فیشن
..عذرا سلطانہ
> فیشن بظاہر ایک بے ضرر سا لفظ نوجوانوں اور خواتین میں خاصا مقبول میڈیا کا> پسندیدہ موضوع اور سرمایہ دار ساہوکار کا موثر ہتھیار دراصل یہ لفظ بباطن> ایک ہمہ گیر فتنہ اور تہذیب کے لیے زہرِ ہلاہل ہے۔ یہ درحقیقت ایک مکمل نظام> حیات کا نام ہے جس کے اپنے اصول اور اپنے ضابطے ہیں جو اسلام کے اصول و ضوابط> سے براہِ راست ٹکراتے ہیں۔ یہ بات ہم یونہی رواروی میں نہیں کہہ رہے بلکہ اِن> شا اللہ آئندہ سطور میں اس کو ثابت بھی کریں گے۔> اسلام میں ماخذِ قانون، ماخذِ رسوم اور ماخذِ اصولِ معاشرت اللہ اور رسول کی> تعلیمات ہیں۔ جبکہ فیشن کا ماخذ فلم انڈسٹری ہے۔ گویا ایک طرف اسلام ہمارا> قبلہ خانہ کعبہ کو قرار دیتا ہے تو دوسری طرف فیشن اس کا رخ موڑ کر فلم> انڈسٹری کی طرف کردیتا ہے۔ فلم انڈسٹری جو کہ اسلامی اقدار و روایات اور> تعلیمات ِنبوی کی عین ضد ہے۔> کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ معاشرے میں یہ فیشن کہاں سے آتے ہیں اور چھوت کی> بیماری کی طرح معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں؟ کبھی اچانک> کوئی ہیراسٹائل مقبولیت حاصل کرلیتا ہے اور کبھی کپڑوں کی کوئی خاص تراش خراش> اونچی قمیص نیچی قمیص بڑے پائنچے چھوٹے پائنچے اور اب تو نوبت ہاں قمیص اور> ناں قمیص تک آپہنچی ہے۔ جب چار گرہ کپڑے سے کام چل سکتا ہے تو پھر سات گز کپڑے> کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے (نعوذ باللہ من ذالک)۔> ہاں! آپ میری بات کو اس طرح چیلنج کرسکتے ہیں کہ فیشن تو بجائے خود ایک> انڈسٹری ہے اور فیشن ڈیزائننگ اداکاری سے الگ شعبہ لیکن جناب یہ دراصل فلم> انڈسٹری اور میڈیا کی ایک طفیلی صنعت ہے اور بس> وضعداری ہمارے معاشرے کا ایک بڑا پیارا اصول تھا۔ اس وضعداری کی وجہ سے کتنے> ہی سفید پوشوں کا بھرم رہ جاتا تھا۔ اس فیشن کے ہاتھوں اس کا بھی قلع قمع ہوا،> اور ایسا ہوا کہ آج بچے لفظ وضعداری کے معنی بھی نہیں جانتے۔> کچھ عرصہ پہلے جب ہمارے معاشرے کو فیشن کا نیا نیا بخار چڑھا تھا تو نانیاں،> دادیاں اور بڑے بوڑھے ہی ذرا دقیانوسی لگا کرتے تھے۔ اب تو نوبت یہاں تک> آپہنچی ہے کہ آپ صبح سوکر اٹھتے ہیں تو آئوٹ ڈیٹڈ ہوچکے ہوتے ہیں۔ کیونکہ> (ہماری ملکی پالیسیوں کی طرح) فیشن نے راتوں رات یوٹرن لے لیا ہوتا ہے۔> ہاں تو ہم یہ بات کہہ رہے تھے کہ سب سے پہلے بات جو غور کرنے کی ہے وہ یہ کہ> فیشن کا ماخذ کیا ہے؟ اور مسلم روایات کا ماخذ کون سا ہے؟ اور ہمیں دونوں میں> سے کس سے وفاداری نبھانی ہے۔ یاد رکھیں اسلام کا مطالبہ صبغ اللہ ہے، اور> فیشن کے اپنے رنگ ہیں اور اپنے ڈھنگ اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ہر> چیز اپنی تکمیل چاہتی ہے۔ جس وقت ہم ایک بے ضرر سا کام فیشن سمجھ کر اختیار> کرتے ہیں اسی لمحے ایک نئے فتنے کا دروازہ خود پر اور خاندان پر کھول بیٹھتے> ہیں۔> اسلام یا فیشن ایبل زندگی جسے آئندہ سطور میں ہم جاہلیت ِجدیدہ کہیں گے،> دراصل دو مکمل پیکج ہیں۔ ان میں سے آپ ایک ہی کو اختیار کرسکتے ہیں۔