مسکرائیے ! حضورآپ لکھنئو میں ہیں
راقم نے سنہ ٢٩٩١ میں،لکھنئومیں اردو کے معروف افسانہ نگار شری رام لعل جی کے ہاں کچھ دن قیام کیا تھا ۔ اس دوران لکھنوی تاریخ و تمدن اور ادب و ثقافت کے حوالے سے مختلف پہلووں پر گفتگو ہوتی رہی ۔ زیر نظر یہ مضمون اسی گفتگو کا نتیجہ ہے جو سنہ انیس سو بانوے ہی میں لکھا گیا تھا۔ اسیاب آپ سب کی نذر کرتے ہوئے امید رکھتا ہوں کہ آپ لکھنئو کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اس مختصر سے مضمون میں اضافہ بھی کر یں گے ۔ ( نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک) ۔
آپ لکھنئومیں کسی بھی راستے اور ذریعے سے وارد ہوں، ریل گاڑی سے، ہوائی جہاز سے یا بس وغیرہ سے، آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہونی چاہئیے ۔ لکھن نجی آپ کا بڑی خوشدلی اور جوش و جذبے سے خیر مقدم کرے گا اور اِن لمحوں میں پہلے آپ، پہلے آپ کے روائتی تکلفات سے پورے طور پر آزاد ہوگا ۔ اور آپ کے ہونٹ کھلنے سے پہلے خود مسکرا رہا ہوگا ۔ مسکراہٹ لکھنئ ہے اور لکھنئو مسکراہٹ!۔آئیے پہلےلکھنئو کے ماضی بعید پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں ۔ اس ماضی پر جو اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کے بارے میں کچھ جاننے کے لیے ہمیں تصور کی آنکھ سے بھی کام لینا پڑے گا ۔دنیا کے بیشتر خطے ایسے ہیں جہاں سے غنیم کی فوجیں خاک اڑاتی ہوئی بارہا گزری ہیں ۔ بھلے ہی انہوں نے وہاں قیام نہ کیا ہو۔ دھرتی کا وسیع و عریض سینہ گھوڑوں کے ٹاپوں اور لاکھوں پیدل چلنے والوں کے قدموں کی دھمک کو اپنے اندر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جذب کر چکا ہے لیکن تاریخ کے اوراق جب کبھی اس کے اوپر پھڑپھڑاتے ہیں تو وہ اپنے سارے راز اگل دیتا ہے ۔ لکھنئو کی سرزمین کو بھی کتنی فوجیں بارہا دندناتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہوں گی ۔ دریائے گھومتی کے دونوں کناروں پر بسا ہوا یہ علاقہ اس معاملے میں خوش قسمت رہا ہے کہ اس کی زرخیزی، آب و ہوا اور محل وقوع کے پیش نظر بیشمار قوموں اور قبیلوں کے کبھ اس پر عارضی پڑا ڈالا، کبھی یہاں مستقل طور پر بھی بس جانے کے بارے میں سوچ اور سنجیدگی سے فیصلہ کر لیا اور ارض لکھنئوکو سینے سے لگا لیا ۔قدیم دور کی وہ تاریخ جو ابھی تک غیر مرقوم ہے لیکن بعض روایات کی وجہ سے کسی حد تک قابل اعتبار بھی معلوم ہوتی ہے، ہمیں باور کراتی ہے کہ لکھنئو کے اطراف بھی موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی شاندار تہذیب کا حصہ تھے ۔
اور اسے بر صغیر کے ماضی کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رکھنا ہوگا ۔ کوئی پنتیس چھتیس سال ادھر انا (لکھنئو اور کان پور کا درمیانی ضلع) میں محکمہ آثار قدیمہ کے تحت زمین کی کھدائی کا کام شروع ہوا تو نیچے سے پکی و روغنی مٹی کے ایسے برتنوں کے ٹکڑے دستیاب ہوئے جو اس سے بہت مشابہ تھی جو موہنجوداڑو اور ہڑپہ سے برآمد ہوئے تھے ۔لکھن ہمیشہ سے سلطنتِ اودھ کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ سنہ ٥٧٧١ عیسوی میں نواب آصف الدولہ نے فیض آباد چھوڑ کر اسی کو اپنا دارالحکومت بنا لیا تھا اور یہ تب ہی ادوھ اور پھر بعد میں اتر پردیش کا صوبائی صدر مقام بنا رہا ہے ۔ لیکن اس کے عہف جدید میں داخل ہونے سے قبل ذرا روایات کی وہ سرگوشیاں بھی سن لی جائیں جو ہمارے ذہن میں تاریخ ِ انسانی کی نقل و حرکت، فتوحات، شکستوں اور بار بار بدلنے والی طرز بود و باش کی ایک متحیر کر دینے والی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے لے آتی ہیں ۔یہاں کبھی سورج وشنی راجپوت حکمران تھے جو خود کو سورج دیوتا کی اولاد مانتے تھے ۔ یہ وہی آریہ اقوام کے لوگ تھے جو آج سے لگ بھگ تین چار ہزار سال وسط ایشیا سے اٹھ کر ایک صدی سے زائد عرصہ تک قطب شمالی کے یورپی علاقوں اور ایران (فارس) و افغانستان اورشمالی ہندوستان کے وسیع و عریض مرغزاروں میں ہجرت در ہجرت کرتے رہتے تھے ۔ قریبا بارہ سو سال قبل مسیح اودھ کے اس علاقے کا نام کوشیلا تھا اور اسی نام کی ایک قوم بھی یہاں آباد تھی ۔ ہندوں کے قدیم شاستروں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ منو نے سب سے پہلے اس علاقے کو بسایا تھا ۔ اس زمانے میں اجودھیا ہی کوشیلا یا اودھ کی راجدھانی تھی ۔ اور یہ اجودھیا سرجو دریا ( جو اب گھاھگرہ) کہلاتا ہے ، کے کنارے پر آباد واقع ہے ۔ اس علاقے پر راجہ دشرتھ نے حکومت کی تھی اور سورج ونشی نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ رمائن کے ہیرو رام اسی راجہ دشرتھ کے بیٹے تھے ۔تاریخ کے معروف محقق مرزا علی اظہر بر لاس اپنی بیمثال تصنیف تاریخی شہ پارے میں اودھ کی اس زمانے کی تہذیب و تمدن کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں رمائن میں ایک اعلی ترقی یافتی معاشرہ کا بیان ہے ۔ اس وقت کے لوگ زیادہ تر زراعت میں مشغول تھے لیکن ایک ترقی پذیر تاجر طبقہ بھی وجود میں آ رہا تھا ۔ اجودھیا کے آباد شہر کی ایک نہایت دلچسپ تاجروں کے ان مختلف طبقوں کے ذکر سے ہمارے سامنے آ جاتی ہے جنہوں نے رام کی اس طویل جلاوطنی سے دارالحکومت میں فتح مندانہ واپسی پر خیر مقدم کیا ۔ راج کنور رام کا خیر مقدم دوسرے لوگوں کے عالوہ بڑے تاجروں، جواہر تراشوں، ندافوں، اسلحہ سازوں، آراکشوں، شیشہ گروں، نجاروں، طبیبوں، چراغ سازوں، مے فروشوں، دھوبیوں، درزیوں، اداکاروں اور سر کی مالش کرنے والوں تک نے کیا ۔ اداکاروں اور سر کی مالش کرنے والوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ معاشرہ بلاشبہ اعلی درجہ کا ترقی یافتہ تھا۔ڈاکٹر صفدر، اپنی تصنیف لکھن کی تہذیبی میراث میں رقم طراز ہیں، نواب آصف الدولہ نے ھجری٩٨١١ بمطابق ٥٧٧١ عیسوی میں وارث سلطنت ہو کر اپنا دربار لکھنئو منتقل کردیا جس کی وجہ سے شرفا، تجار، علما و فضلا، صناع اور دیگر ایل کمال و فن، فیض آباد چھوڑ کرلکھنئو چلے گئے ۔ جس سے فیض آباد کی عظمت کو گہن لگنے لگا اور لکھن کے تمدن و تہذیب کا عروج ہوا ۔اسی لکھن کے بارے میں امجد علی خان اپنے کتاب تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ میں لکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ شری رام چندر جی نے بن باس سے لوٹنے کے بعد لکھنئو کو اپنے بھائی لچھمن کو دے دیا تھا ۔ لچھمن جی نے یہاں ایک بلند مقام پر کچھ دن قیام بھی فرمایا تھا ۔ جب سے شاید اس مقام کو لچمن ٹیلہ کہا جانے لگا ہے ۔ لچھمن ٹیلہ کے متصل ایک گاں بھی آباد تھا ۔ اس گاں کا نام لچھمن پور یا لکھن پور تھا اور اس میں برہمنوں کی آبادی تھی ۔ ممکن ہے اسی گاں کے نام پر اس شہر کا نام بھی لچھمن پور ہو گیا ہو۔مرزا علی اظہر برلاس نے بھی اس بات کو ذکر ان الفاظ میں کیا ہے، امام باڑہ آصف الدولہ کے شمال میں لب ِ دریا جس ٹیلے پر عالگیری مسجد ہے اور جس کو عام طور پر آج کل ٹیلے والی مسجد یا شاہ پیر محمد صاحب کا ٹیلہ کہتے ہیں، اس کا نام پہلے پہل لچھمن ٹیلہ تھا ۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہاں لچھمن پور آباد تھا ۔۔۔۔۔۔ یہاں پر پہلے راجپوتوں کی آبادی تھی ۔ ٠٦١١ عیسوی میں چند خاندان شیوخ جو مسعود غازی کے ساتھ آئے تھے، انہوں نے لکھن پر قبضہ کر لیا ۔ اور اس وقت سے وہی یہاں پر حکمرانی کرتے رہے ۔ انہوں نے ایک مستحکم قلعہ بھی تعمیر کرایا اور چونک اس قلعہ کی تعمیر لکھنا اہیر کے سپرد تھی اس وجہ سے برواتیے لکھنا اور لچھمن پور بگڑ کر لکھن ہو گیا ۔ مگر اس کا تعین بہت ہی مشکل ہے کہ اس شہر کا نام لکھن ، کب اور کیسے پڑا ٠٤٥١ میں ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سے جنگ کے بعد کچھ دیر کے لیے لکھن ٹھہرا اور یہاں اس کو روپیہ اور گھوڑوں کی مدد دی گئی ۔