آج کا انسان
تحریر رومانہ قریشی
کویت
حقیقت ہے۔کہ آج انسان نے اپنی عقل وفہم اور سائنس وٹیکنالوجی کی مددسے ساری دنیا کو تسخیر کر لیا ہے۔اور مسلسل ترقی کی منازل عبور کرتے ہوئے اس نے وسیع وعریض دنیا کو سمیٹ کر چھوٹا بھی کر دیا ہے۔لیکن آج یہی مہذب ومتمدن انسان خودایک عجیب و غریب صورتحال سے دوچار ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ ومہذب کر نے کی کوشش میں انسان نے خود اپنے آپ کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔آسائش و زیبائش کی زندگی تک رسائی تو کی مگر تمام آ سائشیں میسر ہونے کے باوجود زندگی مسلسل کرب کا شکار نظر آتی ہے۔کیونکہ آسائشوں کے حصول کا جنون پاگل پن کی حد تک انسان کے احساس اور سوچ پر حاوی ہے۔جس نے پیارومحبت،مروت،رواداری،ادب، لحاظ،شرم وحیا اور دوستی کے احساسات وجذبات کو بے وقعت بنا دیا ہے۔جبکہ یہ بھی سچ ہے کہ آج کا انسان نیکیاں بھی کر رہا ہے ۔مگر نیک نیتی کے فقدان سے اس کا ثمر نہیں پا رہا ہے۔یہاں تک کہ گناہوں نے دعائیں چھین لی ہیں۔اسلیے کہ انسان اپنے عمل ،اپنے خیالات ،اپنی خواہشات ،اور اپنی عادات کے بھنور میں اس بری طرح پھنساہوا ہے کہ لاکھ جتن اور چاہت کے باوجود اس کی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکتا۔آج انسان کی فکری صلاحیتںیکجا نہیں ۔انجانے خوف اور بے نام اندیشوں نے انکو منتشر کر دیا ہے ۔ امت مسلمہ جمیعت التفریق بن کر رہ گئی ہے۔ہر کوئی قائد بننے کو تیار مگر قیادت کا فقدان،زندگی کے جائز وناجائز تقاضے اور نفسی خواہشات اس انتہا پر ہیںکہ انسان بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں اندر سے ٹوٹ رہا ہے۔اسی لیے کوئی کسی پر اعتماد نہیں کرتا ہے۔یہاں تک کہ آج انسان کو خود اپنے آپ پر بھروسہ نہیں رہا۔وقت کی کمی نے فاصلوںکی خلیج پیدا کر دی ہے۔دل سکون سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ اسلیے کہ مشینوں نے انسان سے مروت چھین لی ہے۔علم کے طالب بڑھتے جا رہے ہیں۔مگر جہا لت کے بادل ابھی تک ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔لیکن۔۔۔۔۔حالات چاہے کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔ہمارے دلوں میں امید کی کرن اسی طرح موجود ہے۔جیسے رات کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں دور سے نظر آنے والے چراغ کی روشنی جو بہت مدھم ہوتی ہے مگراس روشنی کی ایک انجانی کشش میں ہم اپنا سفر مایوسی سے نکل کر امید سے جاری رکھتے ہیں۔کیونکہ یہی امید یقین بھی ہے اور ہماری منزل بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