یوم مئی کے حوالے سے دختر مزدور کی شادی کا احوال ۔
پچھلے دنوں ہما رے ایک سابق وزیر کے بیٹے کی شادی تھی جس میںملک کی تما م اشرفیہ مد عو تھی اس شادی کے حوالے سے کہا گیا کہ ہمارے ہان وزراء ،جاگیرداروں اور سر مایہ دارون کے گھرکی شادیاں کم بڑا سیا سی جلسہ زیا دہ محسوس ہو تی ہیں پچھلے سال ایک شادی کا اخبارون مین بڑا چر چا رہا جس میں صدر صاحب نے پا نچ لا کھ کی سلا می دی جو یقینا ان کے شایا ن شان تھی لیکن ! آج جس شادی کا ذکر کر ہی ہوں وہ یوم مئی کے حوالے سے ایک دخترمز دور کی شادی کا احوال ہے اس شادی کا نقشہ احسان دانش نے پیش کیاہے جو خود شاعر مزدور کہلا ئے اصل نا م قا ضی احسان لحق تھا جو علمی ادبی اور شعری حلقوں میں احسان دانش کہلا ئے وا لد ایک معمولی سپا ہی تھے بقول ان کے گھرمیںکپڑے رکھنے کو ایک مٹکا تھا مکان نہا یت بو سیدہ اور کواڑ ندارت تھے والدہ دوسروں کے کپڑوں کی سلائی اور آٹا پیس کر پیسے حاصل کر تیںتھیں ان کی سوانح عری جہان دانش کے نام سے شا ئع ہو ئی آپ نے 1982 ء میں وفات پا ئی خود بھی عملاٰایک مزدور تھے طویل عر صے تک مزدوری کی بوجھ اٹھائے ،گھروں پر سفیدی کی انہیں مزدوروں کے دکھوں اورتکا لیف کا عملی تجربہ تھا اس نظم میں انھوں نے ایک مزدور کی بیٹی کی شادی کی بھر پور تر جما نی کی ہے اس کے اشعار ہم سب کو سوچنے پر مجبور کر تے ہیں کہ آخرایسی بے بسی وبے کسی کیوں ؟ کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔
ہے دا غ دل اک شام سیا ہ پو ش کا منظر ۔ تھا ظلمت خاموش میں شہزادہ خاور
عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو ۔ انوار کے شا نوں پہ تھے ظلما ت کے گیسو
یہ وقت اور اک د خترمز دور کی ر خصت ۔ اللہ قیا مت تھی ،قیا مت تھی قیامت
نو شاکا جو سر پہ تھا با ندھے ہو ئے سہرا ۔ بھر پور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرہ
اند وہ ٹپکتا تھا بشا شت کی نظر سے ۔ مر جھا ئے سے ر خسار تھے فا قوں کے اثر سے
کر تا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پر انی ۔ مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جو انی
ہم راہ نفیری تھی نہ با جا تھا نہ تا شا ۔ آنکھوں میں تھا بے مہری عالم کا تما شا
مجمع تھا جس خستہ و افسردہ مکا ں پر ۔ تھا بھیس میں شادی کے و ہا ں عالم محشر
دالا ن تھا گو نجا ہوا رونے کی صدا سے ۔ اک درد ٹپکتا تھا عرق ناک ہو اسے
اما ں کی تھی بیٹی کی جدا ئی میںیہ حالت ۔ چیخو ں میں ڈھلتے جا تے تھے جذ با ت محبت
تھا با پ کا یہ حال کہ اندوہ کا ما را ۔ ا ٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہا را
لڑ کی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے ۔ گڑیا سی بنی بھیٹھی تھی چادر کو لپیٹی
تھا نہ پا ئوں میں پا زیب نہ ما تھے پہ ٹیکا ۔ اس خاکہ افلا س کارنگ تھا پھیکا
آخرنہ رہا با پ کے جذ با ت پہ قا بو ۔ تھر انے لگے ہو نٹ ٹپکنے لگے آنسو
کہنے لگا نوشہ سے کہ اے جا ن پدرسن ۔ اے و جہ سکوں لخت جگر نو ر نظرسن
اگرچہ میری نظروں میں ہے تا ریک خدائی ۔ حا ضر ہے میری عمرکی معصوم کما ئی
اس سانو لے چہرے پہ تقدس کی ضیاء ہے ۔ یہ پیکر عفت ہے یہ فا نوس جیسا ہے
اسکے لیے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے ۔ بیٹی ہے مری د ختر پر ویز نہیں ہے
غربت میں یہ پیدا ہو ئی غربت میں پلی ہے ۔ خودداری و تہذیب کے سا نچے میں ڈھلی ہے
زنہا ر یہ زیور کی تمنا نہ کر ئے گی ۔ ایسا نہ کر ے گی کبھی ایسا نہ کر ے گی
شکوہ اسے تقدیر سے کرنا نہیں آتا ۔ ادراک کی سر حد سے گزرنا نہیں آتا
ہے صبر کی خو گر اسے فا قوں کی ہے عادت ۔ ماں با پ سے پا ئی ہے وراثت میںقنا عت
اس کو خوشی ہو گی تمہا ری جو رضا ہو ۔ تم اس کے لیے دوسرے درجہ پہ خدا ہو
پھر آکے یہ بیٹی سے کہا نرم ز با ں سے ۔ بچی مری رخصت ہے تو اب با پ سے ماں سے
امید ہے ہر بات کا احساس رہے گا ۔ ماں با پ کی عزت کا پا س رہے گا
اے جان پدر ! دیکھ وفا دار ہی رہنا ۔ آئے جو قیا مت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا
دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی ۔ لا ج اس مری دا ڑھی کی ترے ہا تھ ہے بیٹی
مزدور کی بیٹی کی شادی
عینی نیا زی