جس شہر کے تہذیب و تمدن اور تاریخی حالات پر درجنوں تو کیا سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہوں اس شہر کا حال ایک مختصر سے مضمون میں سمیٹ دینا بہت مشکل بلکہ کئی لحاظ سے نا ممکن بھی ہے ۔ اس سے متعلق قدیم زمانہ کی روایات کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے ذکر کو انگریزوں کی آمد اور اودھ کے حکممرانوں کے عروج و زوال یک کی محض فہرست سازی تک محدود کردیا جائے تو یہاں کے ھکمرانوں کی ایک اجمالی تصویر کچھ یوں تیار ہوجاتی ہے :- ۔ نواب سعادت خان، برہان الملک، سلطنت اودھ کے بانی، اصل نام سید محمد امین، سابق وطن نیشا پور (ایران) ۔ خاندانی سلسلہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملتا ہے ۔ ۔ مرزا مقیم ابو المنصور بہادر صفدر جنگ ۔ جلال الدین حیدر نواب شجاع الدولہ بہادر ۔ ۔ مرزا امانی نواب آصف الدولہ بہادر ۔ یمن الدولہ نواب سعادت علی خان ۔ نواب بخاری الدین حیدر ۔ نصیر الدین حیدر شاہ ۔ فریدون بخت رفیع الدین محمد مہدی عرف منا جان ۔ محمد علی شاہ ۔ امجد علی شاہ ۔ واجد علی شاہ عرف جان عالم ( متخلص اختر، پیا) ۔اودھ و لکھن پر شخصی حکمرانی و تلسط کا جو سلسلہ ١٠٥١ سے شروع ہوا تھا وہ یہاں کے آخریتاجدار واجد علی شاہ پر ٧٥٨١ کی جنگ آزادی کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ۔ اس جنگ کے آثار لکھن میں آج بھی ریڈنسی کی پرانی عمارت کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ واجد علی شاہ لکھن کے ہر دلعزیز آخری تاجدار تھے جن کے نام کے ساتھ، رقص و سرود اور منظوم ڈراموں مثلا اندر سبھا و راس میلا وغیرہ کی شاندار روائتیں وابستہ ہیں ۔ انگریزوں نے انہیں سنہ ٧٥٨١ کے بعد معزول کرکے کلکتہ بھیج دیا تھا جہاں انہوں نے مٹیا برج میں اپنی زندگی کے کم و بیش تیس سال جلا وطنی میں گزارے ۔ ان کا انتقال ٧٨٨١ میں ہوا ۔ دراصل ٧٥٨١ میں انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی جنگ آزادی کے تین بڑے مرکز بن گئے تھے ۔ اس جنگ آزادی میں بہادری اور قربانی کے لحاظ سے لکھن کا درجہ دہلی سے کہیں زیادہ اونچا تھا ۔ دہلی کے زوال کے چھ مہینے بعد تک اودھ اور لکھن میں آزادی کا پرچم لہراتا رہا لیکن اس جنگ میں لکھن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ۔ انگریز کا تسلط اور اقتدار اور تشدد و بر بریت ھد درجہ بڑھ گیا تھا ۔ انہوں نے بارونق شہر کو ویران کردیا۔ باغ اجاڑ دیئے اور کوٹھیاں اور عالیشام عمارتیں مسمار و منہدم کردیں اور مشرقی تمدن کے ہر نشان کو روند ڈالا ۔لکھن کی نشو و نما میں کئی حکمرانوں کی کاوشیں شامل رہی ہیں ۔ اکبر کے عہد میں شیخ عبدالرحیم جونپوری نے جو اودھ کا صوبہ دار تھا، یہاں کی عمارتوں میں رد و بدل کراکے اپنی پانچ بیویوں کے لیے پنج محل تعمیر کرایا جو بود میں صفدر جنگ کے عہد میں مچھی بھون کے نام سے موسوم ہوا ۔ شہزادہ سلیم نے مرزا منڈی باغ کی بنیاد رکھی ۔ ٤٧٥١ میں اودھ کے صوبہ دار جوہر خان کے نائب قاسم محمود بلگرامی نے محمود نگر اور شاہ گنج محلے بسائے ۔ چوک کی داہنی طرف اکبری دروازہ بنوایا ۔ شاہجہان کے عہد میں اودھ کے صوبہ دار سلطان علی شاہ کے دو بیٹوں فاضل اور منصور نے چوک کے مغرب میں فاضل نگر اور منصور نگر محلے آباد کئے ۔ اورنگ زیب اجودھیا سے ہوتا ہوا لکھن یا تو اس نے لچھمن ٹیلہ پر ایک شاندار مسجد تعمیر کرائی جو ٹیلے والی مسجد کے نام سے اب بھی مشہور ہے ۔ اورنگ زیب نے اپنے لقب عالمگیر کی رعایت سے عالم نگر بسایا۔ اس طرح اس شہر میں تاریخ کے ہر موڑ پر نئے نئے محلوں، نئی نئی عمارتوں کا اضافہ ہوتا گیا ۔ نواب آصف الدولہ بہادرکا اپنا شہرہ آفاق امام باڑہ، دولت کدہ، ریزیڈنسی اور عیش باغ کی عمارتیں بنوائیں ۔ بی بی پور اور چنہٹ کی بیمثال کوٹھیاں تعمیر کروائیں ۔