۔۔۔۔۔۔آئینی۔
تحریر عینی نیازی
اسلا م علیکم
رضا جعفری ہندوستان کے ایک نامور قلم کار ہیں گذشتہ چا لیس بر سوں کے دوران ان کی کہا نیاں اردو اور ہندی زبانوں میں ہندوستان کے مقتدر جرائد میں شا ئع ہوتی رہی ہیں یوں تو ان کا قلم سما ج کے سبھی طبقوں کے دکھ درد میں شریک رہا مگر تقسیم کے بعد جو مسلم خا ندان اپنے بزرگوں کے مسکن کو چھوڑ کر جا نے پر راضی ہو ئی ان پر کیا گزری (راستے کھول دو )اسی موضوع پر بہت خوبصو رت کہا نیوں کا مجموعہ ہے اسی سے مطلق ایک کہا نی (آئینی) پیش خدمت ہے ۔ عینی نیازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عینی نیازی ۔
یہ سن اسی کی بات ہے چھوٹے ما موں نے کراچی سے روانہ ہو کر دہلی پہنچنے کی ا طلا ع دی سا رے گھر میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی یہ خبر اتنی اچا نک اور چو نکا دینے والی تھی کہ ابھی تک گھرکے جو بھی حالات تھے وہ اک دم سے جیسے اپنی جگہ منجمد ہو کر گئے اب سب کے سامنے ایک با لکل نئی اور د لچسپ صورتحال آن کھڑی ہو ئی تھی اماں اپنے بیمار اور کمزور جسم کو سنبھا لتی ہو ئی اٹھنے کی کو شش کر نے لگیں ، ابا اپنی ضعیف ٹانگوں کو پلنگ سے اتار کر اپنے ڈنڈے کے سہا رے کھڑے ہو نے لگے چھوٹا بھائی ابرار ہمیشہ کی طرح ہنگا می وقت پڑ نے پر اپنے کمر بند کو کھولنے با ندھنے لگا اس کی بیوی جو دور خا ندان سے بیاہ کر آئی تھی آنکھیں پھا ڑ کر سارے حالا ت کو سمجھنے کی کو شش کر نے لگی میری بیوی فا طمہ کے سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو میرے ہا تھ سے تار کا کاغذ لے کر اس مضمو ن کو پھر سے پڑ ھنے لگی جس کو میںکئی با رزور سے پڑھ کر سب کو سنا چکا تھا بس پورے گھر میں بچے ہی ایسے تھے جو ہر چیز سے بے نیاز اپنے کھیل کی دنیا میں مگن تھے ۔میں فا طمہ کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کر تا ہوا اماںاور ابا کے پلنگوں کے درمیاں بچھی کر سیوں میں سے ایک پر آکر بیٹھ گیا اماں جب سے صا حب فر اش ہو ئی تھیں ہم اسی طرح ان کے پلنگ کے گرد جمع ہو کر مختلف مو ضو عات پر تبا دلہ خیالات کرتے تھے اماں کو چو نکہ گھر میں مر کزی حیثیت حاصل تھی لہذا زیا دہ تر با توں کی ڈور انہی کے ہا تھوں میں رہتی تھی اماں آج بہت خوش تھیں ان کا بر سوں کا بچھڑا بھا ئی ملنے کے لیے آ رہا تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس طرح اڑ کر دلی پہنچ جا ئیں جہاں چھوٹے ما موں کسی انٹر نیشنل سمینا ر میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے مگر اماں اپنے حالات اور بیماری سے مجبور تھیں آج ان کی ذہنی کیفیت بتا رہی تھی کہ ان کی نگا ہوں کے سامنے ما ضی کی کتاب کے پنے ورق ورق کھل رہے ہیں انہیں یاد آرہا تھا کہ تقسیم ہند کے وقت بھرت پور سے ان کا لٹا ہوا قا فلہ آگرہ پہنچا تھا اور وہاں سے اماںکے والدین ان کے پا نچوں بھا ئیوں کو لے کر کراچی روانہ ہو گئے تھے اماں ، ابا کے ساتھ میر ٹھ آگئی تھیں کیوں کہ وہ اس زما نے میں وہاں تعینات تھے میں اس زما نے میں بہت چھوٹا تھا اماں یہ با تیں سینکڑوں با ر بتا چکی تھیں وہ جب بھی سو چ میں ڈو بتی ہم سمجھ جا تے کہ وہ یہی سو چ رہی ہیں۔ اماں نے یکا یک مجھ سے پو چھاتو پھر تم نے کیا سوچا کب لینے جا رہے ہو ؟،، میرے لئے جواب دینا اتنا آسان نہیں تھا بہت سی با تیں سو چنی تھیں ان کا دل رکھنے کے لیے میں نے کہا آج کا دن تو نکل گیا کل دیکھتے ہیں آفس جا کر انتظام کر نا ہو گا ،، میں نے سب کے چہروں کی طرف دیکھا خوش وہ تو سب تھے مگر شا ئد گھر میں بوریا نہ ہو نے کا احساس ان کو اندر ہی اندر کہیں سال رہا تھا اتنی بڑی نو کری اور ملکوں ملکوں گھومنے والے ، عا لیشان زندگی گزارنے وا لے چھوٹے ما موں ان کے اس خستہ حال مکان میں کیسے رہے گے شا ئد یہی بات سب سو چ رہے تھے میں نے بھی نظریں دو ڑا ئیں تو لگا گھر واقعی بڑا بو سیدہ اور پرانا ہو گیا ہے دل چا ہا کہیں سے ا لہ دین کا چرا غ مل جا ئے جس کا جن نکل کرسارے حالا ت بدل کر رکھ دیتا ہے میں نے چھوٹے بھا ئی کی طرف دیکھا اس نے شا ئد میرے دل کا حال پڑھ لیا اور اسی لیے اس نے پلکیں جھپکا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا مگر اس وقت کو ئی کچھ کر سکنے کی حالت میں نہیں تھا میں نے دیکھا خوش تو سب تھے دل میں مگر ایک بے نا م سی بے بسی کی بدلی گھر آئی تھی سارے گھر پر۔ ایک عجب طرح کا تنا ئو آگیا تھا دوسرے دن لکھنئو سے روانہ ہو کر جب میں نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر اترا تو رات کے دس بج رہے تھے آخر نومبر کی خوشگوار رات تھی با ہر نکل کر میں نے آٹو لیا اور سید ھا اسی ہو ٹل کے کا ونٹر پر جا پہنچا جہاں چھوٹے ما مو ںٹہرے ہو ئے تھے کا ئونٹر سے نمبر لے کر میں نے فون ملا یا فون جس نے اٹھا یا وہ بڑی مہذب نسوانی آواز تھی میں نے کہا میں اقبال بول رہا ہوں ہو ٹل کی لا بی سی، ،دوسرے ہی لمحے ایسا محسوس ہو ا جیسے آواز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہو اچھا اقبال بھا ئی اسلا م علیکم ! آپ آگئے وہیں ٹہریے ہم آتے ہیں،،اور فون بند ہو گیا میرا دل اک دم سے دھڑکنے لگا نسوانی آواز کس کی تھی ؟ کیا مما نی بھی آئی ہیں ؟ ملکوں کے فا صلے نے کیا ظلم ڈھایا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی آوازیں بھی نہیں پہنچا نتے میں نے سو چا ۔