کاغذی شیر کی اصطلاح تو آپ نے سنی ہو گی بلکہ دیکھ بھی رکھے ہوں گے۔وطن عزیز میں کاغذی شیروں کی کمی نہیں۔میدان سیاست ان سے بھرا پڑا ہے۔کاغذی بیویاں بھی انہی کی رشتہ دار ہیں مگر ان سے ذیادہ خطر ناک ہیں۔کاغذی شیر تو آپ کو ہر جگہ ٹی وی اسکرین پہ سوٹ بوٹ میں جگر مگر کرتے نظر آئیں گے۔مگر کاغذی بیویاں تو نظر بھی نہیں آتیں۔اس کے باوجود یہ نقلی بیگمات اصلی بیگمات سے ذیادہ خطر ناک ہوتی ہیں۔کاغذی شیر اگر غریب لوگوں پر حکمرانی کرتے ہیں تو یہ غریب شوہروں پر حکمرانی کرتی ہیں۔کاغذی شیر اگر عوام کو لوٹتے ہیں تو یہ شوہر اور سسرال کو لوٹتی ہیں۔کچھ لوگوں کے نزدیک تو ازدواجی بندھن بھی کاغذ کا رشتہ ہے۔اگر ایک کاغذ کا ٹکڑا یہ رشتہ بناتا ہے تو دوسرا ٹکڑا اسے توڑ بھی دیتا ہے۔کچھ لوگ کاغذ کے اسی جوڑ توڑ سے اپنے مستقبل کی کچی دیواریں تعمیر کرتے رہتے ہیں۔
بیرون ملک میں بسنے والے لوگ کاغذی بیویوں سے خوب واقف ہیں۔کسی زمانے میں یورپین ممالک میں سیٹ ہونے کے لیے یہ طریقہ بہت مقبول تھا۔اس طریقہ کار کے مطابق یورپ کے کسی ملک میں سیٹ ہونے کے خواہش مند افراد کاغذوں میں کسی یورپین عورت سے شادی کر لیتے ہیں۔ پھر اس کاغذی رشتہ کو ایک خاص مدت تک معاہدے کے مطابق برقرار رکھا جاتا ہے۔اس مدت کے دوران کاغذی شوہر تہہ شدہ مخصوص ماہانہ رقم اس عورت کو ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔عموماً یہ مدت پانچ تا سات برس تک محیط ہوتی ہے۔بعض اوقات یہ مدت قید میں بھی بدل جاتی ہے۔ اگر کاغذی شادی کا بھانڈہ پھوٹ جائے اور نقلی شوہر قانون کی گرفت میں آ جائے تو۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب یہ شوہر اپنی اس بیوی کی نافرمانی کرے یا اسے رقم وقت پر نہ دے یا پھر مقر ر کردہ رقم سے ذیادہ نہ دے۔ اس کام کے لیے کسی شریف عورت کا ملنا مشکل ہے۔یہ عورتیں ایسے لوگوں کو الو بھی بناتی ہیں اور بلیک میل بھی کرتی ہیں۔کاغذی بیوی اس شخص کے ساتھ نہیں بلکہ عموماًتنہا یا اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہتی ہے۔انکے اخراجات اتنے ذیادہ ہوتے ہیں کہ ایک ماہانہ خرچہ میں انکا گزارہ مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے نقلی شوہر سے مہینے میں کاخراجات کا مطالبہ بھی کر سکتی ہے۔ وہ اسے ہر حال میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔بصورت دیگر وہ اسے پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی بھی دیتی ہے۔ایسا کام کرنے والے افراد عام طور سے ذیادہ پڑہے لکھے تو ہوتے نہیں۔اس لیے کام بھی انہیں مزدوری یا صفائی وغیرہ کا ہی ملتا ہے۔انکا مقصد اپنے گھر والوں کو پیسہ کماک ربھیجنا ہوتا ہے۔کچھ لوگ اس طریقے سے ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔مگر ایسا کاغذی بیوی کی غلامی کے بعد ہی نصیب ہوتا ہے۔پکڑے جانے کا خوف اور انجان عورت کاخوف زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔پھر یہ معاہدہ بھی در حقیقت تو شادی ہی ہوتا ہے۔مگر ناجائز۔ اسی طرح اس طریقے سے حاصل کی گئی کمائی بھی ناجائز ہی ہوتی ہے۔اس طریقہ کار سے عزت صحت اور سکون سب سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔پھر اگر ایسی عورت کی اولاد ہو جائے تو اسے بھی علیحدگی کے بعد خرچہ دینا پڑتا ہے۔ چاہے اسکا باپ کوئی بھی ہو ۔جرمانہ تو نقلی شوہر کو ہی دینا پڑتا ہے۔بعض اوقات یہ خرچہ تاحیات سے دینا پڑتا ہے۔اس طریقے سے سیٹ ہونے کے لیے انسان کا بے ضمیر ہونا ضروری ہے۔اس کے باوجود یہ طریقہ کار ایک عرصہ تک مقبول رہا ہے۔
