سزا …یہ اُس رد عمل کا نام ہے جس کا خمیازہ ہر ایک کو اپنے کیے گئے غلط اعمال کے لئے بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ غلطی چاہے دینی ہو یا دنیاوی سزا سب کیلئے لازمی قرار دی گئی ہے اور کوئی بھی اُس کیلئے بری الذمہ نہیں۔ہمارے ہاں چونکہ سزا اور احتساب کا رحجان انتہائی کم ہے اور ہم سزا سے زیادہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غلطیاں قابل معافی ہوتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی غلطی قابل معافی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی غلطی نظراندازکرنا درست عمل ہے۔ لیکن اب تو گزرتے وقت،حالات اور زمانے نے انسان کے طور طریقے اور سوچ بدل دی ہے جس کی بدولت الفاظ کے مطلب بھی بدل گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تو لفظ ”سزا” کے معنی بھی بدل چکے ہیں بلکہ آج سزاکا جو تھوڑا بہت وجودباقی ہے وہ” کرے کوئی اور بھرے کوئی”کے روپ میں باقی ہے۔ہمارے معاشرے میں ”کرے کوئی اوربھرے کوئی ”کے واقعات نے اس حد تک عروج حاصل کرلیا ہے کہ بعض دفعہ یوں گمان ہوتا کہ جیسے ہمارے آئین میں غلطی کی جگہ سزا نہیں لکھی گئی بلکہ ”کرے کوئی اور بھرے کوئی ”کا قانون درج ہے۔
یہ بات تسلیم کرلینے میں کوئی قباحت نہیں کہ ہم ایک سیدھی اور آسان بات کا درست مطلب جاننے کے باوجود الٹا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اکثر و بیشتر مرتبہ سیدھا مطلب ہمیں نقصان پہنچا رہاہوتا ہے اور ہم نقصان سے بچنے کی غرض سے ایک شفاف حل کو چھوڑ کر الٹے مطلب کا سہارالیتے ہیں جوکہ بھی مہذب معاشرے کی ناقابل قبول چیز ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں یہ بات ایک معمولی حیثیت رکھتی ہے اور اس ناسور میں بجائے کمی آنے کے اضافہ ہوتا چلا جارہاہے جس سے ہمیں دنیا میں بھی نقصان اٹھانا پڑا رہا ہے یقینی طور پر آخرت میں بھی رسوا ہونا پڑیگا۔
یہ بات ہمیں تسلیم کرلینی چاہئے کہ ہمیں عقل وشعور، مشاہدے اور غوروخوص کی اشد ضرورت ہے جسکا ہمارے ملک میں فقدان ہے۔ یقینا ان چیزوں کی کمی نے ہمیں دنیا کے مقابلے میں کہیں پیچھے رہ جانے پر مجبور کیا ہوا ہے کیونکہ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں کوئی بھی کام کرنے سے قبل اس کی ضرورت ،مناسب وقت اور مستقبل کے فائدے اور نقصان کے بارے میں کافی غورو خوص ہونے کے بعد تب جاکر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے دنیا آگے نکل چکی ہے ہم آج 60سال گزرنے کے بعد بھی نہ تو اپنی راہ ڈھونڈ سکے ہیں اور نہ ہی اپنی راہ کا تعین کرسکے ہیں ۔
ان حالات کا ذمہ دار کون؟؟؟؟اس معمے کو سلجھانے کے لئے 14اگست سے لے کر جون 2009تک آزادی کے اس طویل سفر پر طائرانہ نظر بھی اس حقیقت کو نہیںجھٹلا سکتی کہ آج بھی ہم انہی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جو ہمیں بحیثیت ایک نوزائیدہ مملکت در پیش تھے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی جیسی نعمت بھی کیوں اس طویل عرصے میں مذہب اور قومیت پر بننے والی پہلی نظر یاتی مملکت پاکستان کے مسائل کو کم نہ کر سکی ؟بلکہ پے درپے آنے والی مشکلات نے پاکستان کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ وسائل کی کمی اور ضروریات زندگی نے حالال وحرام اور جائز وناجائز کا فرق مٹا دیا ہے اور اس حد تک ضمیر فروشی اور خونریزی نے عروج حاصل کرلیا ہے کہ اب تواچھے دنوں کے خواب نہیں آتے ۔نجانے کیوں ہماری عقل وشعور پرتالے ڈال پڑ گئے ہیں اور ہمارے ہاں مذہب اور انسانیت تماشہ بن کررہ گئی ہے۔ ان لامتنائی مسائل اور عدم تحفظ نے لوگوں میں اضطراب پیدا کر دیاہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ سوال آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے کہ ان حالات کے ذمہ دارکون ہیں ؟ میں، آپ یا پھر وہ معصوم جوابھی تک زندگی کی راہوں سے انجان ہیں؟۔لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمیں اس حال تک ہمارے اعلیٰ حکمرانوں نے پہنچایا ہے لیکن اس میں بھی قصورہمارا اپنا ہے کیونکہ انہیں خود ہم نے منتخب کیا ہوتا ہے اور جو وردی میں ملبوس ہوکر قابض ہوتے ہیں انہیں بھی ہمارے جیسے سول نافرمان لوگ دعوت دیتے ہیں اور اُن کی آمد پر میٹھائیاں بانٹتے ہیں لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس ملک کو وردی اور واسکٹ نے کتنا نقصان پہنچایا ہے بجائے ہم اس سب کچھ کی مذامت کریں ہم مسلسل اپنے ظالم حکمرانوں کے آگے سر جھکائے چلے جارہے ہیں اور وہ سکون سے ہمارے بچوں کا خون پی رہے ہیں ۔
