیگم کے آخری خط کے ساتھ یہ سلسلہ تمام ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ دلگیر حقیقت کھلنے کے بعد بجھے بجھے رہنے لگے اور کچھ دنوں بعد نقاد بھی ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
—————-
اتوار بازار سے ملنے والی ایک دوسری کتاب قمر یورش کے تحریر کردہ خاکوں پر مشتمل ہے۔ یادوں کے اجالے جنوری 1999 میں شائع ہوئی تھی۔ قمر یورش نے اس کتاب میں فیض احمد فیض، کشور ناہید، اشرف سلیم، شعیب بھٹی، ایرک اسپرین، عبدالغفور شاہد، وسیم گوہر، حکیم عبدالقدوس اور ظفر محمود اعوان کے خاکے شامل کیے ہیں۔ یادوں کے اجالے سے قبل قمر یورش کی خاکوں پر مشتمل تین کتابیں یاران میکدہ، بقائے دوام اور جانے پہچانے شائع ہوچکی تھیں۔قمر یورش کے بارے میں خالد احمد نے کہا تھا” اگر آپ ” یاران میکدہ” کے مصنف قمر یورش کو نہیں جانتے تو یہ آپ کی خوش بختی ہے اور اگر قمر یورش سے آپ کا تعارف ان کی کتاب ” یاران میکدہ” کے حوالے سے ہے تو سمجھیں کہ آپ کی پانچوں گھی میں ہیں۔ اگر آپ نے قمر یورش کو اردو بولتے نہیں ستا اور صرف یہ کتاب ہی آپ کی نظر سے گزر رہی ہے تو جان لیں کہ آپ کی پانچوں انگلیاں تو پہلے ہی گھی میں تھی اب خدا کے فضل و کرم سے آپ کا سر بھی کڑاہی میں جا پہنچا ہے۔ ”
قمر یورش کے افسانوں کے بارے میں مولانا اشفاق خان لکھتے ہیں۔ یہ مزدور ادیب قمر یورش کی کہانی ہے۔ میں اس لائق تو ہر گز نہیں ہوں کہ اس سچے اور پیارے سیدھے سادھے اور عظیم انسان کے بارے میں اس کی عظمت کا احاطہ کر سکوں البتہ یہ چند سطور میں اپنے دلی تاثرات کی ترجمانی کرکے ایک گونہ ٹھنڈک محسوس کرتا ہوں۔”
قمر یورش نے اپنی معروف کتاب شاہی قلعہ سے جیل تک میں اپنی اسیری کے دنوں کی روداد لکھی ہے جس نے ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام پایا۔ انہوں نے تقریبا” اکیس کتابیں لکھیں جس میں خاکے ، افسانے، آپ بیتی وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ان کی کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں جلیانوالہ باغ ، میرا بچپن ، رزق کی تلاش ، بازار حسن، ، خانہ بدوش ، شہلا ، یاران میکدہ، بقادوام ، جانے پہچانے لوگ ، شاہی قلعہ سے جل تک، قمر یورش کے افسانے ، قمریورش کی کہانیاں، قمر یورش کے مضامین اور وڈا انسان۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں ۔
————–
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں کا تعارف یہ ہے:
قمر زمانی بیگم۔ علامہ نیاز فتحپوری کی انوکھی داستان معاشقہ
مرتب: ڈاکٹر فرمان فتحپوری۔ناشر: اردو اکیڈمی سندھ۔کراچی
سن اشاعت: 1979
نقوش۔شخصیت نمبر۔حصہ دوم
سن اشاعت: 1956 ۔ صفحات700
یادوں کے اجالے۔خاکوں کا مجموعہ
مصنف: قمر یورش۔ناشر: یورش اکیڈمی۔لاہور
سن اشاعت: 1999
—
—