دوہری شہریت کی بحث
عارف محمود کسانہ سویڈن
پاکستانی سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی پٹیشن کی سماعت کے دوران اور بعد ازاں فیصلہ میں بیرونی ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو جس صدمہ سے دوچار کیا اس کا اظہار اخبارات کی خبروں اور سوشل میڈیا میں ہورہا ہے۔ روزنامہ جنگ میں آصف ڈار، اعجاز اقبال اور رضا علی عابدی نے انہی جذبات کاحقائق کی روشنی میںاظہار کیا ہے۔یہ تو صرف دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی وفا پر انگلی اٹھائی ہے ابھی تو لاکھوں بیرونِ ملک مقیم وہ پاکستانی بھی ہیں جن کو دوہری شہریت کی سہولت حاصل نہیں اور وہ صرف اسی ملک کی شہریت رکھتے ہیں جہاں وہ مقیم ہیں۔ ، وہ تو اور بھی نچلے درجہ میں شمار کیے جاتے ہوں گے کیونکہ پاکستان کا صرف 16 ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کا معائدہ ہے۔ شمالی یورپ میں صرف سویڈن اُن16 ممالک میں شامل ہے جہاں رہنے والے پاکستانی دوہری شہریت رکھ سکتے ہیںجبکہ فن لینڈ، ڈنمارک اور ناروے کے ساتھ ایسا کوئی معائدہ نہیں ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی پٹیشن کی سماعت اور فیصلہ میں دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو غیر ملکی شہری قرار دینے اور اُن کی وفا داری کو مشکوک ٹھہرانے پر سویڈن، یورپ اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ طاہرالقادری کو کیس جو بھی ہو ، اُن کا ایجنڈا کچھ بھی ہو لیکن اعلیٰ عدلیہ کو بار بار دوہری شہریت کا سوال نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ عدالتی کاروائی سے محسوس ایسا ہورہا تھا کہ پٹیشن الیکشن کمیشن کے بارے میں نہیں بلکہ دوہری شہریت کا کیس سُنا جارہاہے ۔ دوہری شہریت کا قانون پاکستانی پارلیمنٹ نے بنایا ہے اور سپریم کورٹ اس کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیار نہیں رکھتی یا پھر پارلیمنٹ کو ختم کردیا جائے اور سپریم کورٹ خود ہی قانون سازی کا فریضہ سرانجام دے۔طاہرالقادری کے ساتھ مذہبی اور سیاسی اختلاف ممکن ہے لیکن اس کی بھینٹ اُن لاکھوں پاکستانیوں کو چڑھانا کہاں کی دانش مندی ہے جو رہتے تو وہاں ہیں مگر اُن کے دل میں پاکستان دھڑکتا ہے۔ دن کے وقت وہ اُن ممالک میں ہوتے ہیں لیکن رات کو اُن کی روح پاکستان پہنچ جاتی ہے اور وہ خواب بھی پاکستان کے ہی دیکھتے ہیں۔ عدالت طاہرالقادری کی درخواست اس بنیاد پر بھی رد کرسکتی تھی کہ الیکشن کمیشن پر تمام جماعتوں کا اعتماد ہے اور انتخاب میں بہت کم وقت بچا ہے ۔ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے پٹیشن خارج کی جاتی ہے جیسا کہ محمد خان جونیجو کی اسمبلی بحال کرنے کی درخواست مسترد کی گئی تھی ۔اس میں دوہری شہریت کے معاملہ پر بات کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بات کچھ سیاسی رہنماوئوں یا ٹی وی اینکروں کی ہوتی تو اس کی کچھ اہمیت نہ ہوتی لیکن یہ ٹھپہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے لگایا ہے جس کے فیصلے تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔ اضطراب اسی وجہ سے ہے بات گلوں تک رہتی تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیںجب بھی پاکستانی عوام اور حکومت کو ہماری ضرورت ہوتی ہے تو پاکستان کی محبت کو جذباتی انداز میں بروئے کار لا کر اپنا مطلب نکالا جاتا ہے۔ سیلاب اور زلزلہ کی قدرتی آفات ہوں یا قرض اتارو ملک سنوارو مہم، پاکستان کے لیے لابنگ کی ضرورت ہویا کوئی اور مسئلہ کام صرف بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی ہی آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر حکومتی زعماء یہ کہتے ہیں کہ ان ممالک کا پاسپورٹ لینا تو آپ کی ضرورت اور مجبوری ہے لیکن آپ ہم سے بڑے پاکستانی ہیں۔ ان ممالک میں رہتے ہوئے اپنے کام، رشتہ داروں سے ملنے، سیاحت اور دیگر وجوہات کی وجہ سے شہریت لینا ایک ضرورت ہوتا ہے۔ ملکہ برطانیہ کے حلف کو بہت ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے حالانکہ یہ اس اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ میں اس ملک کے قانون کا احترام کروں گا۔ جو لوگ پیدائشی پاکستانی شہریت رکھتے ہیں انہوں نے پاکستان کی وفاداری کا حلف نہیں اٹھایا پھر انہیں کیوں محب وطن سمجھا جاتا ہے۔ ایک آزاد ار خود مختار ملک ہونے کے باوجود ملکہ برطانیہ کی سرپرستی میںدولتِ مشترکہ میں پاکستان کی شمولیت کو کیا کہیں گے۔ اپنی وفا کو سچ ثابت کرنے کے لیے پہلے غلام ممالک کی تنظیم دولتِ مشترکہ سے علیحدگی اختیار کیجیے بھر فیصلے صادر کریں۔ سویڈن میں دوہری شہریت کے لیے کوئی حلف نہیں اٹھانا پڑتا اور نہ دوہری شہریت رکھنے کی بنا پر یہاں رہنے والے پاکستانیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سویڈن میں مقیم دوہری شہریت رکھنے والے کے بھی وہی حقوق ہیں جو ایک پیدائشی سویڈش شہری کو حاصل ہیں اور اُن میں کوئی تفریق نہیں ۔ بہت سے پاکستانی دوہری شہریت رکھنے کے باوجود اعلیٰ سویڈش عہدوں ، سیاسی جماعتوں کے عہدیداران اور منتخب اداروں میں موجود ہیں۔اُن کی دوہری شہریت کہیں بھی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ حیرت ہے کہ سویڈن میں دوہری شہریت کی بنا پر کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا مگر جس ملک کی شہریت انہیں پیدائشی طور پر حاصل ہے وہاں انہیں کمتر شہری بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے وہ بچے جو سویڈن میں پیدا ہوئے ہیں اور پیدائشی یہاں کے شہری ہیں وہ بھی جب سکول جاتے ہیں اور وہاں بچوں کو اپنے اپنے ملکوں کے جھنڈے بنانے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہی بناتے ہیں۔ مدتوں یہاں رہنے کے باوجود ہماری شناخت پاکستان ہی ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ہمیں غیر ملکی کہا جاتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ زاہدِ تنگ نظر نے کافر مجھے جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں ۔ حکومت پاکستان نے کیوں دوہری شہریت کی اجازت خود ہی دی ہے اگر کینڈا کے شہری کو اپنے ملک کی وفاداری میں نیٹو کے تحت پاکستان کے خلاف لڑنا پڑ سکتا ہے تو ایسے ملک کے ساتھ دوہری شہریت ہونی ہی نہیں چاہیے قصور حکومتِ پاکستان کا ہے۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے دوہری شہریت اور پاکستان اوریجن والوں کو واضح پیغام دے کر ایک مخمصے سے نکال کر اُن کا قبلہ درست کردیا ہے کہ اُن کا وطن وہی ہے جس میں وہ مقیم ہیں۔ وہ ہمارا ماضی تھا اور یہ ہمارا حال اور مستقبل ہے۔ ہمارا جینا مرنا اسی ملک کے ساتھ ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں۔ہماری محبت اور صلاحیتیں بھی یہاں کے لیے ہی ہونی چاہیے۔ یہاں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں یہاں کی سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ پاکستان کے مسائل پر کڑھنے اور پریشان رہنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی صلاحیتیں کس معاشرہ میں رہ رہے ہیں اُن کے لیے بروے کار لائیں۔ ویسے بھی یہ پہلی اور زیادہ سے زیادہ وسری نسل کا مسئلہ ہے۔ تیسری نسل یہ کہے گی کہ ہمارے آباواجداد پاکستان سے آئے تھے اور وہہماری طرح اس بحث میں نہیں الجھے ہوں گے اور اگر پاکستان کے مسائل پر اُن سے کوئی بات کرے گا تو وہ برملا کہیں گے سانوں کی لگے۔