شاہ زین غازی الدین حید نے دو محلے حیدرآباد اور بادشاہ نگر آباد کئے ۔ اس کے علاوہ مقبرہ سعادت علی خان، مبارک منزل، شاہ منزل، چھتر منزل، ولایتی باغ اور نجف اشرف وغیرہ کئی عمارتیں تعمیر کرائیں ۔ آبپاشی کی غرض سے ایک نہر بھی کھدوائی اور غازی الدین حیدر کینال کہلاتی ہے ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ سخت گرمی کے موسم میں ہندوں کو گنگا اشنان کرنے کے لیے کان پور جانا پڑتا تھا جو گنگا دریا کے کنارے آباد ہے ۔ غازی الدین حیدر نے چاہا کہ گنگا کے متبرک پانی کو ایک نہر کی صورت میں کان پور سے لکھن تک لے آیا جائے جو اسی شہر کے دریائے گھومتی سے بھی مل جائے لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ان کا یہ منصوبہ پورا نہ ہو سکا۔نصیر الدین حیدر بادشاہ نے وکٹورہ اسٹریٹ پر جو آج کل تلسی داس ،ارگ کہلاتی ہے، وہاں ایک ہسپتال اور چوک بازار میں ایک دیسی شفاخانہ قائم کیا تھا ۔ اور دو محلے شیش گنج اور چاند گنج بھی آباد کئے ۔ امجد علی شاہ نے محلہ حضرت گنج آباد کیا اور کان پور تک کنکروں کی ایک پختہ سڑک بنوائی ۔ گومتی دریا پر لوہے کا پل بھی انہی کی یادگار ہے ۔ ان کے وزیر امین الدولہ نے امین آباد بسایا اور وجد علی شاہ نے قیصر باغ، عالم باغ اور سکندر باگ کی عالیشان عمارتیں تعمیر کرائیں ۔ لیکن افسوس کہ ان ہی میں بوض عمارتوں کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں یا ان کی وہ پہلے جیسی شان و شوکت اور آب و تاب نہیں رہی ۔ یہ شہر نگاراں برصغیر کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے ۔ اہل لکھن پر ہندو ثقافت سے کہیں زیادہ مسلم ثقافت کی چھاپ دکھائی دیتی ہے ۔ یہاں حکمرانوں نے دیگر فنون کے علاوہ شعر و ادب کی خاص سرپرستی کی ۔ جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ رہنے سہنے، لباس اور کھانے پینے کے معاملات میں بیحد نفاست پسند اور شعر و ادب کے دلداہ بن گئے ۔ چنانچہ کیا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ یہاں کے پنواڑی تک شعر کہتے تھے ۔ اور ہر شخص چاہے وہ ایک مصرع تک موزوں نہ کر سکتا ہو لیکن خود کو باذوق ظاہر کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ایک عدد تخلص ضرور ٹانک لیتا تھا ۔لکھن شہر نے علم و ادب کے میدان میں کئی دور دیکھے ہیں ۔ عروج اور زوال دونوں قسم کے ۔ اس شہر کی شعری و ادبی روایات جن ہستیوں سے وابستہ ہیں ان میں جرات، مصحفی، سید انشا، قتیل، رنگین، وزیر ، صبا، رند، گویا، رشک، دیا شنکر نسیم، ہادی مرزا رسوا، برج نارائن چکبست، اسیر، نواب مرزا شوق، میر انیس، دبیر، یگانہ چنگیزی ، ثاقب، آرزو، سراج، مولانا عبدالباری آسی، مرزا مچھو بیگ ، رتن ناتھ سرشار، مجاز، سجاد ظہیر، آل احمد سرور، علی عباس حسینی، سید احتشام حیسن، حیات اللہ انصاری، نیاز فتحپوری، میرزا جعفر حسین، ڈاکٹر مسعود اور بیشمار دوسرے اہل قلم شامل ہیں ۔یہاں ہزل گوئی کی بھی ایک روائت رہی ہے۔ جس میں چرکیں، عاشور علی خاں اور جان صاحب وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔ کنگی چوٹی کی شاعری نے لکھن کو کافی بدنام کردیا تھا لیکن فکر و نظر کے میدان میں زندہ دلی اور شوخ طبعی نے بھی اپنے جوہر خوب دکھائے ۔ ریختی کا سلسلہ بھی یہیں سے چلا ۔ ادبی معرکوں کی ایک تاریخ کا سسلسلہ بھی اسی شہر سے جڑا ہوا ہے، جس کا ذکر طوالت کی وجہ سے کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتا ہوں ۔ علم و ادب کی شمع آج بھی روش ہے اور یہاں کے موجودہ عہد کے بعض ادیب و شاعر بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا میں شہرت رکھتے اور انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔نوابوں اور شاہوں کے ادوار میں لکھن اپنی صنعت و حرفت اور بعض مشخلوں میں پورے شباب و عروج پر تھا جس پر بیشمار مضامین اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں ۔ طرح طرح کے لذید کھانے بنانے میں جن میں شیر مال، باقر خوانی، درجنوں قسم کے نان، جلیبی، پراتھے، ملیدہ، دودھ کی پوریاں، پلا، بریانی، شامی کباب وغیرہ شامل ہیں آج بھی لکھنوہ دستر خوان کی زینت ہیں ۔ مرد باروچی تو مشہور تھے ہی، بعض گھرانوں کی بیگمات بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں تھیں ۔لکھن اپںے قدیم طرز کے لباسوں مثلا نیمہ، انگہ کھا چپکن، اچکن، شیروانی، پگڑی ، چوگوشہ ٹوپی، پنج گوشیہ ٹوپی، دو]لی ٹوپی، نکے دار ٹوپی، جرنیلی ٹوپی، عالم پسند ٹوپی، ترکی ٹوپی وغیرہ کے لیے بھی بہت مشہور تھا لیکن اب شیروانی، کشتی نما ٹوپی اور چوڑی دارا پاجامہ ہی باقی رہ گئے ہیں ۔ اور وہ بھی قدیم وضع کے لوگوں میں ورنہ عام طور پر مغربی لباس رائج ہے یا پھر، دھوتی، پاجامہ، کرتا اور جواہر کٹ واسکٹ اور بند گلے کے ہاف کوٹ دکھائی دیتے ہیں ۔ صراحیوں اور جھجریوں کی جگہ اب فرج اور واٹر کولر لے چکے ہیں ۔لکھن کے ذاکر، حدیث خوان، واعقہ خواں، مرثیہ خواں اور سوز خواں بھی بہت ہی مشہور تھے ۔ عصر حاضر میں کلب عابد (موحوم)، کلب صادق، ناصر سید طبقاتی، آغا روحی، پروفیسر شبیہ الحسن، مولانا حمید الحسن، سید کل جواد، ابن حسن زنہروی ( مرحوم ) علی تقی ( مرحوم)، سید خوعشید حسن رضوی، مہذب لکھنوی ( مرحوم) اور اسی طرح کئی دیگر احباب کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔ محرم کے ایام میں یہاں تعزیہ داری، مرثیہ خوانی، سوز خوانی اب بھی نئے اور نئے شہر کی گلی گلی، محلے محلے اور گھر گھر میں کی جاتی ہے ۔ظب و حکمت کی میدان میں لکھن کے حکیموں کے اسمائے گرامی بر صغیر کی احترام سے لیے جاتے تھے۔ حکیم مسیح الدولہ، حکیم شفاالدولہ، حکیم مرزا محمد علی، حکیم سید محمد مرتعش، حکیم کرزا کوچک، حکیم بنا ، حکیم مرزا محمد جعفر، حکیم محمد یعقوب، اور حکیم خواجہ شمس الدین کے نام کے تو ہندوستان بھی میں چرچے تھے ۔ اب بھی پرانے لکھن کی سڑکوں پرنئے حکیموں اور طبیبوں کے ناموں کے بورڈ دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ اب نرسنگ ہومز و غیرہ بھی قائم ہو چکے ہیں ۔لکھن دینوی علوم کا مرکز بھی تھا اور اس کی یہ حیثیت آج بھی برقرار رہے ۔ یہاں فقہ، عقائد، منطق، علوم عقلیہ، طبیعات الہیات، علوم ریاضی میں اقلیدس وغیرہ کی تعلیم دی جاتی رہی ہے ۔ اس میں علمائے فرنگی محل کو خاص ناموری حاصل تھی ۔ ادب، شاعری اور عروض عربی کو شیعہ علما و مجتہدین نے اپنایا ۔ اس وقت بھی یہاں ندو العلما، سلطان المدارس، جماعہ فاطمیہ اور مدرس الواعظین کو ملک بھر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور یہاں نہ صرف ہندوستان پھر سے بلکہ بیشتر اسلامی ممالک سے بھی طلبا تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے رہتے ہیں ۔ جدید تعلیم گاہوں میں لجھن یونیورسٹی، اسپورٹس کالج، اسلامیہ کالج، کرسچین کالج، تعلقادر کالج، کرامت حسین گرلز کالج، جے نرائن کالج، لا مارٹینئر کالج، آئی ٹی کالج، لال باغ کالج، پہلا ودیالیہ، ناری شکشا نکیتن وغیرہ بہت مشہور درسگاہیں ہیں۔ انگریزی سکولوں کی تعداد پیش کرنا تو بہت مشکل ہے اس لیے کہ ایسے پرائمری و مڈل سکول پر محلے اور ہر نئی کالونی میں سینخروں کی تعداد میں موجود ہیں ۔بڑے ہسپتالوں میں میڈیکل کالج، بلرام پور ہسپتال، سنجے گاندھی میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، کوئین میری ہسپتال، ڈفرن ہسپتال، سول ہسپتال، وویکا ہسپتال، آیورویدک ہسپتال اور طبیہ کالج کے علاوہ یہاں دفامی امراض کے لیے نور منزل بہت ہی مشہور ہے ۔ ساھنی سنٹرل ڈرگ ریسرچ انس ٹیوٹ اور اس کے سامنے ایک نو منزکہ عمارت میں زہروں پر ریسرچ کرنے کے لیے ایک خصوصی انسٹی ٹیوٹ قائم ہے اور ایک ہسپتال ہڈیاں جوڑنے اور مسنوعی انسانی اعضا لگانے کے لیے بھی قائم کیا جا چکا ہے ۔