رو شنی میں ہو ٹل کی لا بی بعقہ نور بنی ہو ئی تھی مگر میرے لیے اب ایک لمحہ بھی گزارنا مشکل ہو رہا تھا اسی وقت سا منے کی لفٹ کا دروازہ کھلا اور چھوٹے ما موں نمودار ہو ئے پتہ نہیں ہم کب ایک دوسرے سے بغل گیر ہو ئے دو نوں ملکوں کی سر حدیںدرمیا ن سے معدوم ہو گئی سال کا وقفہ بھی معدوم ہو گیا ہم نے سر اٹھا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھاتوکچھ ایسا احسا س ہو ا کہ آئینہ دیکھ رہے ہو ہما ری شکلیں آپس میں اتنی ہی ملتی جلتی تھیں وہ رشتے میں میرے ما موں ضرور تھے مگر عمر میں مجھ سے دو سال ہی بڑے تھے پھر ما موں نے پیچھے کھڑی خاتون کی طرف اشارہ کیا ان کو پہچا نو ،، میں نے ان کی طر ف دیکھا ان کا چہرہ ان کی آواز کا آئینہ دار تھا اور خوشی سے گلنا ر ہو رہا تھا میں نے بے سا ختہ کہا شکیلہ مما نی، ، اور دوسرے ہی لمحے شکیلہ مما نی کے دو نوں ہا تھ میرے ہا تھوں میں تھے اور میرا سر ان کے ہا تھوں میں جھکا ہو ا تھا ہما ری آنکھوں سے اشک رواں تھے دوسری صبح وا پسی کی ریزو یشن کر انے کے بعد جب میں ان سے ملنے ہو ٹل پہنچا تو ما موں جا نے کو تیا ر کھڑے تھے مجھے دیکھتے ہی بو لے تم اپنی ممانی کو دلی دکھا ئومیرا تو سارا دن کا نفرس میں نکل جا ئے گا ،، اور وہ چلے گئے میں اور ممانی ہو ٹل کے پر تکلف ماحول سے نکل کر ٹہلتے ہو ئے با ہر آگئے کناٹ پیلس کا علا قہ دور تک اپنی با نہیں پھیلا ئے شاد وآباد کھڑا تھا اور دلی کی زندگی ہمیشہ کی طرح رواں دواں تھی سڑک کے کنا رے لگی ٹو رسٹوں کو لبھا نے کے لیے ہر ریا ست کا مخصوص سامان بھرا پڑا تھا دنیا کے تقر یبا ہر ملک کا ٹورسٹ وہا ں مو جود تھا اور اتنے اچھے ، خوبصورت اور بہت سارے سامان کو لا لچ بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ہندوستان کے بہترین کا ریگروں کے ہا تھ کا بنا ہوا سا مان اتنی وافر مقدار میں دیکھ کر ممانی کچھ حیران کچھ پر یشا ن تھیں ایسا میں نے محسوس کیا میں نے کہا آئیے قریب چل کر دیکھتے ہیں مگر وہ اک دم سے بھڑک گئیں نہیں نہیں ! بس یہی ٹھیک ہی،، میں نے محسوس کیاکہ وہ مجمع کے درمیا ن جا نے کو تیا ر نہیں وہ چل بھی بہت محتا ط انداز میں رہی تھیں جیسے کسی چیز سے خو فزدہ ہوں میں نے پو چھا آپ ٹھیک تو ہیں ،، ہا ں ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں ،، وہ بو لیں ،، در اصل تمہا رے ملک کی سڑکوں پر آج پہلی مر تبہ چل رہی ہوں عجیب سا لگ رہا ہے اک دم سے ما ضی کی بہت سی یا دیں تازہ ہو گئیں ما ضی کی یا دیں ؟اور یہاں؟ مجھے ان کی بات سن کر کچھ تعجب ہو ا کیونکہ بٹوارے کے وقت جب وہ یہاں سے گئی ہوں گی اس وقت ان کی عمر اتنی نہیں رہی ہو گی کہ جس کی کچھ یا دیں بھی ہوں میں نے سو چا کیوں ؟ آپ کو تعجب ہو رہا ہے ،، مجھے لگا انھوں نے میرے ذہن میں چلتی ہو ئی فلم کو دیکھ لیا ہو خیر چھوڑیئے یہ بتا یئے یہاں کی جامعہ مسجد اور لال قلعہ کہاں ہیں ؟ پہلے وہ دیکھ لیتے ہیں ،، انہوں نے با ت کا رخ موڑ دیا میں نے پہلے وہ دیکھ لیتے ہیں ،، انہوں نے با ت کا رخ موڑ دیا میں نے بھی کو ئی زور نہیں دیا ایک جا تے ہو ئے ٹویسٹر کو روک کر ہم لوگ جا مع مسجد روانہ ہو گئے راستے میں کئی جگہ ٹریفک جام لگے مما نی بڑے غور سے دیکھتی رہیں اتنی بھیڑ کو دیکھ کر وہ پریشان ہو گئیں تھیں ان کا دھیان بٹانے کے لیے میں راستے میں پڑنے والے تاریخی مقامات کے بارے میں ان کو بتا تا رہا جا مع مسجد کا علا قہ آتے ہی میں نے محسوس کیا مما نی یہاں کی بھیڑ بکریاں اور لمبی لمبی داڑھیاں دیکھ کر نہ جا نے کیسے کچھ نا رمل ہو گئیں جامع مسجد کے لمبے چوڑے دلا ن اور کشادہ صحن کو دیکھ کر وہ مطمئن نظر آئیں پھر جب ہم سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے و وہ آہستہ سے بو لیں چلئے خدا کا شکر ہے کہ دلی کا ایک علا قہ توایسا ہے جہاں کچھ مسلما ن نظر آتے ہیں اور اسلام کی عظمت کا احساس ہو تا ہے ،، میں نے ان کی طرف چونک کر دیکھا اور سوچا اچھا تو یہ یہاں کے مسلما نوں اور اسلا می عظمت کے لیے اتنی پر یشا ن ہیں مجھے خوشی کہ ان کی سوچ کا ایک سرا تو ہا تھ آیا میں نے کہا یہ دلی کا پرانا علا قہ ہے لہذا مسلما ن یہاں خاص لباس میں نظر آرہے ہیں اور لباس سے ان کی مذہب کی پہچا ن ہو رہی ہے ورنہ یہ ملک تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہے یہاں لباس ، بو لی ، خورد نو ش سے مذہب کی تمیز کرنا آسان نہیں ،، وہ کچھ بولیں نہیں مجھے ایسا لگا ان کو میری بات میں کوئی وزن محسوس نہیں ہوا ظاہر ہے وہ مملکت خداد سے آئی تھیں جہاں فو جی جنر لوں کا دبدہ تھا ان کے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں تھا لا ل قلعہ جا نے کے لیے جب ہم رکشا پر بیٹھے تو وہ تاسف بھرے انداز میں بو لیں اوروں کو تو جا نے دیجیے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہا ں آپ لو گوں کا مستقبل کیا ہے ؟ ابھی تو آپ کے بچے چھوٹے ہیں کل کو وہ جب بڑے ہو ں گے ان کے شادی بیا ہ کا مسئلہ در پیش ہو گا روز گار چھوڑئیے شادی بیا ہ کا کیا ہو گا ؟ یہاں کتنے گھرانے سید ہیں ؟ کیا غیروں میں کر یں گے رشتے ؟ میں نے دیکھا مما نی اپنی بات کے لیے بہت فکر مند نظر آرہی تھیں مجھے ہنسی آگئی میں نے کہا مما نی یہ ملک اور یہاں کے لوگ بڑے عجیب ہیں شروع میں ایسا ہی لگتا ہے جب آپ یہاں کچھ دن رہیں گی تب آپ کی سمجھ میں آئے گا کہ یہاں کے لو گوں کے دلوں میں کتنی وسعت ہے یہاں آپس کی محبتیں کتنی گہری ہے ،، بھا ئی ! یہ سب جذبا تی با تیں ہیں ان میں کچھ نہیں رکھا ،، وہ بو لیں جب آپ کے فسادات ہو تے ہیں آپ پر کیا گزرتی ہے ؟ کیا اکثریتی فر قے کے ساتھ حکومت بھی آپ کی دشمن نہیںہو جا تی ؟تب یہ آپ کا فلسفہ کہا ں چلا جا تا ہے ؟ لال قلعہ کے با زار سے گزرتے وقت ممانی وہاں کے دکانداروں کے چہرے بہت غور سے دیکھ رہی تھیں میں سمجھ گیا وہ ان کے ما تھے پر ان کا مذہب تلاش کر رہی تھیں مجھے لگا مما نی کے دل کا آئینہ ابھی صاف نہیں ہوا جب ہم وا پس ہو ٹل پہنچے تو ما موں آچکے تھے مجھ کو دیکھتے ہی بولے یہ بتا ئوتم نے اپنی مما نی کو کچھ کھلا یا پلا یا بھی یا یہ ابھی تک بھو کی ہیں ؟