جادو ایک بیماری
ہر بیماری کے علاج کی تاکید
تحریر،غازی عزیز مبارکپوری
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا ہر مرض کی دوا ہے۔جب کسی بیماری کی صحیح دوا مل جائے تو اللہ عزو جل کی اجازت اور حکم سے وہ مرض دور ہو جاتا ہے۔ابو ہریرہ رضیاللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم ۖنے فرمایااللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے ساتھ اسکی شفاء بھی نازل کی ہے۔جس نے اسے جانا وہ جان گیا جس نے اسے نہیں جانا وہ لاعلم رہ گیا۔یہ اک طے شدہ بات ہے کہ شیطان انسان کو انسانی اور نفسانی ہر طرح کی تکلیف پہنچاتاہے۔عربی میں اسکو ،الصرع ، یا جن کا چھو جانا کہتے ہیں۔ہم ذیل میں اس آسیب زدگی کے علاج کے بعض طریقوںپر بحث کریں گے۔لیکن اس سلسلے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ جنوں کی آسیب زدگی کا علاج مشروع ہے اور انبیائوصالحین کی سنت رہی ہے۔چنانچہ امام بن تیمیہ رحمہ علیہ فرماتے ہیںبنی آدم کے اوپر سے شیطان کو دفع کرنا ہمیشہ سے انبیاء اور صالحین کا شیوہ رہا ہے۔مسیح علیہ السلام اور ہمارے نبی ایسا کرتے رہے ہیں۔
غیر شرعی علاج کے طریقوں کو پنانے کی ممانعت
بعض لوگ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ علاج کے مذکورہ غیر شرعی طریقے بحالت اضطرار حرام چیزوں سے جواز علاج کی قبیل سے ہیں،لیکن یہ بہت بڑی خطاء ہے۔حق اور سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں کوئی شفاء نہیں رکھی۔امام بخاری نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تعلیقاًروائیت کی ہے۔
٧٦٨ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے ان میں تمہارے لیے کوئی شفاء نہیں رکھی۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ نے حرام چیزوں سے علاج کے لیے بصراحت منع فرمایا ہے۔
چنانچہ ابو دردا رضی اللہ عنہ سے آپ ۖ کا یہ فرمان منقول ہے ۔
٧٨٥ اللہ تعالیٰ نے مرض اور علاج دونوں کو نازل فرمایا ہے اور ہر مرض کا علاج بھی بنایا ہے۔لہٰذا تم علاج کیا کرو مگر حرام چیزوں سے علاج نہ کیا کرو۔
لیکن یہ واضع رہے کہ علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔جہاں تک حرام چیزوں مثلاًشراب یا مردار وغیرہ سے علاج کا جواز ہے اس کے لیے جنوں کے لیے ذبیحہ وغیرہ کے ذریعے علاج پر استدلال قطعاًدرست نہیںکیونکہ صحیح حدیث میں ممانعت وارد ہونے کے باوجود حرام چیزوں سے علاج کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف مشہور ہے لیکن کفر و شرک سے علاج کے حرام ہونے کے متعلق علماء کے مابین کسی قسم کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ سب کے نزدیک ان چیزوں سے علاج ناجائز ہے۔
رسو ل اللہ کا آسیب زدوں پر سے جنوں کو بھگانا
رسول اللہ کا ایسا کرنا مروی ہے ذیل میںہم اس ضمن میں کچھ واقعات نقل کرتے ہیں۔
ام ابان بنت الوازع بن زارع بن عامرالعبیدی نے اپنے والد سے روائیت کی ہے کہ میرے دادا زارع رسول اللہ ۖ کے پاس گئے۔ان کے ساتھ انکا مجنوں بیٹا یا بھانجا بھی تھا۔میرے دادا نے بیان کیا کہ جب ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ساتھ میرا بیٹا یا بھانجا بھی ہے جو مجنوں ہے۔میں اسے آپ کے پاس لایا ہوں تاکہ آپ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لائو ،پس میں اسے آپ کے پاس لے گیا۔اس وقت آپ کسی وفد کے درمیان تشریف فرماء تھے۔میں نے اسے وہاں سے ہٹا کر اس کے سفر والے کپڑے اتار دیے اور خوبصورت لباس زیب تن کر دیا۔پھر اسکا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے فرما یاسے میرے قریب کرو اور اسکی پشت میری طرف کر دو۔بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس کے اوپر اور نیچے کے کپڑے سرکاء کر اسکی پیٹھ آپ کے مارنے کے لیے آپ کی جانب کر دی۔میں نے مارنے کے دوران آپ کی بغلوں کی سفید دیکھی یعنی رسول اللہ نے کافی ہاتھ اٹھا کر بچے کو پیٹا تھا۔آپ ۖ فرما رہے تھے باہر نکل اللہ کے دشمن،باہر نکل اللہ کے دشمن۔پس میں نے اس بچے کو اس حال میں پایا کہ اس کی نظریں بالکل درست ہو چکی تھیں۔اور پہلے جیسی شکائیت نہیں رہی تھی۔میں نے اس بچے کو رسول اللہ ۖ کی خدمت میں بٹھایا اور آپ ۖ نے دعا فرمائی اور اس کے چہرے کا مسح فرمایا۔۔الخ۔٥٩٩
یعلی بن مرع سے مروی ہے ،فرماتے ہیںکہ میں نے رسول اللہ کے تین ایسے واقعات دیکھے ہیںجنہیں نہ مجھ سے پہلے کسی نے دیکھا اور نہ ہی کوئی میرے بعد ان کو دیکھ پایا۔میں آپ ۖ کے ساتھ سفر پہ نکلا۔ہم ایک راستہ سے گزرے وہاں ایک عورت کو بیٹھے پایا۔وہ ایک کم سن بچے کے ساتھ وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔اس عورت نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس بچے کو بلاء نے آن گھیرا ہے۔اس کی وجہ سے ہم سب پر بھی بلاء نازل ہو گئی ہے۔ایک دن میں نہ جانے کتنی بار اس بچے پر اس بلاء کا حملہ ہوتا ہے۔یعنی دورہ پڑتا ہے۔آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لائو۔پس اس عورت نے بچے کو آپ اور آپ کے پالان کے درمیان بٹھا دیا۔آپ ۖ نے تین بار اس بچے کے منہ پر پھونکا۔اور فرمایا اللہ کے نام سے میں اللہ کا بندہ ہوںاللہ کے دشمن دور ہو جا۔پھر آپ نے بچہ اس عورت کو لوٹا دیا۔اور فرمایا واپسی میں ہمیں اسی جگہ ملنا۔اور ہمیں اسکی کیفیت بتانا کہ کیا ہوا؟ بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم چلے گئے۔اور جب لوٹے تو ہم نے اس عورت کواس جگہ بیٹھے ہوئے پایا۔اس کے ساتھ تین بکریاں بھی تھیں۔آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تیرے بچے کاکیا ہوا۔اس عورت نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے آپ ۖ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔اس وقت تک ہم نے اس پر کوئی چیز نہیں محسوس کی۔یہ کہ کر اس نے ان بکریوں کو کھینچا اور آپکی خدمت میں پیش کی۔آپ ۖ نے مجھ سے فرمایا اترو اور ان میں سے ایک بکری لے لو اور باقی اس عورت کو لوٹا دو۔٦٧٧