تفریح و سیر سپاٹے کے لیے عجائب گھر و چڑیا گھر ایک ہی احاطے میں قائم ہیں ۔ ان کے علاوہ بچوں اور بڑوں کے لیے ہاتھی پارک، بدھا پارک، نیبو پارک اور وکٹوریا پارک کے علاوہ کئی نئے اور جدید طرز کے پارک بنائے گئے ہیں ۔ گومتی کے کنارے کنارے کئی جگہ ایسے پارک بنائے گئے ہیں جہاں پرانے اور نئے شہر میں رہنے والے صبھ و شام ہوا خوری کے لیے نکل جاتے ہیں ۔ ڈالی گنج پک کے سامنے سورج کنڈ پارک اپنی مثال آپ ہے ۔ اندرا نگر کے مشرق میں ککریل نالے پر مگر مچھ کی افازائش نسل کے لیے ایک پکنک اسپاٹ ہے جہاں چھٹی کے روز سینکڑوں لوگ پہنچ جاتے ہیں ۔ وہیں فریدی نگر گاں میں خوشبوں پر ریسرچ کرنے کے لیے ایک انسٹی ٹیوٹ قائم ہے ۔ سکندر باغ کے علاقے میں ایک نیشنل بوٹانیکل ریسرچ سنٹر مدت سے قائم ہے ۔لکھن کی بڑی اور چھوٹی لائبریریوں میںامیر الدولہ لائبریری، آچاریہ نریندر دیو لائبریری، ٹیگور لائبریری، رفاع عام کلب لائبریری، برٹش کونسل لائبریری، گنگا پرشاد ورما میموریل لائبریری، سوچنا کیندر لائبریری اور اردو اکادمی کی مرکزی لائبریری وغیرہ شامل ہیں ۔کلاسیکی موسیقی و علم رقص میں تربیت دینے کے لیے لکھن میں ایک بھاٹ کھنڈے میوزک یونیورسٹی اور ڈراما سے متعلق ایک سنگیت اکادمی بھی قائم ہے ۔ موسیقی و رقص کے ساتھ لکھن کی ان طوائفوں کا ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے جن کے گھنگرآں کی جھنکار اور طبلوں کی تھاپ سے کبھی پرانے لکھن کے گلی کوچے گونجتے رہتے تھے اور کوٹھوں کی سرپرستی لکھن کے نواب اور رئیس لوگ کیا کرتے تھے ۔ موسیقی و رقص کی بڑی بڑی محفلوں میں، فلوٹ، وینا، ستار، سرور، سارنگی، شہنائی کی دلربا شیرین دھنیں گونجتی تھیں ۔ انہیں سننے کے لیے پرانے لوگوں کے کان اب ترستے ہیں ۔ نئی نسل کے لوگ، راگ درباری، اساروی، کافی، راگ یمن ، کلیان، بھوپالی ، بھیم پلاسی، باگیشور اور پیلو وغیرہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ۔ لکھن میں اب یہ کوٹھے ختم ہو چکے ہیں اور ان کے صرف افسانے باقی رہ گئے ہیں ۔ واجد علی شاہ کی سرپرستی میں ہونے والے برج اور متھرا کے میلوں میں تلوار کی دھار پر ناچنے والے کتھک کے ماہرین کالکا اور بندا دین اب بھولی بسری داستانیں میں اگرچہ ان کے خاندان کے نام لیوا کبھی کبھی ماتم فن کرنے کے لیے ٹیلی ویژن پر دکھائی دے جاتے ہیں ۔ با کمال رقاصوں کے علاوہ نقالوں، بھانڈوں، ڈومنیوں وغیرہ کا زمانہ بھی لد چکا ہے ۔ لکھن اب ایک جدید شہر ہے جو اپنی پرانی تہذیب و ثقافت کے کھنڈروں میں پیدا ہو رہا ہے اور اپنے ساتھ نئی نئی کئی کئی کنزلوں کی عمارتیں لے کر ابھر رہا ہے ۔ اس سلسلے میں بجلی بورڈ کا چوبیس منزلہ شکنی بھون، جواہر بھون، کونسلر ہاس اور کئی نئی تجارتی عمارتوں کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔ جن میں کئی تعمیر ہو چکی ہیں اور کئی تعمیر کے مراحل سے گزر رہی ہیں ۔ لکھن اب نئی کالونیوں کا شہر ہے ۔ اس کے چاروں طرف بیشمار نئی نئی کالونیاں آباد کی جا چکی ہیں ۔ جن میں فی الوقت سب سے بڑی کالونی اندرا نگر ہے ۔ اور اس سے بھی بڑی کالونی گومتی نگر کے نام سے آباد ہے ۔ سروجنی نگر، کرشنا نگر، سنگارنگر، چندرنگر، راجہ جی پورم، علی گنج اسکیم، نرالا نگر وغیرہ کے علاوہ نجانے کتنی سرکاری و غیر سرکاری بستیاں بن چکی ہیں ۔ جو گزشتہ کئی سالوں سے نجانے کتنے کھیتوں اور باغات کو نگل گئی ہیں ۔یہاں نے مشہور ہوٹلوں میں تیرہ منزل کلارک اودھ، کارلٹن ہوٹل اور گومتی ٹورسٹ سنٹر اور کوہ نور خاصے مشہور ہیں ۔ پرانے بازاروں میں چوک، مولوی گنج، امین آباد، حضرت گنج اور لاٹوش روڈ اب بھی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہر کالونی کا اس کے ساتھ اپنا ایک چھوٹا سا بازار بھی ہوتا ہے ۔سیمنا گھروں کی تعداد بیس سے زیادہ ہے ۔ ٹیگور کے نام سے موسوم، روندرالیہ ایک بہت ہی اچھا ثقافتی مرکز ہے جہاں ڈرامے اور کانفرنسیں منعقد ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے عالوہ بیشمار پرانے اور نئے ہال بھی بنوائے جا چکے ہیں ۔ کھیل کوڈ کے لیے ایک سنٹرل اسپورٹس اسٹیڈیم گومتی کے کنارے بنایا گیا تھا جس کے اندر تیراکی کا تالاب بھی ہے ۔ شہر کے باہر سیتاپور روڈ پر ایک نیا اسپورٹس کالج کھولا گیا ہے جس کے میدان پر ہاکی کے عالمی مقابلے ہو چکے ہیں ۔لکھن میں سواری کے لیے تانگے اور یکے اب خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ پرائیویٹ ٹیکسیاں اور آٹو رکشا بھی ہیں ۔ اور عام رکشا بھی بکثرت ہیں جنہیں آدمی چلاتے ہیں ۔ یہ سائیکل رکشائیں، اس لیے بند نہیں کی جا سکیں کی ان کے مالکوں اور انہیں چلانے والوں کی ایک یونین ہے جس پر سیاسی جماعتوں کا قبضہ ہے ۔ لیکن آٹھ سواریاں لے جانے والی یہاں کی ایک آٹو ٹمپو بہت مقبول ہیں یہ سستی بھی ہیں اور دور دور کی کالونیوں میں بھی پینچا دیتی ہیں ۔یہاں سے ریل گاراں اور آرام دہ بسیں ملک میں ہر سمت کو جاتی ہیں ۔ پورا صوبہ، دہلی، ہریانہ، پنجاب، بہار بنگال، مدھیہ پردیش سے جڑا ہوا ہے ۔ دہلی، کلکتہ اور بمبئی وغیرہ جانے کے لیے ہوائی سروس بھی موجود ہے جس کے لیے لکھن کا اپنا ہوائی اڈہ موجود ہے ۔قدیم روائتی عطریات مثلا کس، کیوڑہ، گلاب، چمبیلی وغیرہ اور چکن سازی کے لیے لکھن کی اب بھی بڑی شہرت ہے ۔ چینی برتن بنانے کی ایک فیکڑی کے بنائے ہوئے چینی کے برتن ملک بھر میں مشہور ہیں ۔ مٹی کے کھلونے صرد دیوالی کے موقع پر نظر آتے ہیں ۔ پیتل اور تانبے کے برتنوں کی جگہ اب اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں نے لے لی ہے اور مٹی یا پیتل کے بنے چراغ تو کبھی کے گل ہو چکے ہیں ۔آخر میں دو تین چیزوں کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا ۔ یہاں کی سیاست اور اخبارات وغیرہ کا۔جس صوبے نے آزادی کی جد جہد میں ایک خاص کردار نبھایا ہو اور جس نے ملک کو زیادہ تعداد میں وزیر اعظم دیے ہوں ( ہنڈت جوہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، چودھری چرن سنگھ اور راجیو گاندھی وغیرہ اور جہاں سے ہر صوبے سے زیادہ تعداد میں یعنی پچاس ممبران پارلیمنٹ کی نشستیں ہوں وہاں سیاست کا بازار ہر وقت کیوں نہیں گرم رہتا ہو گا ۔ یہاں کی اہم ترین سیاسی جماعتوں میں کانگرس، بھارتیہ جنتا پارٹی، کمیونسٹپارٹی، لوک دل، جنتا پارٹی کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔ مسلم مجلس اور مسلم لیگ بھی ہیں لیکن محض برائے نام ۔ شہر بھر کی دیواروں پر سیاسی نعرے لکھے ہوئے ہر وقت دیکھے جا سکتے ہیں اور کونسل ہاس کی طرف انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے جانے کا ہر پارٹی اور ہر یونین کو حق حاصل ہے ۔ لیکن انہیں تشدد پر اترآنے سے روکنے کے لیے لتھ بردار پولیس بھی ہر وقت بڑی تعداد میں موجود رہتے ہی ۔ بلکہ کبھی کبھی تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ سارے لکھن کو پولیس کو بس اسی طرف ہانک دیا گیا ہے۔لکھن میں اخبارات کی اشاعت کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ بوض اپنا کردار نبھا کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکے ہیں ۔ منشی سجاد حسین اور مرزا مچھو بیگ کا اودھ پنچ، پنڈت تربھون ناتھ ہجر اور رتن ناتھ سرشار کا اودھ اخبار کے علاوہ رسائل میں محشر، دلگداز، نگار اور کتاب وغیرہ کے بعد اردو کے روزناموں میں قومی زبان اور عزائم کے ساتھ ساتھ چند ایک دوسرے اخبارات باقاعدگی سے نکل رہے ہیں ۔ انگریزی میں پانیئت، نیشنل ہیرالڈ، ٹائمز آف انڈیا، ناردن انڈیا پتریکا شائع ہوتے ہیں ۔ ہندی میں سوتنتر بھارت، نیو بھارت ٹائمز، اور امرت پتریکا کے علاوہ چند ایک دوسرے اخبار بھی شائع ہوتے ہیں لکھن میں اخبارات کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا اخبارات کے علاوہ دہلی سے ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپرس، ہندو اور اسٹیٹسمین کی ہزاروں کاپیاں روزانہ یہاں فروخت ہوتی اور پڑھی جاتی ہیں ۔لکھن والوں کے لیے سیاست اور اخبار بینی کے عالوہ کوئی اور بڑی دلچسپی ہے تو وہ مشاعرے ہیں جو سارا سال ( ماہ محرم کو چھوڑ کر ) کئی جگہوں پر منعقد ہوتے ہیں اور ان میں پاک و ہند کے علاوہ یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا تک کے اردو شعرا کو مدعو کیا جاتا ہے ۔ شعری نشستیں تو پرانے لکھن کے گلی کوچوں میں میں بکثرت جمتی ہیں جہاں شاعر ہی ایک دوسرے کو اپنا کلام سناتے ہیں اور داد دے اور داد لے کر خوش ہو لیتے ہیں ۔ اب ان کی محفلیں امین آباد کے ہوٹلوں اور رستورانوں میں نہیں جمتیں اس لئے کہ وہاں انتظامیہ نے ایسے سائب بورڈ مضبوط کیلوں سے لگا رکھے ہیں جن پر لکھا ہے یہاں شاعروں کا زیادہ دیر تک بیٹھنا منع ہے ۔لکھن کے ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے لیے اب بھی حسب سابق ایک ہی جگہ ہے اولڈ انڈیا کافی ہاس یہ حضرت گنج کے جنوبی سرے پر الہ آباد بنک کے عین سامنے واقع ہے ۔ یہاں کافی کی ایک پیالی یا اپنی پسند کے کسی مشروب کا ایک گلاس طلب کرکے وہ دن بھر بیٹھے رہ سکتے ہیں اور بیٹھے بھی رہتے ہیں اور لمبی لمبی بحثیں کرتے رہتے ہیں اور کبھی تھکتے نہیں ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں اردو، ہندی اور انگریزی کے نامور اہل قلم اور صحافی اور بڑے چھوٹے سیاستدان بلا ناغہ آیا کرتے تھے ۔ سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبدالعیم، پروفیسر آل احمد سرور، سید احتشام حسین، آند نارائن ملا، اسرار الحق مجاز، سلام مچھلی شہری، یشپال اور کئی دوسرے یہیں ڈیرے ڈالے رکھتے تھے ۔ شنید ہے کہ ای دو بار پنڈت جواہر لال نہرو اور قائد اعظم محمد علی جناح بھی یہاں تشریف لائے تھے ۔ لیکن یہ آزادی سے بہت پہلے کی بات ہے ۔ خود راقم ( نصر ملک ) کو بھی یہاں جانے اور وہاں کچھ ادیبوں شاعروں اور صحافیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں کسی وزیر یا ریاستی اعلی عہدیدار کے اچانک در آنے پر کافی ہاس میں موجود صحافیوں میں کسی قسم کی کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی بلکہ لوگ اپنی اپنی میزوں پر بڑی شان بے نیازی اور اطمینان سے بیٹھے باتوں کو مصروف رہتے ہیں اور مسکراتے رہتے ہیں ۔ اور یہیں مسکراہٹ انہیں دوسروں میں ممتاز رکھتی ہے ۔ آپ بھی چاہیں تو اسی انداز میں ان مسکراتے، قہقہے لگاتے لوگوں کے پاس کوئی خالی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ جائیں اور جب تک بحث کا کوئی ایک سرا ہاتھ نہ آئے ان کی طرف دیکھ دیکھ کر بس مسکراتے رہیں ۔ اگر آک کی جیب میں پان ہوں تو کیا کہنا! اس کی جھلک دیکھتے ہی وہ خود آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ آداب عرض ہے۔ کب تشریف لائے؟ ہم پہلے بھی شاید مل چکے ہیں ؟ مزاج شریف!۔
Wah kia khoob likhte hn aap, aapko yad hoga aap mere pas norway aie the ar apne hi ghr tahre the ,Bilal ke sath aapki tasveeren aaj b mere pas hn. Kbi tashreef laie .
بہت خوب نصر صاحب آپ نے بہت ہی اچھا اور تفصیلی سفرنامہ لکھا ہے۔میری بھی اس شہر سے ایک خاص وابستگی ہے میں نے اپنے ابو سے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے میرے دادا جی لکھنئو میں تقسیم سے پہلے بلال حسین گنج نامی علاقے میں رہتے تھے پھر وہاں سے ہجرت کر کے راولپنڈی میں آباد ہو گئے مگر لکھنئو کو دیکھنے کا اشتیاق ہنوز دل میں ہے۔آپ کے اس تازہ بہ تازہ آرٹیکل نے کافی تشنگی کم کر دی ہے۔
اتنا اچھا آرٹیکل لکھنے اور لکھنوی گلیوں اور تہذیب سے ملوانے کا شکریہ