،، بھوکی ہیں ؟ ،،مجھے شاک لگا راستے میں کئی مر تبہ میں نے کچھ لینے کے لیے کہا تھا مگر انھوں نے اپنی با توں سے ہر بار کھانے کی بات ٹال دی تھی مجھے چپ دیکھ کر ماموں کہنے لگے یہ جب سے تمھارے ملک آئی ہے ان کے دل میں ایک خوف سما یا ہوا ہے کہیں یہاں کے کھانے میں کچھ ملا یا ہوا نہ ہو در اصل یہ ملک کے بٹوارے کو ابھی تک بھول نہیں پا ئی بڑی تلخ یا دیں جڑی ہو ئی ہیں ان کی بٹوارے کے ساتھ ،، پھر انہوں نے جو بات بتلا ئی اس سے میرے رو نگٹے بھی کھڑے ہو گئے تقسیم کے وقت جب چاروں طرف ہلچل مچی اور ملک چھو ڑنے کا ما حول بنا توان کے والد بھی اپنے خاندان کے ساتھ ترک وطن پر مجبور ہو ئے مگر راستے میںبلوا ئیوں نے ان کی گا ڑی کو روک لیا ان کی وا لدہ تو کسی طرح ان کو لے کر کراچی پہنچ گئی مگر ان کے وا لد راستے ہی میں مارے گئے تب سے یہ حاد ثہ ان کو برابر ہانٹ کر ہا ہے ان کو کسی بھی طرح یہ اعتبار نہیں ہو رہا ہے کہ اب حالات بدل گئے ہیں در اصل ان کو یہاں لا نے کا مقصد بھی یہ ہے کہ ان کا یہ احساس ختم ہو جا ئے انہوں نے میری طرف دیکھا مجھے شرمندگی تو ضرور محسوس ہو ئی مگر انھیں کیسے بتا تا کہ یہ المیہ تو اس دور کا ہے جب دونوں طرف آگ لگی ہوئی تھی ایک دم سے میرے ذہن میں وہ ساری گفتگو ریوا ئنڈ ہو گئی جو صبح سے ممانی اور میرے درمیان ہو ئی تھی فا نوس اگر گندہ ہو تو شکلیں بھی گندی نظر آتی ہیں ممانی وہی دیکھ رہی تھیں جو وقت کے فا نو س نے ان کو دیکھا یا تھا اب میرا فر ض تھا کہ میں فا نوس کے شیشے کو صاف کر وں تا کہ وہ مو جودہ وقت کی تصویر دیکھ سکیں مجھے مما نی ایک معصوم گڑیا نظر آئیں ۔دلی آنے کے بعد مجھے اپنے بچپن کے دوست پنکچ کی یاد ضرور آئی چو نکہ مجھے خود معلوم نہیں تھا کہ چھوٹے ما موں کا پروگرام کیا ہے اس لیے میں نے اس سے کو ئی را بطہ قا ئم نہیں کیا تھا اب جب یہ طے ہو گیا تھا کہ ممانی کو لے کر دوسرے دن کی ٹرین سے لکھنئو جا نا ہے میں نے پنکچ کے دفتر فون کیا میری آواز سنتے ہی اس کے اندر ہمیشہ کی طرح زندگی دوڑ گئی میں نے اس کو اپنے دلی آنے کے مقصد سے آگاہ کیا تو وہ اور بھی زیا دہ خو ش ہوا بولا میں آفس میں چھ بجے تک ہوں تم ما موں سے معلوم کر کے بتا ئو وہ کب تک شام کو میرے گھر آسکتے ہیں میں لینے کے لیے گا ڑی بھیج دوں گا ،، میں نے کہا پہلے ان سے پو چھ تو لوں وہ آئیں گے بھی یا نہیں ،، وہ ہمیشہ کی طرح دعوی سے بولا واہ ! آئیں گے کیسے نہیں کیا وہ میرے ما موںنہیں ؟