ہمارے ہاں ایک یہ روایات بھی مقبول عام ہے کہ ہرنئی قیادت گزشتہ قیادت کو کرپٹ اوراُن کی پالیسیوںکو ناکام قرار دیتی ہے اور خود کو پاک صاف قرار دینے کیلئے دوسروں پر اس حد تک کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ لوگ اعتبار نہ کرنا گناہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں ۔لیکن جب پہلی حکومت پر تنقید کرنے والوں کے ہاتھ میںاقتدار آتا ہے تو وہ اپنے دور حکومت میں اُس اولین فرض کو دیانتداری اور ذمہ داری سے نبھانے کی کوشش کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں اور تمام تر ذمہ داریوں کو پس پس پشت ڈال کرلوٹ کھسوٹ کا ایسا بازار گرم کیا جاتا ہے کہ خرانے خالی کرلینے کے بعد ”آئی ایم ایف ”کی قسطوں پر بھی راضی نہیں ہوتے ،پھر کوئی نئے طریقے آزماکر فرینڈز آف پاکستان سے دولت لوٹی جاتی ہے۔ انہی ذاتی مفادات اور کھوکھلی سازشوں نے آج ہمارے وطن عزیز کی سالمیت کودائوپر لگادیا ہے اورخوشحالی اور ترقی کرنے کی بجائے حالت کو اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ دل خون کے آنسوروتا ہے۔حالت اکثر سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا اسی دن کے لئے قومی ومذہبی تشخص اور آزادی حاصل کرنے کے لئے طویل جہدوجہد کی اور ہزاروں قربانیاں دیں۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی،بجلی کا بحران اورآٹے کے فقدان کیا یہ سب ہمارا ناکردہ گناہوں کی سزائیں نہیں تو اور کیا ہے؟اس ملک کے بچے، بوڑھے جوان اور خاص طور پر موجودہ نوجوان نسل جن سے پاکستان کا روشن مستقبل وابستہ ہے وہ محفوظ نہیں ہیں اور انہیں اپنے لیے کوئی راہ نہیں مل رہی جس پر وہ چل کر ترقی کرسکیں۔ ہمارے ملک کاخوبصورت ترین حصہ”سوات”جسے پاکستان کا ”سوئٹرز لینڈ ” بھی کہا جاتا ہے اُسکی تباہی وبربادی خون کے آنسو رلاتی ہے۔ ہمارے پٹھان بہن بھائی جنہوں نے اپنے آشیانے جو تنکا تنکا جوڑ کر بنائے تھے انہیں چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں رہ رہے ہیں،آخر انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ؟کرے کوئی اور بھرے کے مصداق انہیں کب تک قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہے گا؟وہاں کے معصوم بچے اس ناگہانی مصیبت سے لا علم آنکھوں میں لا تعداد سوال لئے ہوئے ہیں اور بھوک اور گرمی نے ان کے چہروں کی لالی ختم کردی ہے آخر اُن کا قصور کیا ہے؟ہمیں ان مائوں ، بیوائوں اور بہنوںکے حوصلے اور جذبات کو سلام کرنا چاہئے جنہوں نے اس ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے اپنے سکون اور چین کی قربانی دی،یہ بات سچ ہے کہ یہ بغیر کوئی جرم کیے اتنی بڑی سزا بھگت رہے ہیں لیکن اگر ہم نے ان لوگوں کی عظمت کو سلام پیش کرنا ہے انہیں ان کی قربانی کا اجر دینا ہے تو ہمیںان لوگوں کو اس حال تک پہنچانے والوںکو ڈھنڈنا ہوگا اور انہیں کڑی سزا دینا ہوگی یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام سزا طالبان کیلئے تجویز کی جائے ،ہماری اپنی صفوں میں بھی بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو وہاں امریکہ کی خوشنودی کیلئے امن نہیں چاہتی اور اُن لوگوں کا بھی پتہ چلنا چاہئے جن لوگوں نے سوات معاہدہ ختم کرنے کی جلدی کی ۔اگرایمانداری سے اس ملک کی خوشحالی ، ترقی ،امن اور تہذیب کے قاتلوں کی تلاش کی جائے تو حقیقی مجرموں کی بھاری تعداد اسلام آباد ،کراچی اور لاہور سے نکلے گی نہ کہ سوات اور مالاکنڈسے ۔
اگر اس ملک میں انصاف ہوتا اور سزا کا مطلب حقیقی معنوں میں سزا ہوتا آج کئی طاقت کے سرچشمے سلاخوں کے پیچھے ہوتے لیکن ایسا ممکن نہیںہے کیونکہ کرپٹ اور ظالم شخص کو سزا دینے کیلئے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے حکمرانوں میں نہیں ہے کیونکہ خود ان کا اپنا کردار ٹھیک نہیں ہے اور ویسے بھی یہ سچ ہے کہ ڈاکو کو ہمیشہ وہ تھایندار سزا دیتا ہے جو چورکیلئے نرم گوشہ نہ رکھتا ہو ۔بد قسمتی سے اس ملک میں ہر نیا” تھایندار ”خود بہت بڑا چور ہوتا ہے اور وہ کیسے کسی ڈاکو کو سزا دے ۔اس لیے ہمارے معاشرے میں سزا لفظوں میں تو پائی جاتی ہے عمل میں نہیں اور جہاں سزا کا وجودنظر بھی آتا ہے وہ ”کرے کوئی اور بھرے کوئی”کے روپ میں موجود ہے ۔