مقبولیت

مقبولیت
.صبیحہ اقبال

 

قربانی کا جانور ایسا ہونا چاہیے کہ اس پلازہ میں کوئی دوسرا نہ ہو رات فرخندہ نے علیم صاحب کو یاددہانی کرائی تھی۔
ہاں بھئی اپنی طرف سے تو اچھا سے اچھا ہی دیکھا جاتا ہے بالکل بیٹی کے بر کی طرح علیم صاحب نے بیوی کو یقین دہانی کرائی تھی۔
آپ ایسی مثالیں تو نہ دیں کبھی کبھی انسان بیٹی کا بر دیکھنے میں دھوکا بھی تو کھا جاتا ہے جیسے میرے والدین نے جملے کا آخری حصہ انہوں نے نہ جانے سنجیدگی سے کہا تھا یا شوخی سے، لیکن علیم صاحب اسے نظرانداز کرگئے بعض اوقات قربانی کرنے میں بھی بندہ دھوکا کھا جاتا ہے فرخندہ! لیکن فرخندہ ایسی گہری باتیں بھلا کہاں سمجھتیں۔
٭
اس مرتبہ تو آپ نے میرے ارمانوں کی لاج رکھ لی فرخندہ نے شوہر سے کہا۔
ارے بھئی کیا ہوگیا، آج ہم پر یہ مہربانیاں خیر تو ہے؟
بیل تو آپ ایسا لائے ہیں کہ پورے پلازہ میں کسی کا نہیں فرخندہ نے اپنی مسرت کا اظہار کیا۔
اللہ قبول فرما لے علیم صاحب عاجزی سے بولے۔
اب بس یہ فکر ہے کہ H16 فلیٹ والے کہیں ہم سے بڑھ کر نہ خرچ کر آئیں، کیونکہ وہ اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے یہ تو پھر بیل ہے۔ فرخندہ کھسیانی ہنسی ہنسں۔
آتی جاتی رتیں، بدلتے موسم، حالات انسانی احساسات پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں، لیکن انا پرستوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے موسموں ہی کے زیراثر رہتے ہیں اور رنجیدگی ہی مقدر بنا لیتے ہیں۔ یہی حال فرخندہ کا بھی تھا۔ اس مرتبہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پورے خاندان اور پلازہ میں جس جس نے ہمیں نظرانداز کیا ہے نا، بندی نے اِس مرتبہ ان میں سے کسی کے ہاں بھی قربانی کا گوشت نہیں بھیجنا۔ بیل کو دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی ان کی انا اسے پھر کھا گئی تھی۔
٭
اب میں نجمہ آپی اور نغمہ کے ہاں بھی ویسا ہی روکھا سوکھا گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا پکڑا دوں گی جیسا جاثیہ نے مجھے پچھلے سال بھیجا تھا۔ میں بھی تو آخر جاثیہ کی نند ہی تھی، پھر میں کیوں ڈروں اور دبوں کہ انہیں خون بھر بھر کر گوشت دوں۔ وہ کافی دیر سے اپنی بڑی آپا کے قریب بیٹھی عیدِ قرباں پر محوِِ گفتگو تھی۔ اور جاثیہ اس سے تو پورا پورا بدلہ لینا ہے، سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو! فرخندہ دل بھر کر کڑھ رہی تھیی اور بڑی آپا سوچ رہی تھیں کہ فرخندہ پڑھی لکھی ہوکر بھی قربانی کی غرض وغایت پر نظر نہیں کررہی ہیں اور اپنے رویوں سے خوبصورت رشتوں پر غم کی چادر چڑھانے چلی ہیں، کہ خوشی یا تہواروں کے موقع پر اپنوں کے دیئے غم ہمیشہ لو دیتے رہتے ہیں۔
٭
جس دن سے بقرعید کا چاند نظر آیا تھا فرخندہ مسلسل ٹینس تھیں کبھی رشتہ داروں کے رویے تو کبھی پاس پڑوس سے وابستہ تلخ یادیں وہ بیل کی قربانی کے بعد بننے والے حصوں کو انگلیوں پر شمار کرتیں اور ہر مرتبہ اس میں سے ایک دو مائنس کردیتیں۔ کم ان لوگوں کو کرتیں جن کے رویوں سے انہیں اپنے کم تر ہونے کا احساس ہوا تھا اور وہ اپنے تئیں یہ برداشت نہیں کرسکتی تھیں۔ انا خیر کا شیطانی وسوسہ انہیں اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔
فرخندہ نے تو پانچ پانچ کلو گوشت والے چند شاپرز منگوائے تھے، مگر یہ علیم صاحب چھوٹے چھوٹے بھی ڈھیروں شاپرز اٹھا لائے تھے۔ یہ کس لیے؟ فرخندہ نے سوال کیا۔ کیا سارا گوشت گھر میں رکھ لینے کا ارادہ ہے؟ علیم صاحب نے الٹا انہی سے سوال کرڈالا۔ آخر کو تیسرا حصہ تو ہمارا ہے ہی ناں۔ انہوں نے ڈیپ فریزر کو خالی کرتے ہوئے شرعی مسئلہ بیان کیا۔ اور پھر اِدھر ادھر سے بھی آیا گیا ہوتا ہے تو سب ہی کو سنبھالنا، رکھنا ہوتا ہے، سارا انہی دنوں میں تو استعمال نہیں ہوجاتا ناں۔ ہمیشہ کی طرح فرخندہ نے علیم صاحب کو دلیل دی تھی۔
لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ہم عارضی لالچ کے بجائے اخروی نتیجے پر نظر رکھیں اور بس اپنی ضرورت بھر رکھ کر باقی سب تقسیم کردیں۔ علیم صاحب نے حتی المقدور فرخندہ کو سمجھانا چاہا۔
لو اِن دنوں تو سب ہی کے ہاں گوشت ہوتا ہے۔ قدر کرتا ہے کوئی! فرخندہ بھلا کہاں ماننے والی تھیں۔
میں نے سوچا ہے علیم صاحب نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا اِس مرتبہ سارا گوشت کلو سوا کلو کے شاپرز بناکر کسی ایسی بستی میں تقسیم کر آئیں گے جہاں قربانی نہیں ہوتی یا برائے نام ہوتی ہے۔ اس عید پر تو قربانی کا ریشو حالات کی سنگینی کے سبب پہلے ہی بہت متاثر ہے، جن کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو وہاں قربانی کیسی؟ علیم صاحب دردمندی سے حالات کا تجزیہ کررہے تھے اور فرخندہ بیگم دل ہی دل میں اپنی کھاتی پیتی دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں اپنی ناک اونچی کرنے کے حوالے سے منصوبہ بندی میں مصروف تھیں یا فریزر کو بھرنے کے حوالے سے فکرمند۔
٭
مرحا! مرحا! دیکھو بیٹا میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔
کیا بابا کیا؟ مرحا کچن سے دوڑتی ہوئی آگئی۔
بوجھو تو جانیں علیم صاحب نے شاپر کو اوٹ میں کرلیا تھا۔ وہ نفسیات کے طالب علم رہے تھے اور اس وقت وہی گر آزما رہے تھے۔
چوڑیاں مرحا نے موقع کی مناسبت سے بوجھا تھا۔
اوں ہوں
میرے کپڑے
انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔
مصالحے کے پیکٹ
نہیں۔
تو پھر کیا ہے؟ فرخندہ کا تجسس بھی بڑھا تھا۔
بوجھیں بوجھیں وہ بے نیازی سے بولے۔
بابا ہم نے ہار مانی، آپ خود ہی بتادیں۔ مرحا نے اپنی ہار کا اعلان کردیا۔
یہ یہ لو انہوں نے بڑا سا شاپر مرحا کے سپرد کیا تو فرخندہ بھی اسی طرف متوجہ تھیں۔ ڈبہ، پھر ایک اور ڈبہ پھر ایک اور تجسس بڑھ رہا تھا اور آخر سی ڈی مرحا نے نعرہ لگایا۔
اس سی ڈی میں آخر ہے کیا جو اتنا سوانگ رچایا ہے؟ فرخندہ کو خجالت کے ساتھ ناراضی بھی تھی۔ جب لوہا تپ رہا ہو چوٹ اسی وقت کارآمد ہوتی ہے۔ فرخندہ بیگم کے سلسلے میں وہ یہ گر پہلے بھی کئی مواقع پر کامیابی سے استعمال کرچکے تھے۔ مرحا نے سی ڈی فورا سی ڈی روم میں ڈال دی اور فرخندہ وہیں ٹک گئیں۔ ونادینہ ان یا ابراہیم قد صدقت الرویا یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے سپرد تھا اس میں تم نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اولاد جیسی نعمت کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو پھر انا کذلک تجزی المحسنین ہم محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یعنی جب ایک بندہ اپنے رب کے حکم پر سرتسلیم خم کرتا اور اپنے جذبات کی پروا کیے بغیر قربانی کے لیے تیار ہوتا ہے تو اللہ اسے دنیاوی تکالیف سے بھی بچا لیتے ہیں، آخرت کے اجر سے بھی نوازتے ہیں اور دنیا میں بھی اس کی شہرت و عزت کو دوام حاصل ہوتا ہے جیسے
بابا بس بات تو اصل یہی ہے۔
ہاں تو بیٹا اب بتائو کہ محض مزے مزے کے گوشت کے پکوان پکانے کھانے ہیں یا ذبیح عظیم کی تلاش ہے۔ ظاہرا تو علیم صاحب بیٹی سے مخاطب تھے لیکن سنتا کوئی اور ہے کہ کیفیت میں فرخندہ بیٹھی کی بیٹھی رہ گئیں۔ ان کی خاموشی ان کے تفکر کا پتا دے رہی تھی۔ ہاں اللہ کی نگاہ ہماری صورتوں اور اموال پر نہیں بلکہ قلوب و اعمال پر ہے۔ فرخندہ جیسے کہیں دور سے بول رہی تھیں۔ پھر جب جانور کو ذبیحہ کے لیے لٹاتے ہیں تو اللہم لک و منک کہ کر ا بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ تیرا مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے پھر اس پر میرا تصرف کیا؟ فرخندہ کے اس جملے پر علیم صاحب کو لگا کہ جیسے قربانی ذبیحہ سے پیشتر ہی قبول کر لی گئی ہو۔

,,,,,,,,,,,

اپنا تبصرہ لکھیں