،، اس طرح رات کو آٹھ بجے ہم لوگ اسکی گا ڑی میں بھیٹھ کر پنکچ کے گھر پہنچ گئے دلی کے پو ش علا قے میں اس کا چھوٹا سا مگر بہت خو بصورت گھر تھا پنکچ اس کی بیوی دیو یا نی اور دونوں بچے ہما رے استقبا ل کے لیے گیٹ پر مو جود تھے ہما رے اتر تے ہی پنکچ نے بڑے ادب سے جھک کر ما موں ممانی کا پا ئوں چھو لیا اس کو دیکھ کر بیوی اور بچوں نے بھی ایسا ہی کیا ما موں نے ہنس کر کہا تم لو گ تو مجھے بڑا بزرگ بنا رہے میں تم لو گوں سے تھو ڑا ہی تو بڑا ہو ں گا ،، وہ تو ہے مگر آپ کا رشتہ ہماری ما تا جی کے بھائی کا ہوانا اس لیے بڑے توآپ ہر حال میںہو ئی،، تین گھنٹے کس طرح گزر گئے پتہ ہی نہیںچلا دیویانی اور ممانی میں گفتگو کا نہ جا نے کیسے ربط پیدا ہو ا کہ وہ اپنے وجود کو بھول کر ڈرائنگ روم سے کب دیو یا نی کے کمرے میں چلی گئی پتہ نہیں چلا وہ تو جب کھا نا میز پر لگا یا جا نے لگا تو میں دیکھا وہ بھی دیو یا نی کا ہا تھ بٹا رہی ہیں ان کے چہرے پر عجیب سی آب تھی وہ بھی دیو یا نی کی طرح ہشاش بشاش نظر آرہی تھیں کھانے کے بعد جب گھڑی دیکھی تو وہ رخصت ہو نے کا وقت بتا رہی تھی پنکچ نے بہت زور دیا کہ سب وہیں رک جا ئیں وہ صبح نا شتے کے بعدسب کو پہنچا دے گا مگر چھوٹے ما موں کے لیے یہ ممکن نہ تھا آخر طے یہ ہو ا چھوٹے ما موں اکیلے ہو ٹل جا ئیں گے کل صبح میں دیو یانی ،مما نی کے ساتھ دلی کی تا ریخی عما رتیں دیکھنے کے بعد ہو ٹل آئیںگے ۔ دوسرے دن لکھنئو جا نے کے لیے جب ہم اپنی گا ڑی کے ریزروکمپا رٹمنٹ میں پہنچے تو دیکھا دیو یانی اور پنکچ ہمارا انتظا ر کر رہے تھے وہ اپنے سا تھ ڈھیر سارا نا شتہ اور کھا نا لا ئے تھے پنکچ مجھے دیکھتے ہی بولا بھلے آدمی ! فر سٹ کلاس یا اے سی سلیپر میں مما نی کو لے جا نا تھا ان کو عادت ہے اس کی ؟،، اس نے بھیڑ کی طرف دیکھ کر کہا میں نے کہا یا ر! تجھے تو پتہ ہے میں نے اپنی جیب دیکھ کر سیٹ ریزوریشن کراوائی تھی مگر شا ئداب اللہ کی مصلحت تھی کہ میں ان کو اس میں لے کر جا رہا ہوںدر اصل میں ان کو بتا نا چا ہتا ہوںکہ دو نوں ملکوں کے عوام ایک جیسے ہیں یہ سیا ست دا ں ہیں جو ہمیں انسان سے حیوان بنا دیتے ہیں ہم ایک ہی تہذیبی ور ثے کے وارث ہیں بس اللہ سے دعا ہے یہ سفر عزت سے کٹ جا ئے ،، گاڑی روانہ ہو ئی ہم ایک دوسرے کو الوداع کہنے کے لیے ہا تھ ہلاتے رہے ۔ہمار آس پا س کی سیٹو ں پر سکھ اور پنجا بی بیٹھے ہو ئے تھے مما نی کافی دنوں تک پنجا ب میں رہی تھیں اس لیے پنجا بی بولی اچھی طرح سمجھتی تھی میں نے دھیان بٹانے کے لیے سا تھ لا ئے رسالے ان کے آگے کر دیئے میں نے یکایک محسوس کیا کہ سامنے بیٹھی گوری چٹی سردارنی جس کے سارے با ل سفید تھے ممانی کی صدری کو غور سے دیکھ رہی ہے پھر وہ نظرو ںہی نظروں میں مما نی کے پو رے سراپے کا جا ئزہ لینے لگی پھر اس نے گھوم کر اپنے برابر بیٹھے سردار جی سے کچھ کہا اور دونوں مل کر میری طرف تجسس بھری نظروں سے دیکھنے لگے میں دونوں کو دیکھ کر آہستہ سے مسکرا دیا سردار جی کو حوصلہ مل گیا بولے آپ نے لکھئنو جانا ہے ،، میں نے آہستگی سے جو اب دیا جی ،، آپ بھی پاکستان سے آرہے ہو،، اب اس نے سیدھا سوال کیا اس کا