> اس کے لیے ہم ایک چھوٹی سی مثال لے سکتے ہیں حجاب کی جب تک ہم نے حجاب کو> دین کا ایک اصول سمجھا ہمارا روایتی برقع یا ایک بڑی سی چادر اس ضرورت کو> پورا کرتی رہی، اور جب اس حجاب میں ہم نے فیشن کو داخل کرلیا تو کیا وہ اسلام> کا مطلوبہ حجاب رہ گیا؟ آج حجاب کے کتنے رنگ روپ کتنے انداز اور فیشن ہیں،> لیکن غور کیجیے کہیں حجاب بھی ہے! چلیں اب ہم بات کو ذرا وضاحت سے بیان کرتے> ہیں۔ پہلے یہ غور کرلیں کہ ہم پردہ کیوں کرتے ہیں؟ زینت کو چھپانے کے لیے> لیکن جب حجاب خود زینت بن جائے یہ کڑھے بنے برقعے یہ قسم قسم کے اسکارف کیا> بجائے خود سامانِ زینت نہیں! پھر اسراف ِبیجا کا ایک طوفان ہے جو اس حجاب کے> ساتھ ہماری زندگیوں میں داخل ہوگیا۔> تو جناب پہلی بات تو یہ ہوئی کہ فیشن کا ماخذ ہمارے ماخذ سے بالکل مختلف ہے۔> اب آگے بڑھتے ہیں۔ جب ہم غور کرتے ہیں تو ایک اور بات جو بہت اہم ہمیں نظر آتی> ہے وہ یہ کہ اس روز روز کے بدلتے فیشن نے ہماری بہت سی ایسی معاشرتی اقدار اور> روایات کا صفایا کردیا ہے جو ہمارے معاشرے کا ستون تھیں، اور نتیجے کے طور پر> آج ہر فرد فکرِ معاش کے ایک ایسے بھنور میں پھنسا نظر آتا ہے کہ اس کے پاس کچھ> اور سوچنے کچھ اور نباہنے کچھ اورکرنے، یہاں تک کہ اپنی ذات کے لیے بھی وقت> نہیں بچا ہے۔> ہمارے معاشرے کا ایک بہت قیمتی جوہر بہت قیمتی قدر ہے قناعت اس کا تو> اس فیشن کے ہاتھوں یہ حال ہوا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے اس صدی میں یہ لفظ> متروک قرار دے کر لغت سے خارج کردیا جائے گا۔ آیئے ذرا غور کریں کہ قناعت کیا> چیز تھی اور اس فیشن کے ہاتھوں کس طرح اپنے انجام تک پہنچی۔ سب سے پہلے ہم> اپنے وارڈ روب کی طرف چلتے ہیں، پھر اس کا تقابل اپنے والدین یا ان کے والدین> کے وارڈ روب سے کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان دونوں میں کتنا بعد المشرقین> ہے۔ ہمارے بزرگ چند جوڑے بناکر سال بھر ہنسی خوشی اسی میں گزارا کرتے تھے۔> اچھے قیمتی جوڑے تو شاید زندگی میں چند بنتے تھے جو تمام تقریبات اور تہوار> نکال جایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ کے ایک ایسے کرتے کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے> جو ہر دلہن کے لیے مانگ کر جایا کرتا تھا وہ تو سابقون الاولون میں سے تھیں> لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بھی ہمارے بڑوں کی زندگیوں میں اس حدیث کی جھلک> ملتی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو چاہو کھائو اور پہنو مگر دو چیزیں نہ ہوں:> اسراف اور تبذیر۔> ایک طرف ہمارے بزرگ تھے، دوسری طرف ہم ہیں کہ ہمارے جوڑے سال میں چار بار> آئوٹ ڈیٹڈ (Out Dated) قرار پاتے ہیں۔ کبھی نیا پرنٹ آگیا اور کبھی نئی تراش> خراش۔ فیشن کے اس تلون نے خواتین کو تو کچھ اور سوچنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا> ہے۔> کپڑے خریدنا سلوانا سنبھالنا، اور پھر نئے سرے سے نئے اسٹائل نئے پرنٹ کے> کپڑے کے لیے اسی چکر میں الجھ جانا ہماری خواتین کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔> نتیجہ بجٹ پر ناقابلِ برداشت بوجھ الماریوں میں گنجائش سے زیادہ سامان اور> وقت کی شدید کمی۔ عمریں رائیگاں جارہی ہیں۔ وہی وقت جو بچوں کی تعلیم و تربیت> رشتہ داروں کی خبر گیری مصیبت زدہ کی مدد یا کسی اور تعمیری کام پر خرچ ہونا> تھا وہ سارا اس شیطانی چکر کی نذر ہوگیا۔> اور پھر فیشن کا دائرہ صرف کپڑوں تک محدود نہ رہا۔ آپ کا مکمل طرزِحیات اس کی> زد میں آگیا۔ اس کی زد آپ کے گھر پر بھی پڑی گھر جو معاشرے کی بنیادی اکائی،> پہلی اینٹ ہے یہ ہی ٹیڑھی ہوگئی۔> ایک چھوٹی سی مثال بیت الخلا کی لے لیں۔ ہمارے طرزِ حیات میں یہ رہائشی گھر> سے ہٹ کر صحن کے کونے پر ہوا کرتے تھے۔ اب بیڈ روم میں آگیا۔ یوں پاکی اور> ناپاکی کا احساس ختم ہوا، اور نصف ایمان جاتا رہا حدیث ہے الطھور شطر> الایمان ہم نے اس کا ترجمہ کیا صفائی نصف ایمان ہے۔ گھروں میں صفائیاں> ہوتی رہیں اور طہارت یعنی پاکی کا خیال ہی دل سے ہٹ گیا۔ پھر اس فیشن کی زد آپ> کے کچن پر پڑی۔ کچن کی تعمیر میں تبدیلیاں آئیں۔ آج امریکن کچن کا فیشن ہے تو> اگلے سال اٹالین کچن مارکیٹ میں اِن ہے۔ وسائل کا ایک بڑا حصہ اس کی نذر ہوا۔> شوہر بے چارہ مقروض ہوا یا کریڈٹ کارڈ کے چکر میں پھنسا، آپ کا گھر تو مشرف بہ> فیشن ہوگیا۔ کھڑے ہوکر کھانا پکانے کی عادت نے صحت کے مسائل پیدا کیے وہ الگ۔> کھانوں کے روز نت نئے بدلتے انداز سونے جاگنے کے اوقات غرضیکہ آپ کی زندگی> کا کون سا شعبہ ہے جس کو اس فیشن کی دیمک نے چاٹ نہیں لیا ہے!> فیشن میں سچ بتائوں تو یہ طاغوت کی غلامی کی ایک ایسی قسم ہے جو قبر تک> ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ لہذا آیئے آج سے اس جاہلیت ِجدیدہ سے توبہ کریں اور> دوبارہ سے مسلمان بن جائیں سیدھے، سچے، قانع مسلمان۔> خدارا اپنی اولا د کو بھی چھوت کی اس بیماری سے بچایئے۔ میں نے بہت ساری> دیندار خواتین کو بھی اپنی اولاد کے معاملے میں بے بس دیکھا ہے۔ جب بچہ چھوٹا> سا ہی ہو اس وقت اس کے دل میں اسلامی اقدار و روایات کی محبت ڈالیے، فیشن کی> نہیں۔ خدارا فیشن کو بچپن میں بے ضرر نہ سمجھیں۔ جو فیشن آپ کو بے ضرر نظر> آرہا ہے یہ دراصل ایک ننھا سا بیج ہے جو آج آپ اپنی اولاد کے دل میں بودیں گی> جو جھاڑ جھنکاڑ بن کر آپ کی تربیت کی سرسبز کیاری کو نگل جائے گا۔> چلتے چلتے فیشن کے بارے میں میری بیٹی فارحہ کی بنائی ہوئی ایک پہیلی ملاحظہ> ہو۔> ایک چیز جو روز ہی بدلے اس کے پیچھے بھاگیں پگلے> آیئے آج سے عہد کریں کہ ہم فیشن کے پیچھے بھاگ کر پگلے ہونے کا ثبوت نہیں دیں> گے بلکہ باعمل مسلمان بن کر اپنی نسلوں کے لیے نمونہ بن جائیں گے۔> وماعلینا الاالبلاغ
عذ راآپ نے ٹھیک لکھا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ فیشن کی وباء ہمارے مشرقی معاشروں میں ذیادہ ہے مغرب میں تو لوگ ایک ہی لباس میں کئی روز گزار لیتے ہیں جیسے ایک جینز کی پرانی پھٹی پینٹ اور اس کے ساتھ کوئی سی بھی قمیض مگر ہمارے ہاں تو کئی کئی گز کے کپڑے بھی ناکافی ہوتے ہیں۔جس قدر غریب ملک ہو گا فیشن میں اسی قدر آگے ہو گا۔اسی طرح اٹیچ باتھ کا فیشن مغرب میں نہیں مگر مشرقی ملکوں نے اسے گلے سے لگایا ہوا ہے۔شازیہ ناروے