اٹلی کا کیپیٹل شہر روما ہے۔اسکے علاوہ اسکا شہر وینس اپنی بے مثال خوبصورتی اور رومانوی ماحول کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔اس شہر میں پانی کی نہریں ہیں۔ پورا شہر انہی پانیوں پر آباد ہے۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ پانی اس شہر کی تعمیر کے بعد چھوڑا گیا تھا۔اسکے علاوہ اٹلی میں چوبیس کے قریب آتش فشاں پہاڑ ہیں، اور کئی گرم پانیوں کے چشمے۔ہماری منزل نہ تو تاریخی شہر روم ہے اور نہ ہی رومان پرور شہر وینس بلکہ ہماری منزل تو اٹلی کا صنعتی شہر میلان تھا۔ یہ شہر سوزرلینڈ کے بارڈر پہ واقع ہے۔یہاں قدیم بادشاہوں کے محلات اور سکندر اعظم کی یادگاریں تو نہیں ہیں لیکن یورپ کی ویب سائٹ کی اہم شخصیات رہتی ہیں۔ انہی میں میری دوست شازیہ نورین بھی ہے۔ہماری ملاقات ہماری دوستی کی طرح بڑی ہی سنسنی خیز اور دلچسپ تھی۔جب میں نے اٹلی کی ٹکٹ بک کروائی اس وقت یہ سوچا بھی نہ تھا کہ دنیا کیے قدیم تاریخی ملک کی سیر کرتے کرتے دنیا کے حسین ترین ملک کی سیر بھی ہو جائے گی۔ سوزرلینڈ کی سیر کا پروگرام میری دوست نورین نے ہی بنایا تھا۔ ہم لوگ حسب پروگرام میلان اور سوزرلینڈ کے بارڈر پر واقع جھیل لوگانو کے پاس ملے۔میں نے تو اسے فوراً پہچان لیا کیونکہ میں نے اسے ٹی وی پروگرام کی کمپیرنگ میں دیکھ رکھا تھا۔ لیکن مجھے اس نے نہیں دیکھا ہوا تھا۔بہر حال ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت حیران کن خوشی ہوئی۔
سلطنت روم کا ذکر بھی قرآن حکیم میں ملتا ہے۔یہاں کے آتش فشاں پہاڑ پومپیائی کا ذکر بھی ہے اس میں۔ اطالوی لوگوں کاشماریورپ کے حسین ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔دنیا کے تمام بڑے قدیم فلاسفر یہں پیدا ہوئے تھے۔اٹالین فرنیچر اور فن تعمیر آج بھی دنیا میں مقبول ہے۔اٹلی کا نقشہ ہیل والے لمبے برفانی جوتے سے ملتا جلتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جوتے جیسے نقشے والے ملک کے جوتے بھی بہت مقبول ہیں۔ اس کے علاوہ چمڑے کے بیگ اور دوسری مصنوعات بھی دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔یہاں الیکٹرونکس اور زرعی آلات بنانے کی فیکٹریز بھی ہیں۔ پاکستان میں زرعی آلات کی بیشتر مصنوعات اٹلی کی ہوتی ہیں۔ وہاں ڈسٹری بیوٹرز یہ مشینیں کسانوں کو فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ اچھے ڈسٹری بیوٹرز کو اٹلی ہر سال دنیا کے مختلف ممالک کی سیر بھی کرواتا ہے۔میلان ایک صنعتی شہر ہے۔ پرانے شہر میلان میں مشہور ماڈلز کا شاپنگ سنٹر ڈومس ہے۔جبکہ میلان سے ایک گھنٹے کی مسافت پہ یورپ کا سب سے برا شاپنگ سنٹر بیرگامو ہے۔اسکے ساتھ ملحقہ ایر پورٹ بھی ہے۔ بیرگامو سنٹر میں دو سو کے لگ بھگ دوکانیں ہیں۔کئی دوکانیں تو ایسی ہیں جو کہ چین میں ہیں یعنی انکس سلسلہ پورے یورپ میں ہے۔ لیکن انہی دوکانوں پر ناروے کی نسبت چیزیں سستے داموں مل جاتی ہیں۔پرس اور جوتوں کی اس قدر ورائٹی ہے کہ انتخاب کرنا ایک مسلہء ہوتا ہے ۔ اسکے علاوہ سستی فلائٹس پر وزن بھی دس کلو سے زیادہ نہیں لے جا سکتے۔اگر بک کروائیں تو پھر کوئی فائدہ نہیں۔ اسلیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ صرف انتہائی ضرورت کی چیزیں رکھیںسستا لباس وہیں سے خرید کر پہنیں۔تب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ ورنہ پھر پھر اعلیٰ کوالٹی کے قیمتی پتھر اور ہیرے مناسب داموں پہ خرید لیں انکا وزن بھی زیادہ نہیں ہوتا۔