سوال سن کر مجھے تعجب ہوا کہا نہیں تو، ،مگر یہ تو پا کستان کی ہیںپوری ،، اب کی بار بزرگ خا تون بو لیں جی ہاں ! میں کراچی سے آرہی ہوں ،، اس بار ممانی نے خود جواب دیا وہ بزرگ خا تون کھلکھلا کر ہنس دیں تبھی میں کہوں یہ اپنی مٹی کی خوشبو کہاں سے آرہی ہے ،، انھوں نے بے اختیار اپنے لمبے ہاتھ آگے بڑھا کر ممانی کے دونوں گال لا ڈ سے تھپتھپا دیے وہ لوگ ترک وطن سے پہلے گو جرانوالہ میں رہے تھے مگر کا روبار کے سلسلے میں کراچی، حیدرآباد ، سندھ آنا جا نا رہتا تھا وہا ں کے لباس ، کھانی،بودو باش سبھی سے واقف تھے یوں تو وہ پنجا بی تھے مگر سندھ کا وصف بھی ان میں در آیا تھا آہستہ آہستہ پورے ڈبے کو معلوم ہو گیا کہ ان کے درمیا ںایک مسا فر پا کستا نی ہے پھر تو ایسا محسوس ہو نے لگا جیسی وہ اکیلی مہمان ہیں اور با قی سارے میز با ن ۔نہ جا نے کتنے پر اٹھے ، چٹنیاں ، اچار ، چھولے بٹورے نکل آئے اس کے بعد جو با توں کا سلسلہ چلا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم لکھئنو پہنچ گئے پنکچ اور دیو یا نی کا دیاہوا نا شتہ یو ں ہی بند ھا رہ گیا ٹرین جب لکھئنو اسٹیشن پہنچی تو اماں،ابا کو چھوڑ کر سارا گھر استقبال کے لیے مو جود تھا میرے دوست ندیم، شانتی اوستھی، پر شوتم بھی مو جود تھے ڈبے سے اتر کر با ہر آتے آتے ممانی کے ہا تھوں میں نہ جا نے کتنے کا رڈ آچکے تھے جن میں ان کو اپنے گھر مدعو کرنے والوں کے نام پتے درج تھے اسی وقت میں نے دیکھا میرے با س ا گر وال صا حب اپنی پتنی شکنتلا دیوی کے ساتھ آگئے ماموںمما نی سے ملنے کے بعد مجھ سے آہستہ سے بولے میں نے گھر جا نے کا انتظام کر دیا ہے گا ڑیاں با ہر کھڑی ہیں ،، میں نے ان کی طرف دیکھا وہ جو اپنے اصولوں میں بڑے سخت تھے آفس میں باس نا ک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے آج سر تا پا میز بان نظر آرہے تھے اور پھر وہ دن بھی آگیا جب لکھنئو میں ممانی کے قیام کی مدت پوری ہو ئی اور وہ اپنا سامان سفر با ند ھنے لگی اتنے تحفے تھے کہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا لے جا ئیں کیا چھوڑ جا ئیں کوئی آرہاتھا کوئی جا رہا تھا نا شتے اور پھلوں سے گھر بھرا ہوا تھا مگر وہ ہنسی اور قہقہے جو اتنے دنوں سے گھر میں گو نج رہے تھے آج خا مو ش تھا جا تو مما نی رہی تھیں مگر سفر سب کے ذہنوں پرسوار تھا جب آخری بار رخصت ہو تے ہو ئے مما نی نے میری طرف دیکھا تو ان کی آنسوئوں سے لبریز آ نکھوں میں مجھے اک دم وہ لمحہ تیرتا ہوا نظر آنے لگا جب انہوں نے دہلی میں مجھ سے کہا تھا میری سمجھ میںیہ با ت نہیں آتی کہ یہاں آپ لو گوں کا مستقبل کیا ہے ؟،، میں بے چین ہو گیا پتہ نہیں اب ان کا دما غ کیا سوچ رہاہے ؟ اسی وقت وہ آہستہ سے بو لیں بھا ئی میں یہاں پھر آئوں گی بار بار آئوں گی کو ئی چیز ہے جو یہاں چھوٹ گئی ہے ،،
—