بعض رشتہ دار اور جاننے والے بھی بیرون ملک محض سیٹ ہونے کے لیے ہی شادی کرتے ہیں۔انکا مقصد ویزہ حاصل کر کے اپنا رستہ پکڑنا ہوتا ہے۔بیرون ملک آپ کو ایسی بیشمار مثالیں ملیں گی۔اسی طرح کے ایک کزن میرج کیس میں اس جوڑے کی تین اولادیں ہو گئیں۔شوہر اس رشتہ پر راضی نہ تھا مگر ویزے کی خاطر چپ سادھے رکھی۔جیسے ہی ویزہ لگا اس شخص کے طور طریقے ہی بدل گئے۔ہمیشہ خوش اخلاق نظر آنے والا اور رن مرید شوہر بیوی کا دشمن بن گیا۔پہلے تو اسنے اپنی بیوی سے کہا کہ تم پاکستان جا کر رہو اور میرے والدین کی خدمت کرو۔ ویسے بھی یہاں کا ماحول اچھا نہیں۔البتہ خود اسی خراب ماحول میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بیوی کا خاندان وہیں آباد تھا۔ اس نے جانے سے انکار کردیا۔ وہ علیحدگی نہیں چاہتی تھی ۔ مگر اس نے زبردستی اسے علیحدہ کیا۔اس آمی نے دوسری شادی کی ۔ مجبوراً اس عورت کو بھی دوسری شادی کرنا پڑی۔دونوں نے اپنا اپنا گھر تو بسا لیا مگر نقصان تو بچوں کا ہوا۔جن کا باپ ان سے جدا ہو گیا۔
ادھر یہ واقعہ پیش آیا تو دوسری جانب پاکستان میں بچوں اور بیوی نے مل کر اپنے باپ کا نکاح ایک غیر ملکی عورت سے کروا دیا، تاکہ وہ انہیں باہر کی کمائی کھلائے۔ انکے عزیزوں کا کہنا تھا کہ بیوی نے غیر ملکی ویزے کی خاطر شوہر کو بیچ دیا۔ صرف یورپ میں ہی نہیں لکہ عرب ممالک میں بھی لوگ ویزے کی خاطر مقامی عورتوں سے شادیاں کرتے ہیں۔ویزہ حاصل کرنے کے بعدبیویوں سے بد سلوکی کرتے ہیں۔ایک ایسے ہی کیس میں ایک پاکستانی نے ایک اردن کی عورت سے شادی کی۔ وہ عورت شاہ ی ہسپتال میں نرس تھی۔جب ویزہ لگ گیا تو خود اردن میں رہ گیا۔ جبکہ بیوی اور بیٹے کو پاکستان بوڑھی ماں کی خدمت کے لیے بھیج دیا۔اس عورت کو عربی اور انگلش آتی تھی۔اردو کچھ کچھ سمجھتی تھی مگر پڑہنی نہیں آتی تھی۔اس نے اپنے بچے کو ایک مقامی انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا۔اس کی ساس کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ اس کی شوہر سے فون پر بات ہوتی رہتی تھی۔ جبکہ اس کا شوہر ماں کو خط بھی لکھتا تھا۔وہ اردو پڑہنے سے ناواقف تھی اس لیے۔ وہ خط بچے کی ٹیچر کے پاس لے گئی۔تاکہ وہ اسے خط پڑھ کر بتائے کہ کیا لکھا ہے۔خط پڑھ کر ٹیچر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔اس نے گول مول جواب دیا۔وہ یہ خط اپنی پڑوسن کے پاس لے گئی۔ اس کے چہرے پہ بھی ناگواری کے تاثرات ا بھر آئے۔ اس نے خط کا مطلب بتانے سے ہی انکار ردیا۔وہ یہ خط جس کے پاس لے کر جاتی وہ یا تو شرمندہ ہو جاتا یا اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔آخر وہ یہ خط اپنے بچے کے اسکول کی پرنسپل کے پاس لے گئی اور اسے یہ سارا حوال بتایا کہ اس کے خط کو دیکھ کر لوگ شرمندہ ہو جاتے ہیں۔ اس نے اصرار کیا کہ وہ اسکا مطلب سچ سچ بتائے۔ پرنسپل نے بھی خط پڑھا۔ اس کے چہرے پہ ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔ مگر س نے ہمت کر کے اسے بتا ہی دیا۔ خط میں لکھا تھا کی اس کے ساتھ خوب سختی کی جائے۔ اس کے علاوہ اس کے لیے اس شخص نے گالیاں لکھی تھیں۔ جس عورت کی وجہ سے اسے اردن کا ویزہ ملا۔جو اس نے ماں کی خدمت کیلیے وطن بھیجی۔ اسے مغلظات بک رہا تھا۔ یہ جانتے ہی ا س عورت نے اردن ایمبیسی کو فون کر کے شوہر اور سسرال کی بد سلوکی کی شکائیت لگائی۔ ایمبیسی نے اسکے شوہر کو بلا کر کھچائی کیاور اسے سخت نتائج کی دھمکی دی۔ اس ک ے بعد وہ عورت تو واپس اردن چلی گئی۔اور اس آدمی کو بھی وطن واپس آنا پڑا۔
وہ مرد جو ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی باہر کے ویزے کی لالچ میں کاغذی شادی کر لیتے ہیں انہیں دوہرا عذاب بھگتنا پڑتا ہے۔وہ لوگ جو اپنی اصلی بیویوں پر گرجتے برستے رہتے ہیں نقلی بیوی کے آگے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔لیکن۔ایسے مردوں کا تعلق عام طور سے دیہی علاقوں سے ہوتا ہے اور وہ لوگ نہ تو ذیادہ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور نہ ہی انٹرنیٹ پڑھتے ہیں۔اس لیے پڑہے لکھے مردوں کی بات نہیںہو رہی۔اگر کوئی پڑھا لکھا مرد بھی ایسا کرتا ہے تو پھر اسے کوئی نفسیاتی مسلہء ہو سکتا ہے۔اس لیے کہ ازدواجی بندھن تو ہے ی محبت ،دوستی اور پائیداری کا رشتہ۔بہرحال کاغذی شادی کا طریقہ انتہائی قبیح اور اخلاق سے گرا ہوا فعل ہے۔اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ میںگوریاں آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں تو ایسا ہر گز نہیں۔جس کلاس کی گوریاں آسانی سے ملتی ہیںوہ کلاس دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔اس کے لیے اتنی دورجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ان سے تعلق رکھنا اور کوئی معاملہ کرنا صرف صحت ،عزت اور پیسے کا ضیاع ہے۔یہ تاثر کہ یہ یہاں آزادی ہے اس لیے کسی سے بھی دوستی بڑھا لی جائے غلط ہے۔ یہاں بھی طبقاتی فرق موجود ہے جو دور سے نہیں دیکھا جا سکتا۔پڑہی لکھی عورتیں صرف اپنی کلاس اور اپنے طبقے کے مردوں کو ہی پسند کرتی ہیں۔ غیر ملکیوں کے لیے تو مسترد شدہ گوریاں ہی دستیاب ہوتی ہیں۔اکثر یورپین خواتین رنگدار نسلوں کے مردوں کو ناپسند کرتی ہیں ۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے لیے صرف ویزہ یا ڈالر کا چیک ہیں۔
بہتر ہے کہ اپنے زور بازو پر بھروسہ کیا جائے۔ہمیشہ تعلیم،جاب اور کاروبار سے کیریر بنانے میں ہی عزت ہے۔ نہ کہ کسی عورت کے کاندھوں پہ سوار ہو کر کیریر بنایاجائے۔یا کسی بھی ناجائز طریقے سے اسٹٰیٹس حاصل کیا جائے۔آجکل ہماری سیاست اور شو بز اسی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ سیاسی تاریخ کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں تو پتہ چلے گا کہ کسی دور میں ہمارے وزیر اعظم پر بارہ عورتیں حکومت کرتی تھیں اور کہیں پر حکمران اپنی محبوبائوں کی دلپشوری کے لیے انہیں سرکاری خزانے سے بھتہ دیتے رہے ہیں۔بہر حال اگلے کالمز مین یورپین ممالک میں تعلیم جاب اور بزنس کے مواقع اور قوانین پر بات ہو گی تاکہ خواہشمند ہم وطنوں کی رہنمائی ہو سکے۔