بچپن میں ٹی وی پر اٹلی کے تاریخی سیریل چلا کرتے تھے۔ اور کئی تاریخی فلموں میں اٹلی کے مناظر بھی فلمائے جاتے تھے۔ اسکول کا زمانہ تو ہسٹری اور جغرافیہ کے خشک مضامین یاد کرتے کرتے گزرے ۔ ہماری تاریخ کی میڈم صدیقی اور جغرافیہ کی میڈم خورشید دونوں ہی بہت سخت تھیں۔بڑی مشکل سے ان مضامین کے اسباق یاد ہوتے تھے۔جیسے ہی ہسٹری کی میڈم صدیقی آتی تھیں پوری کلاس پر خطرناک مرض نسیان کا حملہ ہو جا تا تھا۔مگر آج انہی اسباق کی وجہ سے اٹلی آج اتنا اجنبی نہیں لگ رہا تھا۔ہم لوگ جیسے ہی میلا ن کے مالپنس(Malpinsa)ا ایئر پورٹ پہ داخل ہوئے ہمارا استقبال مسکراہٹ سے عاری سیکورٹی کے عملے نے کیا۔ انہیں دیکھ کر مجھے اٹلی اور جرمنی کے ظالم حکمران ہٹلر اور مسولینی یاد آ گئے۔دوسری جنگ عظیم میں ان ظالمین نے دنیا کو خوب ستایا تھا۔تاریخ کے اوراق آج بھی ان کے مظالم کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔اییر پورٹ پر ایک اطالوی عورت مسولینی جیسی ٹوپی میں نظر آئی تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے مسولینی کی خالہ دیکھ لی ہے۔ایر پورٹ پر ہمیںہمارا میزبان عبدالقدیر لینے آیا ہوا تھا۔یہاں گرمی خوب تھی۔ہم لوگ گھر پہنچنے تک پسینے میں بھیگ گئے۔ ٹھنڈے ممالک سے گرم ملک جائیں تو وہاں پسینہ میں بھیگنا بہت بھلا لگتا ہے۔گھر پہنچ کر اپنے میزبانوں سے ملے۔یہاں ہمارے کزن کے بیٹے عبدالقدیر اور شبیر الدین رہتے ہیں۔ انکی بیگمات بھی بہت خوش اخلاقی اور تپاک سے ملیں۔ شبّی تو فطری طور پر بہت بذلہ سنج شخصیت کا حامل ہے۔ عبدالقدیر البتہ سنجیدہ مزاج ہے۔کبھی کبھی ہنسے، تو لگتا ہے کہ ایکٹنگ کر رہا ہے۔ جبکہ شبیر الدین سنجیدہ ہو تو لگتا ہے کہ اوور ایکٹنگ کر رہا ہے۔ انکی بیگمات عائشہ اور افشیں بھی خوشگوار موڈ کی مالک تھیں۔کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگوں نے گپ شپ کی اور اگلے تین روز کے پروگرام بنائے۔ طہ یہ پایا کہ جمعہ کو سوزرلینڈ ہفتے کو وینس اور اتوار کو میلان کا قدیم شہر دیکھیں گے۔سوزرلینڈ کا سفر شازیہ نورین کے ہمراہ تھا۔ اس نے ہمیں بارڈر پہ ملنا تھا۔ہم لوگ اگلے روز حسب پروگرام سوزرلینڈ کے بارڈر کی جانب روانہ ہوئے۔ جیسے جیسے ہم لوگ سوزرلینڈ کی جانب بڑھتے گئے۔ قدرت کا دلفریب حسن اپنا جادو جگانے لگا۔ پھر راستے میں نورین سے ملاقات اور وہ بھی پہلی ملاقات نے اس سفر کو یادگار بنا دیا۔ہم لوگ اٹلی کے بارڈر پہ واقع شہر قومو سے سوزرلینڈ کے شہر کیاسو کی جانب بڑہے۔ کیاسو اور قومو جڑواں شہر ہیں۔ لیکن سوزرلینڈ کے شہر میں اطالوی زبان ہی بولی جاتی ہے۔
ابھی ابھی جبکہ میں یہ سفر نامہ لکھ رہی ہوں اور اٹلی سے شازیہ نورین کا فون آیا ہے۔ ہے نا دلچسپ بات وہ مجھ سے اٹلی دوبارہ جانے کے پروگرام کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔ اگر ہم سفر حسین ہو دلچسپ ہو تو سفر بہت خوبصورہو جاتا ہے۔ شام ڈھل رہی تھی۔ سوزرلینڈ کے پہاڑ اسٹیپ میں تھے۔ آگے سب سے چھوٹا پہاڑ اس سے پیچھے اس سے بڑا پھر اس سے پیچھے اس سے بڑا۔پھر پہاڑوں کا کٹائوبڑا انوکھا تھا کہیں پہ پہاڑ کی بلندی پر تکون نے بجائے پلین نظر آتا اور پھر ڈھلان شروع ہو جاتی۔شام ڈھلے ہم لوگ سوزر لینڈ کے سرحدی علاقہ میں پہنچے۔ نورین ہمیں اپنے بھائی کے گھر لے گئی۔ اس کے بعد ہم لوگ ایک قدیم تاریخی قلعہ میں گئے۔ اسکی نویں منزل پہ جا کر فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوئے اور رات گئے گھر لوٹ آئے۔ نورین سے اسکی نظمیں اور غزلیں بالمشافہ سنیں بے حد لطف آیا۔ جلد ہی قارئین کی خدمت مین اس شاعرہ کا انٹر ویو بھی پیش کرو ں گی۔
I found the info on this blog valuable.