اشارے
تحریر شازیہ عندلیب
وہ نیلے سوٹ والاشخص تمہیں اشارے کر رہا ہے ۔وہ میری سائیڈ والی تیسری ٹیبل پر دیکھو۔علیشا نے اپنے سامنے بیٹھی دوست مینال کو دھیمی آواز میں بتایا۔میرا خیال ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔یہ سن کر مینال گھبرا گئی۔ مجھے کیوں کوئی بلانے لگا یہاں میں تو اس شہر میں نئی آئی ہوں میں یہاں کسی کو نہیں جانتی۔وہ مجھے نہیں تمہیں بلا رہا ہو گا۔یہ کہ کر وہ میڈم کی بات سنننے لگی ۔مینال اور علیشاہ ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرر تھیں۔ آج ایک مقامی ریستوران میں میٹنگ کے سلسلے میں وہاں اسٹاف کے ساتھ موجود تھیں۔یہ کل بیس افراد پہ مشتمل گرلز کالج کا عملہ تھا۔مینا ل کی بھی نئی نئی شادی ہو ئی تھی ۔ وہ کراچی سے پشاورر آئی تھی۔اس کے گھر کا ماحول کسی حد تک اسلامی تھا ۔اسے بہت مشکل سے جاب کی اجازت ملی تھی مگر وہ بھی اس صورت میں کہ حجاب کے ساتھ گھر سے باہر نکلنا ہے۔اسکی شادی کو ابھی چند ہی ماہ ہوئے تھے۔ اس نے اپنی ٹرانسفر اسی شہر میں کروا لی تھی۔آج میٹنگ اور ڈنر کے سلسلے میں کالج کی جانب سے ایک بڑی میز بک کروا ئی گئی تھی۔ہال میں ایک جانب بڑی ٹیبل تھی جبکہ دوسری جانب چھوٹی میزیں لگی ہوئی تھیں۔وہ لوگ اب میٹنگ سے فارغ ہو کر ڈنر کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔کھانے کی اشتہا انگیز مہک مختلف خوشبوئوں کے ساتھ مل کر ایک عجب احساس دے رہی تھیں۔پس منظر میں دھیمے سروں میں موسیقی کی دھن فضاء میں ایک خوشگوار تاثر دے رہی تھی۔ایسے خوشگوار ماحول میں ہر کوئی بے فکری سے کھانے میں اور گپ شپ مصروف تھا مگرمینال کو فکر لگ گئی تھی۔علیشا نے تو مینا ل کو یہ کہ کر پریشان ہی کردیا تھا کہ وہ شخص تم سے ہی بات کرنا چاہتا ہے تم اس کی طرف دیکھو تو سہی۔وہ سوچ میں پڑ گئی کہ وہ تو یہاں کسی کو جانتی بھی نہیں تھی پھر یہ کون ہو سکتا ہے؟ شائید کوئی تنگ کر رہا ہو گا اگر گھر میں کسی کو پتہ چلا تو کتنی پریشانی ہو گی اور پھر شائید جاب کرنے کی بھی اجازت نہ ملے۔ یہ سوچ کر تو اس کی بھوک ہی اڑ گئی۔ وہپریشان ہو گئی۔ اسے اپنے کالج کا واقعہ یاد آگیا۔ چند برس پہلے کی بات تھی کہ ایک روز اسے گھر لے جانے کے لیے گاڑی نہ آسکی تو اسے بس سے جانا پڑا۔وہ بس اسٹاپ پہ کھڑی تھی اپنی کالج فیلوز کے ساتھ دوسری جانب سے ایک لڑکا سکی جاب آیا اور کہنے لگا مس آپ سے ایک بات کرنی ہے آپکا نام کیا ہے؟وہ کیوں وہ غصہ سے بولی۔میں کیوں بتائوں تمہیں اپنا نام ۔پھر وہ دل ہی دل میں بہت ڈری کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات ہو چکے تھے کہ لڑکے لڑکیوں کو تنگ کرتے تھے۔پھر اسے ایک لڑکی گھر تک چھوڑنے گئی۔اس کے بعد ڈر کے مارے وہ کئی دن تک کالج ہی نہیں گئی۔اسی طرح پچھلے دنوں فیصل آباد میں لڑکوں کا ایک گروپ کالج کی لڑکیوں کو تنگ کرنے کے الزام میں پکڑا گیا۔یورپ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا نہ جانے پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسا ماحول کیوں بنا ہوا ہے۔اس کے گھر کا ماحول میں مردوں سے آزادانہ میل جول کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔جیسا کہ اکثر مذہبی گھرانوں میں رواج ہے۔مگر اب یہ سارے اسٹاف کے سامنے کون ہے ۔لوگ کیا سوچیں گے یہ سوچ سوچ کر اس کا دماغ مائوف ہو رہا تھا۔تین مرتبہ تو علیشا اسے کہہ چکی تھی کہ پلیز تم اس کی طرف دیکھو اسے شائید تمہیں کچھ کہنا ہے۔پھر جب علیشا نے چوتھی مرتبہ اسے کہا کہ پلیز تم اسے دیکھو ورنہ میں یہاں سے اٹھ جائوں گی۔اسے ناچا راسکی طرف دیکھنا ہی پڑا ۔او رجب اس نے اسے دیکھا تو چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی کیونکہ وہ اسکا شوہر تھا جو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ میں تمہیں لینے کالج نہیں جائوں گا یہں سے گھر چلیں گے۔ موبائیل میٹنگ کی وجہ سے آف تھا اور پیغام موصول نہیں ہو سکتا تھا۔
2013/1/23 Ahmad Safi
بہت دلچسپ تحریر۔۔۔ سسپنس آخر تک برقرار رہا جو اتنی مختصر کہانی میں کمال کی بات ہے۔۔۔۔
مختصر فارمیٹ میں قارئین کے سوچنے کے لئے یہ چھوڑ دینا کہ ان خاتون کے شوہر وہاں کیسے پہنچے، ایک اچھا موڑ ہے اسے کہانی کا جھول نہیں کہہ سکتے۔
پڑھ کر مزہ آیا!۔
احمد صفی
2013/1/23 Muhammad Arif Sultan
Very nice!
Regards
2013/1/23 Abida Rahmani
شازیہ
ماشاءاللہ بیحد معصوم اور پاکیزہ جزبات ہیں
عابدہ
Assalmam u Alaikum
Boht Khoob.
Hamari haqiqi tehzib aur masriqi aurat ke kirdar ko wazeh kerti achothi tehrir hai. Albata agar akhbari Khabron aur Faisalabad k waqeye ka zikr na hota to shayad ye aur bhi ziyada ba asar ho jati. Bahar haal ye aik musbat surat dikhati tehrir hai.
Wassalam
Raja Muhammad Attique Afsar